273

اہ۔۔۔ میتار ژاو عنایت الرحمن ۔۔ سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر

ہم حسب دستور کسی کے اس دنیا سے جانے کے بعد ہی ان کی خوبیوں کا زکر کرتے آئے ہیں بالکل اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے میں بھی ایک ایسی خاموش طبع ہنس موکھ ، دل کے سفید احترام انسانیت ، مہمانداری، خاطر داری ، خاکساری اور فقیر انہ مزاج کے مالک مولانا مستحاب رحمتہ اللہ علیہ کے مرید خاص شاہی خاندان کا ہوتے ہوئے کبھی بھی کسی تنظیم کی صدارت قبول نہ کرنے والے اپنے میں مست جنون کی حدتک مطالعے کے دلدادہ اپنے کام سے کام رکھنے والے اور ہر قسم کی لغویات سے پاک اور بے ھودا محفلوں سے اچاٹ زہن رکھنے والے ملت اسلام کی احیاء کے خیالات میں گم ، دوست دار اور محفلوں میں مسکراہٹین بکھیرنے والے اور لطیف اور لطائف ہستے ہوئے بیان کرنے والے انتہائی آرام طلب اور سنجیدہ طبیعت کے مالک اکیلے میں بھی محفل کی رونق لئے ہوئے اپنے فکر و خیال میں یاران سمیٹے نام و نمود اور شہرت سے بے زار تحریک اسلامی کے دیرانہ کارکن صوبیدار فضل ولی کے بھتیجے مزاج خوشوختے کے مالک میرا مراد میتار ژاو عنایت الرحمن جو آج ہم میں نہیں رہے۔ آیون میں LSO بنانے کے محفل جب LSO کے چیرمین شپ کا زکر ہوا تو پورے آیون ، بمبوریت ، بریر اور رمبور کے شرفا المعروف عماد الدین المعروف شیرین بادشا ، عبد المجید ابراہیم ، رحمت الہی ، محمد خان صاحب ، شیر احمدبابو اور یہ بندہ خاکسار خود بھی موجود تھا۔مگر جب سرفراز لال مرحوم نے عنایت الرحمن مرحوم کا نام چیرمین شپ کیلئے پیش کیا تو پوری محفل یک زبان ہوکر اس کی تائید کی مگر یہ مرد درویش کسی بڑے نام عہدے اور کرسی کے تمنا سے بالکل عاری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس عہدے سے انکار کیا حالانکہ اس عہدے کیلئے آیون کے شہزادہ معصود الملک SRSP/ CEO کو بھی درخواست کرنے کا مشورہ بھی چل رہا تھا۔
سیاست میں فکری لحاظ عنایت الرحمن مرحوم ،تحریک اسلامی کے ساتھ رہے مگر چترال کے جماعت کے نسلی سیاست ، قومی تعصب اور کچھ افراد کی تحریک اسلامی سے مختلف رویوں نے عنایت الرحمن اور کئی ایک تحریک اسلامی کے مخلصین کیلئے جماعت کے دروازے بند کر دئیے (رک کن) کسی کو جماعت میں آنے مت کی سیاست اور زاتی پسند و نا پسند کے رویوں نے بہت سے جماعت اسلامی کے مخلصین کو جماعت سے دور کر دیا جن میں محمد عرفان ، عبدلکریم ، سر فراز علی ، اور چترال کے نامور سیاسی کارکن اورسنیئر وکیل عبد الولی خان اور ظفر اللہ پرواز کے علاوہ ھزاروں مخلصین جماعت خاموشی سے اپنی زندگی جماعت کے تنظیمی سیاست سے دور رہ کر گزارنے پر مجبور ہوئے ۔ تحریکین کسی کی ملکیت نہیں ہو ا کرتی تحریکین مشورے ، رواداری ، عزت دینے اور محبتوں میں چلتی ہیں۔
تحریک اسلامی عالمی اسلامی انقلاب کا داعی اور سید ابو الاعلی مودودی رحمتہ اللہ علیہ ، کے علاقائی حدود ، مسلکی اختلافات ، رنگ و نسل و زبان کی اختلافات سے مبراصرف اور صرف آحیائے امت کی تحریک تھی ہے اور رہے گا۔ چترال میں تحریک اسلامی کو زاتی پسند و نا پسند کی بنیاد پر جس انجام کو پہنچایا گیا اس کا واضح نتیجہ گذشتہ قومی انتخابات میں نظر آتا ہے ۔ مگر اس وقت کی تحریک اسلامی کی قیادت سے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ان بکھرے ہوئے موتیوں کو یکجا کرکے جماعت کو دوبارہ تمام طبقات کے اسلام کی سر بلندی کا فکر رکھنے والوں کیلئے کھول دیگا۔
عنایت الرحمن مرحوم نے بھی اپنے سیاسی زندگی میں آیو ن کے ایک معروف سیاسی شخصیت کے طور پر سر گرم رہے ۔ خاص کر دوپہر کی نماز کے بعد زیارت کے سائے میں جن دوستوں کی محفلیں روز کا معمول ہوتیں ۔ اور گرما گرم بحث و تمحیض کے علاوہ پر لطف گپ شپ عالمی ماحول اور ملکی حالات دھرنا سے پانامہ کی چور مچائے شور پر بات کے ساتھ ساتھ چائینہ کے انعامات کی بارش کے نتائج پر بحث ہوتیں اور عصرکی آذان تک یہ محفل گرم چائے کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ۔ یہ محفل ان کے اس دنیا سے رخصتی کے چند دن پہلے تک جاری رہا ۔ اللہ تعالی انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ آمین ۔
یقیناًموت حیات اللہ تعالی کی طرف سے ہیں جن کے پیچھے ان کے اچھے اولاد نہیں ہوتے اور ان کے نا اہل ورثا ء کے ہاتھوں ان کے مرحوم والد کا نام، کام، اور مقام مٹ جاتا ہے اور ان کے دوست احباب رشتہ دار سب اس گھر سے کٹ جاتے ہیں کچھ لوگ انتقال کر جاتے ہیں ان کے بعدانکے اچھے اولاد ، ورثا، بیٹے ، بیٹیاں وارث کے طور پر ان کے مال ، مقام ، نام ، اور تعلقات کو زندہ رکھتے ہیں ان کے گھر کی رونقین بحال بلکہ اور زیادہ اور انکے دوست احباب اور تمام رشتہ داروں کی ان کے گھر سے تعلق بر قرار رہتا ہے اور میتار ژاو عنایت الرحمن نے اپنے پیچھے تعلیم یافتہ ، با اخلاق سنجیدہ اور زمہ دار اولاد کو اپنی وراثت انتقال کر کے خود اس جہان فانی سے انتقال کر گیا ہے ۔ امید واثق ہے کہ ان کی اولاد ان کے کام، نام، اور مقام کو گرنے نہیں دینگے یقیناًان کے دوست و احباب اور دیگر رشتہ دار بھی عنایت الرحمن مرحوم کے ساتھ اپنے خاص تعلق کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کی ال اولاد کے ساتھ اپنے تعلق کو بر قرار رکھ کر ان کے پسماندہ گان کی رہنمائی اور نیک مشوروں سے نوازتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں