183

 تبدیلی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے چترال کے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے متاثرین زلزلہ کے لئے جاری ۸۰کروڑ روپے خردبرد کا انکشاف

مستوج( کریم اللہ) یوں تو گزشتہ تین برسوں سے خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کی جانب سے مسلسل دعوے سامنے آرہے ہیں کہ صوبے میں کرپشن پر قابو پایاگیا ہے سرکاری ادارے اب عوام کے خادم ہے اور اس حکومت میں سرکاری اہلکاروں کی جانب سے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا یہ تبدیلی اور کرپشن فری صوبے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ حالانکہ آئے روز سرکاری اہلکاروں کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور فنڈز وامدادی رقوم میں خردبرد کی نئی داستانین رقم ہورہی ہے، اس سلسلے کا پہلا کیس مستوج کے تحصیل انتظامیہ کی جانب سے سامنے آیا جبکہ ریشن پاؤر ہاؤس کے متاثرین کے لئے دی گئی سولروں میں بڑے پیمانے پر خردبرد کیاگیا لیکن ابھی تک اس بدانتظامی میں ملوث تحصیل انتظامیہ کے اہلکاروں کی کوئی پوچھ کچھ نہ ہوسکی ۔ حال ہی میں بعض انتہائی باخبر ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ۲۶اکتوبر ۲۰۱۵ء کے زلزلہ متاثرین کے لئے جاری امدادی رقوم میں سے آٹھ ملین یعنی اسی کروڑ روپے متاثرین کو ملے بنا ضلع وتحصیل انتظامیہ کے ہاتھوں ہڑپ ہوگئی۔ جونہی زلزلے کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف نے متاثرین کے امدادی رقوم کا اعلان کردیا تو تحصیل وضلع انتظامیہ نے متاثرین کی سروے کاآغاز کیا البتہ جن اہلکاروں کو سروے کے لئے بھیجاگیا تھا مستوج کے تحصیل انتظامیہ نے اس سروے کو منظور کرنے کی بجائے انہیں مسترد کردیا اور پٹواری کے اہلکاروں پر دباؤڈالاگیا کہ متاثرین کے ناموں میں بڑے پیمانے پر تخفیف کی جائے جب ان اہلکاروں پر بہت زیادہ دباؤ ڈالاگیا تو اکثر متاثرین کے ناموں کو خارج کردیا۔ جب تخفیف کے بعد امدادی چیک تقسیم ہوئے۔ تو اکثر بے سہارا اور غریب متاثرین زلزلہ کوامداد سے محروم رکھا گیا۔ جس کے خلاف تحریک حقوق مستوج نامی تنظیم نے بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا اس سلسلے کا سب سے بڑا احتجاج چرون کے مقام پر منعقد ہوا جس کے بعد ڈپٹی کمشنر چترال نے تحریک کے قائدین کے ایک وفد کے ساتھ ملاقات کی۔ وفد نے ڈی سی چترال کو سارے حقائق سے آگاہ کیا اور ڈپٹی کشمنر نے ان کے جائز مطالبات کو منظورکرنے کافیصلہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں مزید اقدام اٹھانے کے لئے بونی آکر تحریک حقوق عوام کے ساتھ دوبارہ منٹنگ کرکے لائحہ عمل اختیارکرنے کاوعدہ کیا۔ تحریک کے ایک رکن اور وی سی بونی ۱ کے نائب ناظم پرویز نے بتایا کہ وفد نے ڈی سی سےطالبہ کیاتھا کہ وہ بونی آکر ٹی ایم اے کے دفتر میں عوامی نمائندگان اورتحریک حقوق مستوج کے اراکین سے ملاقات کریں گے البتہ اس سے قبل وہ اے سی ہاؤس میں نہیں جائینگے جسے بھی ڈپٹی کمشنر نے منظور کیا۔ پھرجونہی ڈی سی چترال اپنے وغدے کے مطابق بونی آئے تو چند سیاسی افراد نے اے سی مستوج سے مل کر اے سی ہاؤس میں کھلی کچھری کا انعقاد کیا حالانکہ ڈی سی کے منصوبے میں کھلی کچھری سرے سے موجود ہی نہ تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سارے کھیل تماشے میں سابق ایم پی اے غلام محمد، ممبر تحصیل کونسل بونی سردارحکیم، سابق تحصیل ناظم شمس الرحمن، وائس چیرمین فیض الرحمن وغیرہ شامل تھے جنہوں نے ڈی سی کے دورے کو اپنے مفاد میں استعمال کرکے کھلی کچھری منعقد کیا اور ڈی سی کے سامنے زلزلہ متاثرین کے لئے جاری کردہ رقم کو ترقیاتی کاموں میں استعمال کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد ڈی سی چترال کا تحریک حقوق عوام مستوج اور عوامی نمائندگان جو ڈی ایم اے آفس میں موجود تھے کے ساتھ ڈی سی کا رویہ ایک دم تبدیل ہوگیا۔ پھر کیاتھا زلزلہ متاثرین کے لئے جاری رقم کا کچھ بھی سراخ نہ ملا۔

یا د رہے بھر پور عوامی دباؤ کے بعد سب ڈویژن مستوج میں دوبارہ پٹواریوں کے ذریعے گھرگھر دوبارہ سروے کیاگیالیکن تاحال اس سروے کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اگر زلزلہ متاثرین کے لئے امدادی رقم موجود نہیں تھی تو پھر انتظامیہ کی جانب سے دوبارہ سروے کرکے عوام کو بے وقوف بنانے کی ضرورت کیاتھی؟ اور اگر رقم موجود تھی جو انتظامیہ کے باخبر ذرائع کے مطابق اسی کروڑ روپے زلزلہ متاثرین کی مد میں ڈپٹی کمشنر کے پاس موجود تھی تو پھر اس رقم کیابنا؟ لگتا ہے زلزلہ متاثرین کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اسی کروڑ روپے چترال کے ضلع اورتحصیل انتظامیہ نے نگل لئے ہے۔ عوامی حلقے زلزلہ کے ایک برس بیتنے کے بعد امدادی رقم نہ ملنے پر مطالبہ کررہے ہیں اس رقم کی انکوائری کی جائے۔تاکہ عوام کی دادرسی کے لئے حکومت کی جانب سے جاری کردہ رقم کے کرپشن کا احتساب ہوجائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں