221

محبانِ اُردو ادب۔۔۔۔پروفیسرمظہر

اپنی تو عمرِ عزیز اُردو ادب پڑھتے پڑھاتے گزری لیکن بحرِ ادب کے پھر بھی شناور نہ ہو سکے ۔یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی اُردو ادب سے محبت کرنے والوں کا ’’اَکٹھ ‘‘ ہوتا ہے ، چلے آتے ہیں ۔اللہ بھلا کرے یو ایم ٹی کے اربابِ اختیار کا جو ہر ماہ کی پہلی اتوار کو ’’لاہوری ناشتے‘‘ کی آڑ میں ادبی بیٹھک کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ویسے تو اُن کا ناشتہ بھی بہت زبردست ہوتا ہے ، خصوصاََ ’’پائے ‘‘ تو بہت اعلیٰ پائے کے ہوتے ہیں جن سے احباب پورا پورا انصاف بھی کرتے نظر آتے ہیں لیکن کثیر تعداد میں اہلِ فکر ونظر کو ایک چھت تلے جمع کرنا یو ایم ٹی کے اربابِ اختیار ہی کا کام ہے ۔ اتوار 5 نومبر کو اُنہوں نے پھر محفل سجا دی جس میں حسبِ سابق ادیب بھی تھے ، صحافی بھی تھے اور تجزیہ نگار بھی ۔ اُردو ادب سے اتنی محبت ۔۔۔۔ ؟ پہلے کبھی دیکھی نہ سُنی۔
قائدِاعظم نے تو قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی اُردو کو قومی زبان کا درجہ دے دیا تھا لیکن سات عشرے گزرنے کے باوجود اِس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جواد ایس خواجہ نے تین ماہ کے اندر اُردو کو دفتری زبان قرار دینے کا حکم نامہ بھی جاری فرمایا لیکن تاحال اُس پر عمل درآمد ممکن نہ ہو سکا۔ قومی زبان کی خدمت حکمرانوں کا کام ہے لیکن اُنہیں تو اقتدار کی جنگ ہی سے فرصت نہیں ۔ کسی کو یہ ہوش تک نہیں کہ وطنِ عزیز جس نازک دَور سے اب گزر رہا ہے اِس سے پہلے شاید کبھی نہ گزرا ہوگا ۔ ایک طرف ہمارا بدترین دشمن بھارت سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے ، مقبوضہ کشمیر میں وحشت و بربریت کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں، دہشت گردوں کی کمر توڑی جا چکی لیکن پھر بھی مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا اور وہ کہیں نہ کہیں اپنا وجود ظاہر کرتے رہتے ہیں، پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہا کرنے کی بھرپور سازشیں بھی ہو رہی ہیں جبکہ دوسری طرف اندونی محاذ پر ہمارے ملکی و قومی مفاد سے بے نیاز رہنماء مسندِ اقتدار کے حصول کی خاطر باہم دست و گریباں ، کبھی پاناما لیکس کا بہانہ تو کبھی ڈان لیکس کا شور ۔ ایسے میں بھلا اُنہیں قومی زبان ،قومی لباس اور قومی شناخت کے لیے کچھ کر گزرنے کی فرصت کہاں۔ اگر یو ایم ٹی کے اربابِ اختیار نے اُردو ادب کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہے تو اِس کی جتنی تعریف ، جتنی حوصلہ افزائی کی جائے ، کم ہے۔
اِس ادبی بیٹھک کا سہرا یونیورسٹی کے پریس انچارج مرزا الیاس صاحب کے سَر ہے جن کی شیریں بیانی ، گفتگو میں ٹھہراؤ اور دھیما پَن براہِ راست دلوں کو مسخر کرتا ہے ۔ اُن کے ابتدائی کلمات ہمیشہ مسحور کُن ہوتے ہیں اور جس طرح وہ انتہائی سادگی سے اپنا مطمح نظر بیان کرتے ہیں ، اُسے دیکھ کر تو بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے
تُو جاں بھی مانگ لے تو حاضر ہے بے دریغ
تیرے لیے خلوص کی کوئی کمی نہیں
تتلی کی طرح یہاں سے وہاں محوِرقص ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کی بے قراری میں خلوص کے ابلتے دریاؤں کی سی روانی ہے ، اُن کا پُرخلوص لہجہ دیکھ کر یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے وہ ہمارا ہی انتظار کر رہی ہوں ۔ حالانکہ یہ اُن کا فنِ تخاطب ہے ۔ اِس فن کو دیکھ اور محسوس کر کے ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔اِس ادبی بیٹھک کا ایک جاندار کردار نوجوان احمد سہیل ہے جس کا مؤدب لہجہ اور آگے بڑھ کر استقبال کا انداز ہم جیسوں کے دلوں پر اپنے گہرے نقوش ثبت کرتا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اِس نوجوان کے اندر کچھ سیکھنے کی اُمنگ جواں ہے ۔ایسے ہی پُر عزم نوجوانوں کو دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ اقبال ؒ کے ’’شاہیں‘‘ کم سہی لیکن ہیں ضرور ۔ حیرت ہے کہ یو ایم ٹی نے ایسے نگینے کہاں سے تلاش کر لیے ۔ لائقِ تحسین ہیں وہ لوگ جو اِس قحط الرجال میں بھی مقدور بھر اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کی تگ و دَو کر رہے ہیں۔ اگر یہ گِنے چُنے لوگ بھی خاموشی کی چادر اوڑھ لیں تو پھر منزل بعید تر ہوتی چلی جائے گی ۔ آخر صداقتوں کی شمعیں فروزاں کرنے والے کچھ لوگ تو ہونے چاہییں جو اُس علیم و خبیر کی ودیعت کردہ دانش کو بروئے کار لا کر ’’جہاد بالقلم‘‘ کے لیے ایستادہ ہو جائیں۔
پچھلی ادبی بیٹھک کے مہمانِ خصوصی محترم امجد اسلام امجد تھے ۔ یوں تو غائبانہ طور پرامجد اسلام امجد کی شخصیت سے پورا پاکستان ہی آگاہ ہے لیکن’’ کلامِ شاعر بزبانِ شاعر‘‘ کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ اُنہوں نے اپنا کلام سنا کر خوب سماں باندھا ۔اب کی بارمدار المہام محترم سجاد میر تھے جن سے قریبی تعلق بھی ہے اور ساہیوال کے حوالے سے خلوص و محبت کا رشتہ بھی ۔ اُن سے کئی ملاقاتوں کے باوجود یہ راز یو ایم ٹی کی چھت تلے کھلا کہ وہ دبنگ کالم نگار ہی نہیں ،بحرِ ادب کے شناور اور اعلیٰ پائے کے شاعر بھی ہیں ۔ اُن کے خطاب میں شوریدہ سری نہیں ،معقولیت کے دَر وا ہو رہے تھے اور الفاظ کی مہکار دلوں میں اترتی محسوس ہوتی تھی۔ اُنہوں نے اپنے مختصر خطاب میں اُردو ادب کی پوری تاریخ کا تجزیہ کر ڈالا لیکن تشنگی پھر بھی برقرار رہی ۔ کاش اُن کی چائے ’’ٹھنڈی‘‘ نہ ہو رہی ہوتی اور ہم اُن کی گفتگو سے مزید لطف اندوز ہو سکتے ۔ اُن کا مختصر خطاب سننے کے بعد یوں محسوس ہوا کہ ہم تو اِس عمر میں بھی طفلِ مکتب ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں