415

چترال کی بدلتی کھو ثقافت….تحریر: پروفیسرشفیق احمد

ثقافت کے لغوی معنوی “تہذیب  یا کلچر”ہے۔کلچر کے معنی سے سب باخبر ہیں وضاحت کرنے کی ضرورت  نہیں  ہے،تہذیب عربی زبان کا لفظ  ہےبلحاظ لغت عربی زبان میں شاخ تراشی کو کہتے ہیں ۔یعنی کانٹ چھانٹ کرنا ،اضافی غیر ضروری شاخوں کو کاٹنے سے باغ کی  کیاریاں اچھی لگتی ہیں اور پھلدار پودوں پر اسکے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انساں بناؤ سنگار سےتو بھلا لگتا ہے، ورنہ انساں بھی اپنے  بڑھے ہوئے بال، بےوضع لباس اوربےڈھنگ گفتگو سے،کسی وخشی جانور کی روپ اختیا ر کرلیتا ہے ۔جب اپنے آپکو سنوارتا ہے تو انساں اپنی بشری روپ میں نظر آتا ہے ۔یعنی معاشرے میں زائد نظرآنے والی چیزیں ،اونچ نیچ اوراونگ پٹانگ حرکتوں سے بھی انسانی ماحول   بے  ترتیب نظرآتا ہے ۔ لہذا انساں معاشرے   کےخامیوں ،کمزوریوں اوراونچ نیچ کو مٹا کر معاشرے کے لئے ایک  قواعدو ظوابط اورقول وفعل  میں ایک خاص ترتیب  پیدا کر کے،زمانے کےلئےقابل قبول بنا کر پیش کرتا ہے۔لہذااپنی آبأ کےانہی قابل قبول اصول عادات وطواراو ررسوم ورواج وغیرہ کو ثقافت کہتے ہیں جو انہی اثرات کے بنأپر کسی معاشرے کی معیشت،مذہب ،زبان ،بودوباش اور  طرز زندگی کی ترجمانی کرتی ہے۔ تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے نظردوڑائیَے، تو چترال کی آبادی بھی بہت  قدیم ہے، چارہزار قبل از مسیح دور کی قبریں بھی دریافت ہوچکی ہیں ۔اس کامطلب یہ ہے کہ آٹھ نو فٹ گہرائی میں  دریافت ہونے والی قبریں کسی تہذیب یافتہ زمانے کے ہونگے کیونکہ وہ لوگ  دفن کرنا جانتے تھے، اسے اندازہ ہوتا ہے کہ چترال کی آبادی اسے بھی زیادہ  قدیم ہوگی۔اسی زمانے سے کہوثقافت میں بے شمار چیزیں شامل ہوتے آرہے ہیں ، ان میں شادی بیاہ ،غمی خوشی ،رہن سہن ،بودوباش ،طرزگفتار،زبان و ادب ،طرز خوراک وغیرہ وغیرہ تما م پہلو شامل ہیں،جن کاایک ایک کر کے نام لینا مشکل ہے  ۔اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ چار ہزار قبل آز مسیح دور کے طور طریقے پر چلتے رہے یا اس زمانے کی طرح  غاروں میں رہے  اور بےغیر پکائے گوشت  کھاتے رہے۔لہذا زمانہ ترقی کرتا جاتا ہے تو انسانی آبادی کے رسوم ورواج اور بودوباش میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہےکیونکہ زمانہ  انہی وضع شدہ  اصولوں سے انحراف کر کے اس سے مٹاتانہیں ہے،بلکہ  اس میں کانٹ چھانٹ کر کے، مناسب تبدیلی لاکر جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق بنا کر پیش کرتاہے۔یقیناً بعض اُصول مختلف وجوہات کے بنأ پرمکمل طورپر  ختم بھی ہوتے ہیں ۔جن میں سب سے اہم پہلو مذہبی تبدیلی ہے یقینا ًہم قدیم چترال کے طور طریقوں کو اسلام کی آمد کے بعد نہیں اپنا سکتے ہیں ،کیونکہ اس زمانے کے توہم پرستی کے اثرات کو آج ہم بدغت سمجھتے ہیں اور اس قسم کے کاموں سے باز رہنے کی تلقین بھی  کرتے رہتے ہیں ۔

اسلام کی آمد اور کھو ثقافت :

بالائی چترال  کے راستے   اسلام کی  آمد کے فوراً بعد تمام غیرشرغی رسوم ورواج،  اچانک  ختم نہیں ہوچکے ہونگے اور ہنوزتبدیلی  کا سلسلہ جاری وساری ہے،کیونکہ قدیم دور توہم پرستی کا دور تھا ۔موجودہ خطہ ،روحانی لحاظ  سےبُدھ مت ،جن مت زرتشت،کیلاش مذا ہب اور حکومتوں کی  آماجگاہ رہ چکی ہے۔
qalamdarاور انکے اثرات چترال کے مختلف وادیوں میں ملتے رہتے ہیں جن میں مغربی نام ” جے ورمن” مشرقی نام” بہمن کوہستانی”دور  کےسٹوپےکا نقشہ، مختلف مقامات میں کھروشتی رسم الخط سے پتھروں کے اپر کندا کر دہ یاداشتیں  ،رائین ،چیرون اور برنس میں  موجود ہیں ۔موجودہ کیلااش  مذہب کے اثرات بالائی چترال میں عمومی طورپر  اورحصوی طور پر زیریں چترال کےکھو ثِقافت میں شامل ہوچکے ہیں ۔شاعر مولانا الطاف حسین حالی مسدس حالی کے ایک بند میں یوں گویا ہے  ؏

کہیں آگ پجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سوبسو جابجا تھا
کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی

یقیناً اسلام کی آمد کے بعدانہی آگ پرستی،ستاروں کی پرستش ،تثلیث پر جان قربان اور بتوں کی عبادت کے دور کاعرب میں خاتّمے  کے ساتھ ساتھ اسلام کی روشنی برصعیروپاک و ہند میں بھی  پھیل گئی ۔ اسے پچھلے مضمون میں چترال میں اسلام کی آمد کے بارے میں  تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جا چکا ہے ۔اسلام کی آمد کے بعد پیدا ہونے والی اثرات کو  گہری نظر سے دیکھی جائے  توکھو ثِقافت میں کافی حد تک شرغی پہلو شامل ہوچکے ہیں کیونکہ ہماری ثِقافت میں غیر شرغی پہلو کی نمو کواب تک  پذیرائی نہیں مل رہی ہے ،ہو سکتا ہے آئندہ آنے والے دنوں میں دوبارہ نئی نسل میں غیر شرغی روایات کےجنم  لینےکی خدشات کو حارج از امکاں قرار  نہیں دی جا سکتی ہے کیونکہ جنگیں کچھ نہ کچھ اثرات چھوڑ کر ہی ختم ہوجاتی ہیں اور ہم مسلمان اورخصوصی طور پرپہاڑی باشندے بہت جلد اثر لینے والے گروہ ہیں لہذا کسی بھی تہذیب سے حیرہ ہونے اسکی چکاچوند  سے بچ کر قرآن کو سینے سے لگانا چاہئے۔

انگریزوں کی آمداورکھو ثقافت کی زبوں حالی:

 اسی خطے میں اسلام کی آمد کے بعد انگریزوں کی یلغار  نے لسانی ،روحانی اور تہذیبی وثقافتی  تبدیلی کے باعث بنے۔کئی غیرشرغی پہلو ں کو    کسی حد تک شرغی لبادے میں پیش کرنے کے لئے دالائل و براہین کا سھارا لیتے رہتے ہیں اور کافی حدتک ہم جائز قرار دے کر اس کو اپناتے رہتے ہیں جو چترال کی کہو ثقافت میں  شامل ہو کر مانوسیت پیداکر چکی ہیں  ۔ان میں نمایاں طور پر لباس ،طغام  زبان ،رہن سہن،شادی بیاہ میں کافی حد تک تبدیلی آچکی  ہیں ۔اپنی شلوا ر قمیض کی جگہ  پینٹ شرٹ اپنی پیاری زبان کی “اشٹوک رو”کی جگہ “پیلیئر،غاڑیر “اُستاد کی جگہ “ٹیچر”ماں کو ممی ،باپ کو ڈیڈی،   روزاول  کی جگہ “ڈے ون”جیسےبے شمار الفاظ شامل ہوتے  جارہے ہیں ۔اس کےعلاوہ اپنے پُرانے مکان کھوار ختان کی جگہ بیڈ روم ،ڈائیننگ ہا ل ،کیچین  وغیرہ،حلانکہ اسی “کھوار ختان” کے اندر تما م تر سہولیات دستیاب تھےاور آج کا جوان اسی گھر “کھوارختان “کے بارے میں بالکل لا علم نظرآتا ہے ۔شادی بیاہ میں ،منگنی ،مہندی ،چیغیچی کی جگہ گفٹ پیک،فریم،سربند(سور بند )کی جگہ چوڑی دار پاجامہ  ،کپڑوں کی صندوق کی جگہ میک اپ کی بکس ،ہاتھ سے بنی کامدارٹوپی کی جگہ بے غیرآستین کےکپڑے ،بندوق کی جگہ موبائیل گاڑی اور طغام کے سلسلےمیں گاؤں والوں کے لئے ایک بڑے بیل و بکروں کی جگہ برائیلر مرغیاں ،براڈ کی جگہ بیکریاں بسکٹ،غلمندی کی جگہ سینڈویچ،چھیرا شاپک کی جگہ پیزا،شیشار کی جگہ سویٹس ،شیتو کی جگہ کولڈ ڈرنکس ،چمبوروغ کی جگہ مصنوعی ذائقے والے  جوس،لیگانوکی جگہ میکرونی،کڑی کی جگہ اسپاگیٹی ،کارن سوپ ، شوشپ  کی جگہ سوہن حلوہ  اور اخروٹ ،خوبانی کی گریوں کی جگہ ِچپس،دال چنے ،کیلاوؤ کی جگہ چیوم گم  و غیرہ نے انگریزوں  کی آمد کے بعدمقامی  اشیأ غیر مقامی اشیأ  میں   خلا  پیدا کر کے تبدیلی کے باعث بنےاور اس کے علاوہ پردے کا چاک ہونا ،پسند کی شادیوں کو اپنا حق سمجھنا ،کزن میریج ،کورٹ میریج ،گرل وبوائےفریندز،گیدھرنگ،سیمینار،ورکشاپس ،این جی اوز،شاپنگ سنٹرز اور سب سے بڑھ کر بادہ خوری وغیرہ جیسے پہلوں کی برمارنے کھومعاشرے میں عورت کو کھیتوں ،امور خانہ داری اور چاردیواری سے باہر نکال کر،انگریزی خواں بنا کر اردو سے نفرت ،وطن سے بے وفائی اپنی تہذیب وتمدن کا ستیاناس کر کے  بڑے خوش ہیں کہ ہم ترقی کر گئے لیکن شاعر مشرق اس حوالے سے فرماتے ہیں :؏

تمھاری تہذیب اپنےخنجرآپ خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا،نا پا ئدار ہوگا

اس قسم کی  تبدیلیاں بعض جگہوں پر آسانی پیدا کرنےکے ساتھ ساتھ مشکلات  بھی پیدا کرا چکی ہیں ۔اگر ہم اپنے رسوم و رواج میں اسی  سُرغت  کے ساتھ تبدیلی لاتے رہینگےتو یقیناً ہم اپنی مثالی ثقافتی ورثے سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے اور اپنی پہچان کو یکسر مٹا کر ہی دم لینگے۔

پٹھان قوم کی آمداور کھو ثِقافت:

دنیا میں آریائی قوم بھی اچانک  حملہ آور ہو کر برصغیرو پاک وہند میں  نہیں پھیلیں  بلکہ پچیس سو قبل آز مسیح سے لیکر ایک ہزار قبل از مسیح  تک آنے کا سلسلہ جاری رہا  اور یہ فطری عمل ہے انساں جہاں چاہتا ہے رہائش اختیار کرتا ہے چترال سے بہت بڑی آبادی پشاور اور ملک کے دیگر حصوں میں آباد ہو چکے ہیں لیکن کھو ثقافت ان علاقوں پر اثر انداز نہیں ہو چکی ہیں بلکہ کھو آبادی پر  اس کے اثرات مرتب ہو چکے ہونگے۔تمام ثقافتی و تہذیبی، تعلقات شاہراہیں بنے کے بعد وجود میں اتے رہتے ہیں ۔چترال کی قدیم شاہراہ دریائے “کھوآسپس”کے کنارے سےہوتے ہوئے براستہ کنڑ آفغانستان سےگزرتی تھی اور جنوبی مغربی سمت آسمار تک اورشمال مشرقی سمت گلگت تک چترال کی حکومت تھی ۔ چترال ،وسط ایشیائی ممالک اور چین کے باشندے قافلوں کی شکل میں چقن سرائےسے(چُغان سرائےیعنی  چقن سرائے پہنچنےکے بعداپنے چُغے وغیرہ وہاں چھوڑ کر نشیبی گرم علاقوں کی طرف جایا کرتے تھے اور واپسی پر اپنے روایتی لباس چُغے کو وہیں سے وصول کر کے واپس چترال کی طرف آتے تھے   )  نوا پاس اور طور خم سے ہوتے ہوئے   زیریں علاقوں اور عرب ممالک تک سفر کیا کرتے تھے ان میں چین اور وسط ایشیائی ممالک سے آنے والےمال برداراونٹوں پر مشتمل قافلوں کے گزرنےکے قصے کئی مرتبہ  ہمارے بزرگ ہمیں  سُنا چکے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ انسان جغرافیائی تبدیلوں کی بنأپر   مختصر گزرگاہوں کی تلاش کرتے کرتے راام رام اور دامیل گول کے راستے سے سفر کرنا شروغ کئے  ۔ حقیقت کی نظر سے   دیکھی جائے پٹھان قوم بھی پندرہ سو عیسوی میں موجودہ خیبر پختون خواہ میں داخل ہوچکی ہیں ۔لہذا چترالی باشندے  “دریاکوآسپس” کے کنارے آبادبستوں کے بیچ    سے سفرکیا  کرتے  تھے ۔ تو یقیناً اسی  تہذیب وتمدن کو اپناتےرہتے تھے۔  کیونکہ دارد خاندان سے تعلق رکھنے والی زبانیں دیر ،سوات دیگر نشیبی علاقوں میں پاشیا ،دیری دامیلی کوہستانی ،گوار بتی (ارندوئی)زبانیں بولنے والے قبیلے آباد تھے۔ خصوصی طور پر گوار بتی زبان بولنے والی سب سےبڑی   آبادی آج   کنڑ اور آفغانستان میں آبادہیں۔تو لہذاقدیم کھو قوم کی آبادی انہی معدوم شدہ زبان  بولنے اور انہی خطوں میں بسنے والی آبادی سے اثر پذیری اختیار کر چکی ہوگی ۔باقی تمام زبانیں اور قبیلے اپنی ثقافت کو بھول کر پختون قوم میں تبدیل ہو چکے ہیں اور انکا نام ونشان تک ختم ہونے کے قریب ہے۔ کیونکہ دیر جگہے کانام نہیں بلکہ دیری زبان بولنے والی قوم آباد تھی۔جب (1895ء)میں انگریزوں کی یلغار، اسی خطے میں ہوئی تو اس وقت سے پیدل راستہ بنا کر لواری پاس سے شاہراہ گزاری گئی ۔اس کے بعد پٹھان قوم کاروبار و دیگر مقاصد کے خاطر اپنی فتوخات کو وسیع کرنے کا سلسلہ شروغ کی ،خصوصی طور پرپٹھان قوم کی سب سے بڑی آبادی کی  منتقلی دروش میں  ہوئی  ان میں بہت کم خاندان کھو طرز زندگی کو اپنا کر کہو قوم میں شامل ہو چکی ہیں باقی پختون   ثقافت بڑی تیزی کے ساتھ دروش اور چترال خاص میں غیر محسوس طریقے سے  پھیل  رہی ہے ۔جب کوئی قوم آکر اس علاقے کی تہذیب وثقافت کو اپنائے تو اس کو منتقلی کہتے ہیں جب غیر قوم آکراس علاقے کی تہذیب وتمدن پر اثر انداز ہوتے جائے تو اس کو حملہ کہاجاتا ہے ۔پٹھان قوم کی ابتدائی دنوں میں  آنے والی آبادی کافی حد تک اور بعض مکمل طور پر کھو تہذیب کو اپنا چکے ہیں ۔لیکن لواری ٹنل ،شاہراہوں کی تعمیراور سب سےبڑھ کر پاک چائینا کوریڈور کےروٹ کوچترال سےگزارنے کی چہ مہ گوئیاں ،میڈیا  و دیگر سفری سہولیات کی وجہ سے موجودہ دورمیں  وارد ہونے والی آبادی  چترال کی ثقافت کے لئے انتہائی مہلک ثابت ہو  گی ۔کیونکہ چترال شہر میں آجکل بالائی علاقوں کی نسبت غیر مقامی  آبادی میں اضافہ ہوتا جارہاہے، ایک اور اندازے وتجزیئے کے مطابق بالائی چترال سے آنے والی آبادی ابھی مختلف وجوہات کی بنأ پر واپس بالائی چترال کی طرف رخ کر رہے ہیں یا آبائی  علاقوں کو مکمل طورپر چھوڑنے سے گریز کر رہے ہیں ،اگر بالائی چترال کی آبادی غیر مقامی آبادی  کی نسبت زیادہ منتقل ہوتی تو شاید ہماری کھو ثقافت کو  مقابلے کی سکت پیدا ہوتی کیونکہ موجودہ چترال شہر ثقافتی اور دیگر حوالے سے غیر مخفوظ ہوتا جارہا ہے۔

پٹھان قوم کی بہت سارے پہلو ہماری ثقافت میں  شامل ہو چکے ہیں جن کا ایک ایک کرکے نام لینا مشکل ہے۔سب سے  بڑی پیچیدگی  شادی بیاہ کی رسومات میں آنے والی تبدیلی ہے ،کیونکہ چترال کا معاشرہ  اپنی جعرافیائی  لحاظ سے اور محدود وسائیل کو لیکر اپنے بچوں اور بچیوں کی بے غیر میک اپ اور بے غیر جیولری کی شادی رچاتے تھے ،لیکن پٹھان معاشرے میں شادی زیورات کے بےغیر ممکن نہیں ہے۔جب پڑوس میں زیورات میں  ملبوس بچی کی  شادی ہو رہی ہوتی  ہےتو  یقیناً صنف نازک فطرت کے ہاتھوں مجبور ماں بھی  اسے متاثر ہوکر، اپنے محدود سائل کے باوجود اپنی بچی  کی بھی شادی کی تیاری شروع کردیتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ چترال کی ثقافت میں شادی بیاہ کے موقع پر سونے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے  کیونکہ اسکی واضح مثال چترال میں زیورات کی دکانیں نہیں ہیں ۔کھو معاشرے میں لڑکے کی طرف سے  گاوں والوں کے بیل ،بکرے  اور چاول گھی لائے جاتے تھے تاکہ اس روز پورے گاوں کو دعوت کا اہتما م کر کے، دُلہا کے ساتھ آنے والے مہمانوں کےساتھ مل کر کھا یا جاتا تھا ۔اس کے مقابلے میں دیگر قبیلوں میں تمام انتظامات  لڑکی طرف کی جاتی ہے ۔اگر ان انتظامات کو مال واسباب کی شکل میں  نہیں لا سکتے ہو اس کے برابر پیسے کی بندوبست کرتے ہو تاکہ دلہن  والے اپنی مرضی سے انتظام کرا سکے۔جب پیسے دعوت کے لئے مانگے جاتے ہیں توہماری ثقافت سے نامانوس  ہمارے پٹھان  اور پنجابی رشتہ دار  اس کو فروخت کا نام دےکر طعنہ  دیتے رہتے ہیں ۔لیکن جو چیز ہماری ثقافت میں شامل ہے،وہ  ہمارے لئے عزیز ہے ہمیں اس کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔چترالی باشندے آپس میں لڑتے  کم ہیں جب لڑتے ہیں تو گھنٹے بعد بھی معمولی خون بھی نہیں بہتا  اور تھانہ نہیں جاتے ہیں آپس میں   کوئی دوسرا بندہ آکر مسئلےکورفع دفع  کرتا ہے لیکن پڑوسی کے سامنے شرم کے مارے زور سے مارنا پڑتا ہے اور پولیس  میں  رپورٹ بھی درج کرنے کی ضرورت پڑتی  ہے تاکہ اس کو بے غیرت کا طعنہ و دھبہ نہ لگے۔

چترال سے باہر شادیوں کی رواج اور سِسکتی کھو ثقافت:

دُنیا میں تمام قومیں اپنے  قبیلوں میں  شادیوں کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ انکی ثقافت رسوم ورواج ایک جیسی ہیں ۔کسی بھی قسم کے مسائیل پیدا ہونے کی صورت میں اس کا حل نکل آتا ہے ۔اس حوالے سے ان دنوں چند دلخراش واقعات رونما ہو چکی ہیں لیکن چترالی معاشرے کی شہری اکہڑ  مزاج والے لوگوں کا کسی صورت مقابلہ نہ کر سکا اور دشمن ہماری  کمزوری سے فائدہ اٹھا کر سکون کے ساتھ جی رہا ہے ۔لیکن مخیر حضرات چترال میں تنظیم بنا کر  چترال سے باہر شادیوں پر پابندیاں لگانے کی کوشش کی، توان ظالموں نے اپنی پیاری بچیوں کو چترال سے باہر لے جا کر شادیاں کرواتے رہتے ہیں ۔ یعنی اپنی بچیوں کوموت کے منہ میں اپنے ہاتھوں سے خود ڈال کرذرا بھی احسا س نہیں ہوتا ہے کہ ان کےپڑوس میں ہوا کی بیٹی کے ساتھ  کونسا واقعہ پیش آیا ہے، ان ظالموں کو چاہئیےکہ وہ اپنی پیاری بچیوں کو اپنے قریبی کہیں رشتہ داروں ،نئے بنے والے پڑوسی کےساتھ اور چترال کے کھو قبیلے کےجوانوں کے  ساتھ کروائے  تاکہ کسی قسم کی سنگین مسائیل پیدا نہیں  ہونگے اور ہماری ثقافت کو بھی نقصان نہیں پہنچے گا ۔پنجاب میں شادیوں سے مختلف قسم کے مسائیل جنم لے رہے ہیں پنجاب میں شادی شدہ  بہنیں واپس اکر اپنی رشتہ داروں کی شادیوں میں بھی قسم قسم کے رسومات کو شامل کرتے جارہے ہیں جو  ہرگز ہمارے معاشرے کے حق میں نہیں  ہیں ،سب سے    بڑ ا مسئلہ اس وقت پیدا ہوگا کہ جب انکے  نواسے نواسیاں اپنی ماں کی حق جائیداد کی سمن بجھواکر عدالتوںمیں  دھکیلتے  رہینگے تو یقیناً عدالت اسکی ماں کے  حق کو دینے میں حق کا فیصلہ دے گا۔ اس وقت ہمارے پڑوس میں کسی اور نسل و ثقافت   کے حامل پڑوسی آپکی ثقافت میں اضافہ کرے گا ۔لہذا ہم سب کو مل کر اپنی ثقافت کو بچانے کے لئے مل جل کرایسے عناصرکی   روک تھام کی ضرورت ہےتاکہ آنے والا پڑوسی اپکے طریقہ کار پر کاربند ہو تاکہ  اپکی ثقافت کو متأثر نہ کرسکے۔

میڈیاکی یلغاراور کھوثقافت و ادب کی ہچکیاں :

جدید دور میں  برقی ابلاغ کا بہت زیادہ کردارہے ، جدید سہولیات تک رسائی کے ساتھ ساتھ نقصانات کے بھی باعث بنتی جارہی ہے ۔کیونکہ ہم موبائیل فون، انٹرنیٹ  میں فیس بُک کو غیر ضروری کاموں کےلئے استعمال کرتے رہتے ہیں ۔  تمام برقی آلات کواپنے نونہالوں کو تھمانے سے قبل ،اس کے مناسب   استعمال کی تربیت  نہ دینے کی وجہ سے بے شمار قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں ۔اس کے علاوہ غیر ملکی و پڑوسی ملک کے  چینلز کی برمار نے بھی ہماری ثقافت ، طرز بودوباش،رسوم ورواج،عقیدے  اور زبان میں نمایاں تبدیلیوں کی باعث بن چکی ہیں۔کیونکہ آج کل ہندی زبان کے الفاظ اور انکے رسومات ہماری ثقافت  میں ضم  ہوکر مانوسیت پیدا کر چکی ہیں ۔اگراسکی بروقت  روک تھام نہ کی گئی ،تو پڑوسی ملک میڈیا کی اس جنگ  میں تہذیب وثقافت کو نقصان پہنچانے  کے ساتھ ساتھ  ہندو مت کی تبلغ میں کہیں  کامیاب نہ ہو سکے ۔کیونکہ ایک مسلمان گھرمیں سارا دن  والدین اپنے  بچوں اوربچیوں   کے ہمراہ  بیٹھ کر انڈیا کی چینیل میں  بُت کوسجدہ کرتے  ہوئے اور مشکل میں پڑنے کی صورت میں منتیں کرتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں،یقیناً معاشرہ اس سے اثر لیتا ہے ۔اس حوالے سے دو قصےچترال میں  مشہور ہو چکے ہیں کہ کسی انڈین ڈرامے میں ایک کردار کو مشکل میں  ِگھرے ہوئے دیکھ کر انکو مشکلات سے نکالنے کے لئے  کسی چترالی عورت نے خیرات تقسیم کی ہے،ایک اور جگہے میں پسند کی شادی پہ لڑکی سےپوچھ گچھ کی گئی تو لڑکی اس طرح کا مکالمہ بولا ہے “مجھے اپنے پاریوار  کی کوئی چینتا نہیں مجھے اپنے پتی کی چینتا  ہے”اگر ان دو مذہبی اور لسانی حوالے کی تبدیل شدہ پہلو کو غور سے دیکھے تو یقیناً ہمارے معاشرے میں پریشان کن  تبدیلیاں رونما  ہو چکی ہیں ۔اسے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والی نسل کو مناسب تربیت کےذریعے ان مضر اثرات سے اگاہ نہ کی گئی تو یقیناً وہ جواں ہوکر کہیں ،بُت پرستی کو جائز ہی قرار نہ دے، لہذا اس قسم کی سرائیت کرنے  والے پہلوں کو غورسے جائیزہ لینا پڑے گا، ورنہ اس  قسم کی اثر پذیر ی سے نو مسلم خطے کو کہیں دوبارہ اپنی لپٹ میں نہ لے سکے۔شاعر مشرق علامہ اقبال اپنے مشہور نظم”جواب شکوہ” میں  یوں فرماتا ہے!؏

ہر کوئی مستِ مئےذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے،نےدولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی  ہے
وہ زمانے میں مغزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں  ہوکر

لہذا ہمیں اپنے نو نہالوں کو خصوصی طور پر برقی ابلاغ اور عمومی طور پر دیگر پہلوں سے نگرانی اور قانون سازی کی  ضرورت ہو گی کیونکہ عین  تبصروں اور نو بجے کے خبروں کے وقت ایسے سسپنس ڈرامے چلاتےرہتے ہیں، جو طوالت کے ساتھ  کسی منطقی انجام  تک کو  بھی نہیں پہنچ پاتے  ہیں،   اسے  ایک پاکستانی باپ اور اس کا بچہ “روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا “ کے مصداق  بے خبر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں  ۔اسکی اصل وجہ  برقی ابلاغ  میں کھوارادب و ثقافت اور اسلامی  تہذیب و ثقافت کو پیش کرنے کے بجائے  دیگر مذاہب اور ثقافت کی ترجمانی کرتی رہتی ہے،لہذا ہمیں اپنی کھو  ثقافت کے مشہور قصوں(شلوغ)سنانے کی روایت کویکسر بھول چُکے ہیں  ۔جتنی جلدی ہوسکےہمیں  جلد از جلد اپنے قصے کہانیوں کو محفوظ کر کے ان پر فلمیں اور ڈرامے بنانے کی ضرورت ہےاور ہمارے پاس “کھوار چینیل” کا ہونا بھی لازمی ہےتاکہ  ہم اپنی ادب و ثقافت سے نوجواں نسل کوآشناکر کے اپنی ثقافت کی  تحفظ کر سکے۔ اگر ہم ان پیچیدگیوں کی بر وقت روک تھام  نہ کیں، تو  مُستقبل میں سنگین نوعیت کی پیچیدگیاں  جنم لینگے اس وقت ان کو روکنا مشکل ہو گا۔

آفغان مہاجرین  کی آمداور کھوثقافت:

۱۹۷۹ میں جب سویت یونین نے آفغانستان پر چڑھائی کی تو اس وقت حکومت پاکستان نے اپنے مشکل میں  ِگھرے بھائیوں کےلئے اپنے سرحدیں کھول دیں ۔یقیناً چترال میں اس وقت ایک بڑی تعداد داخل ہوگئی تھی ان میں  بڑے کھاتے پیتے اور بھر پور ثقافت کے حامل اور سیاسی راہنما وں ٔ کےخاندان سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل تھے۔ان میں اکثریت  آفغانسان میں امن آتے ہی اپنے خاندان سمیت اپنے دیس کو واپس کو چ کر گئے۔ مہاجرین اس وقت چترال کے طول وعرض میں پھیل گئے، جہاں قیام طغام میں بہتری لائے وہیں پر دیگر روایتی پہلوں کو متأثر بھی کرتے گئے ۔سب سے بڑا مسئلہ چترال کے روایتی طور طریقوں سے ہاتھ دھونےپڑے، اس وقت مزدور کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے ہر کوئی اپنے کھیتوں اور گھروں کے کام کاج حتی کے جانورں کے لئے چارہ ،گندم کی کٹائی،بھل  صفائی مہم ،گھروں کی تعمیر ،سودا سلف لانا ،جو تمام کام ہم  باہم مل جل  کر  روایاتی طریقوں  سےسر انجام دیتے تھے انہی روایات کا خاتمہ ہوگیا ۔اس سے ہماری نسل میں تن آسانی  جیسے اقبال کےناپسندیدہ فعل کےمرتکب ہوتے گئے، حدیث کےاسی حکم کی “الکاسب حبیب اﷲ”کی تعمیل  فکر نہیں کی روگردانی کرتے رہتے ہیں ۔ آج چترال میں مزدور بھی مزدوری دے کر اپنا کام کرواتا ہے ۔تو اس کے منہ بولتا ثبوت ہمارے کلاسز میں اپنی ثقافت سے بے خبر، سہل پسنداور نازک مزاج اورتلون مزاج  طبیعت کے مالک طلبأ سے لگا سکتے ہیں ۔سب سے بڑی  بات یہ ہے اسی مشکل حالات میں بھی   آفغانیوں نے اپنے بیٹیوں کو چترال میں شادیوں سے گریز کئے اور چترالی اپنی بیٹیوں کواس وقت بھی  آفغانیوں کے ساتھ بیاہ کرنے کا سلسلہ بند نہ کیا۔  ان میں سے   بعض بیٹیاں   ابھی تک واپس بھی نہیں آئی ہیں۔ یقیناً بیرون ملک شادیوں سے ہماری ثقافت کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے ۔بہرحال بے شمار قسم کی وجوہات ہیں جو ہماری ثقافت  کو بُری طرح متأثر کررہے ہیں اسکی نشاندہی کی ضرورت ہے۔

کھو ثقافت پر یلغاراسکی سدباب:

میرے اندازے کے مطابق دارد خاندان کے زبان بولنے والے علاقوں کے میل جول اور رشتہ داریوں  سےغیرداردک  کی نسبت ہماری ثقافت کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا ،ورنہ ہماری ثقافت کو شدید نقصان  کا سامنا ہو گا ۔دارد خاندان کےزبان بولنے والوںمیں  گلگت ،ہنزہ کی زبان “شینا”،غذر”کہوار”آرندو”گواربتی دامیل “دامیلی”،نورستان “نورستانی” (دیری ،پاشیامعدوم شدہ زبانیں )بمبوریت  کی وادیاں”کیلاشیأ”دیر ،سوات کوہستان  “کوہستانی اور کھوار “کے علاقوں سے رشتہ داریاں جوڑ  کراورتعلقات استوارکر کے  ہم اپنے ثفافتی ورثے اور انہی زبانوں کو معدومیت سے بچا کر فروغ دے سکتے ہیں ۔کیونکہ چترال اور دیگر دارد ک خاندان کے زبان   بولنے والے قبائیل  کے مقابلے میں گلگت اور کیلاش وادیوں میں ثقافت وروایات بہت زیادہ محفوظ ہیں  ۔چترال میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ چترال”عورت آباد ہے”۔جب  تک عورت اپنے خاندان کے مر دوزن  کے ساتھ مل کر  کام کاج کے لئے گھرسے نہیں نکلتی ہے تو یقیناً کام ادھورا رہ جاتا ہےاور خود  کام کرنے  کے ساتھ ساتھ کام کی نگرانی بھی  کرتی رہتی ہے۔گلگت میں عورتیں  کھیتوں میں کا م کرتے ہوئے دیکھائی دیتی ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں آفغانیوں کی آمد کے بعدچترال میں  عورت تو دور کی بات مرد بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے ۔اسی طرح کیلاش قبیلے کے عورتیں  بھی گلگت والوں کی طرح سارا وقت کھیتوںمیں  کام کرتے ہوئے دیکھائی دیتی ہیں  ۔ایک دفعہ میں نے گلگت کی ایک صاف سُتھرے کپڑوں میں ملبوس  عورت کی  کھیتوں میں کام کرتے ہوئے اور اپنی ٹوکریوں(ویشکو) میں لکڑیاں  ڈال کر پیٹھ پر اٹھائے ہوئے تصویر فیس بُک پر چڑھائے، تو میرا خیال تھا اس سے چترال کے لوگ اثر لینگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن معاملہ اس کا اُلٹ نکل آیا  حتی کے چترال کے نوجوانوں نے انسانی حقوق کی  سنگین خلاف ورزی قرار دی۔کیونکہ یہ لوگ نہ خود کام کرتے ہیں نہ عورتوں کو کام کرنے دیتے ہیں جب گلگت میں کسی عورت کو تصویروں میں کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں  توسیخ پا ہو کر قانونی نوٹس بھیجوانے کے لئےبھی تیار ہوجاتے ہیں ۔جب تاریخ چترا ل کی بات آجاتی ہے تو مورخین چند ادوار اور انگریزوں تک چترال کو محدود کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اس سے قبل چترال میں انسانی آبادی اباد  نہیں  تھی،  جب  کھو   ثقافت کی  بات آجاتی ہے تو اپنے ستار ،ڈول دمامہ ،موسیقی ،پولو شکار کو لیکر میدان میں  اُترتے ہیں ثقافت ڈول بجا کر ناچنے کا نام ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ موسیقی اس کا ایک حصہ ہے، اس کے علاوہ بھی  ہماری ثقافت کےبے شمار پہلو ہیں جنکی پرچار اور حفاظت ہمارے اُپر لازم ہے ورنہ معاشرے میں بے چینی بے ترتیبی ،بد نظمی،عدم مساوات عدم تحفظ کے شکار ہو جائینگے ۔لہذا ہمیں اپنے معاشرےکو افسردگی سے نکالنے کے لئے اپنی  ثقافت کی پرچار کی ضرورت ہوگی، اسی کے ذریعے سے ہم چترال کو مثالی امن کی وادی بنا سکتے ہیں۔اپنی ثقافت ،تہذیب و تمدن سے انحراف کرکے دُنیا میں  مقام پیدا ہر گز نہیں  کر سکتے ہیں، اگر ہم نے اسی حوالے سے کوشش نہیں کی تو بہت جلد  اپنی شناخت اور مقام کوکھو بیٹھیں گے ،لہذا ہم سب کو مل جل کر اپنی کھو ثقافت کوبچانے کی فکر کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ چترال کی  تیزی کے ساتھ بدلتی  ہوئی طورطریقے ہماری کھو ثقافت   کہیں متأثر نہ کر سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں