دادبیداد ۔۔ختم نبوت چوک چترال۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

اس سال کے ماہ ستمبر کی سب سے خو ش آئیند بات یہ ہے کہ چترال ٹاون کے سابق پی آئی اے چوک کو ”ختم نبوت چوک“ کا عقیدت بھرا نام دیا گیااس نام کی تختی آنے جانے والوں پر اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ چترال بھی پاکستان کا شہر ہے اور ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوں کے بنیادی عقائدکاحصہ ہے جس پر مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کامکمل اتفاق ہے مسلمانوں کا ہر ایک فرقہ اور ہرایک مسلک اس پر متفق ہے یہی وجہ ہے کہ 1953ء میں منکر ین ختم نبوت کے خلاف مسلمانوں نے تحریک چلائی توتمام فرقے اس میں شریک تھے 29مئی 1974ء کو جوتحریک شروع ہوئی اس میں بھی تمام مکا تب فکر شریک ہوئے جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے 1973کے آئین میں ترمیم کر کے قادیانی، مرزائی اور احمدی ناموں سے موسوم گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا، 29مئی سے 6ستمبر تک بڑے پیمانے پرہنگامے ہوئے پار لیمنٹ کے اندر ختم نبوت کے مسلے پرعلمی بحث ہوئی مولانامفتی محمود،مولاناشاہ احمد نورانی، مولاناعبد الستار خان نیازی، پروفیسر غفور احمد، مولانا کوثر نیازی اور دیگراراکین نے بحث میں حصہ لیا قائمہ کمیٹی میں قادیانی گروہ کے خلیفہ مرزا ناصر احمد اوران کے معاونین کو بلا یا گیابحث و تمحیص کے بعد یہ بات طے ہوئی کہ قرآن اور حدیث کی رو سے اس گروہ کے عقائد اسلام کے بنیادی عقیدے سے متصادم ہیں اس لئے سب کچھ ثابت ہونے کے بعد آئین میں ترمیمی بل منظور کرکے قادیانی،مرزائی اوراحمدی نام سے شناخت رکھنے والے گروہ کودائرہ اسلام سے خارج قرار دیاگیاتھااس قانون کو ختم نبوت کاقانون کہاجاتاہے قادیا نی گروہ کی بنیادہندوستان پنجاب کے گاوں قادیان سے تعلق رکھنے والے عام منشی مر زا غلام احمد نے 1889ء میں رکھی، ایک سال پہلے اُس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا، انگریزوں کی سرپرستی میں لدھیانہ کے مقام پر بیعت لیکر باقاعدہ ایک نئے مذہب کی بنیا درکھی وہ انگریزوں کے محکمہ مال کا ملازم تھا اُس نے اپنے مذہب کے لئے اسلامی تاریخ سے عربی کے اصطلاحات وضع کئے اپنے اخبار کو الفضل کانام دیا،اپنی جماعت کو احمدیہ کے نام سے پکارنے لگا، اپنے گھر نام بیت الحمد رکھا اور محلے کا نام دار الاکرام رکھا، قبرستان کا نام بہشتی قبرستان رکھ دیا 1908ء میں مرزا غلام محمد کے مرنے کے بعد انکے بیٹے مر زا بشیر الدین محمود کو پھر اسلامی نام دیکر خلیفہ مقرر کیاگیا ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہوئی تو انگریزوں نے مغربی پنجاب میں سرگودھا اور فیصل اباد کے قریب چینیوٹ میں 1034ایکڑزمین مرزا بشیر الدین محمود کی جماعت کو دیدی، اس جگہ کانام جھوک ڈھکیاں تھا جسے عربی میں ربوہ کانیانام دیا گیا،مسلمانوں نے اس کو نواں قادیاں کہنا اور لکھنا شروع کیا تو احمدیوں نے دارالامان یا چناب نگر کے نام سے مشہور کردیا اور یہاں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع قرار دیاختم نبوت کے قانون سے پہلے ربوہ کااپنا قانون تھا،اس کی اپنی حکومت اوراپنی پو لیس تھی یہاں مسلمانوں کو پکڑ کر سزائیں دی جاتی تھیں اور دولت یا عورت کا لالچ دیکر مرتد ہونے کی دعوت دی جاتی تھی ختم نبوت کا قانون آنے کے بعد احمدی گروہ کی کھلم کھلا بدمعاشی ختم ہوئی مگر انہوں نے برطانیہ میں الفضل کے نام سے عالمی مرکز قائم کیا دنیا بھر میں احمدی گروہ کے لوگوں کو اس مرکز سے مدد ملتی ہے اب ان کی حکمت عملی تبدیل ہوچکی ہے احمدی غیر مسلموں کو مسلمان نام رکھ کر چوری چھپے، سرکاری دفتروں میں اہم پوسٹوں پرلگایا جاتاہے، سیاسی جماعتوں میں داخل کرکے پارلیمنٹ میں پہنچایا جا تاہے طریقہ ورادات یہ ہے کہ قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم نہیں کرتے، اقلیتوں کے مخصوص نشستوں پر انتخاب نہیں لڑتے، مسلمان کے بھیس میں آکر ایم این اے اور سنیٹر بنتے ہیں،کا بینہ میں وزارتیں لیتے ہیں گورنر اور وزیراعلیٰ بنتے ہیں غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہوکر خود کو سرکاری عہدوں کے ذریعے قانون کی گرفت سے بچاتے ہیں اور پانی کی طرح دولت بہاکر مسلمانوں کا دین و ایمان خریدتے ہیں چترال ٹاون کا ختم نبوت چوک منکرین ختم نبوت کے خلاف مضبوط حصار بن گیا ہے اب کوئی روپے پیسے کا لالچ دیکر مسلمانوں کو دھوکا نہیں دے سکیگا مسلمانوں نے 12ہجری میں جنگ یمامہ میں 1200شہیدوں کے خون کا نذر انہ دے کر جس طرح مسیلمہ کذاب کی جھوٹی نبوت کا قلع قمع کیاتھا اس طرح آج بھی غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو سر اٹھانے نہیں دینگے

