370

حبیب یونیورسٹی کراچی میں چیپس کے تعاؤن سے چترالی ثقافتی شام

پاکستان کے پہلے لبریل آرٹسس ادارہ حبیب یونیورسٹی  کے  آرزو  سینٹر نے چیپس کے تعاون سے “چترالی ثقافت پہ ایک شام ” کے نام سے شاندار پروگرام کا اہتممام کیا۔ آرزو سینٹر لسانی ترقی اور مقامی زبانوں  کے فروغ کیلئے کام کرتا ہے اور  یہ پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ چترال ہیریٹیچ اینڈ انوارنمنٹل پروٹیکشن سوسائٹی ( چیپس)  رحمت علی جعفر دوست کے زیرِ سربراہی  پچھلے کئی سالوں سے ماحولیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ ثقافت اور ورثے کی تحفظ کیلئے سرگرم رہی ہے۔ یہ ثقافتی پروگرام اپنے لحاظ سے ایک بہت ہی منفرد اور  دلکش تھا کیونکہ پہلی دفعہ کسی تعلیمی ماحول میں چترالی ثقافت کو پزیرائی ملی۔ دوسرے ثقافتی پروگراموں کی طرح یہ صرف ناچ گانے تک ہی محیط نہیں تھا بلکہ اس میں چترال اور  چترالی ثقافت اور  ماحولیات پہ کافی دلچسپ باتیں بھی ہوئی۔ یہ پہلا چترالی ثقافتی پروگرام تھا جس میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر  مردوں کے شانہ بشانہ شرکت کیا۔

اس پروگرام میں تقریبا ۳۵۰ چترالی اور کراچی کے لوگوں نے حصہ لیا اور کراچی کے مختلف اداروں سے طلباء اس پروگرام سے محظوظ ہوئے۔ اس موقعے پہ اسٹیچ کی ذمہ داری چیپس کے ممبرز  سورم خان اور نبیلہ امیرزادہ نے سنبھالا۔ پروگرام کا آغاز عبادالرحمن نے چترال سے آنے والی جہاز حادثے میں شہید ہونے والے افراد  کیلئے دعا پڑھ کر اور  خاموشی سے کیا۔ انہوں نے نئے سال میں سب کیلئے دعائے خیر بھی کیا اور  چیپس کے مشن میں ساتھ دینے کی گزارش بھی کی۔ اس کے بعد چیپس کی طرف سے چیرمن اور چیپس کے فاونڈنگ ممبر علی جماعت خان نے حبیب یونیورسٹی کو اظہارِ تشکر کے طور پہ ایک درخت کا تحفہ بھی دیا جو حبیب یونیورسٹی میں چیپسکے دوستی کی ایک نشانی رہے گی۔ اس کے بعد حبیب یونیورسٹی کے طالب علم اور چیپس کے یوتھ کوارڈنٹر عبدالواحد خان نے آرزو سینٹر  کا شکریہ ادا کیا اور حاضریں کیلئے چترال اور چیپس کا تعارف بھی کیا اور رحمت علی جوہر کے خدمات پہ روشنی ڈالی۔  چیپس کے چیرمین نے اس موقعے پہ تمام طلبا سے خطاب کیا اور انہیں ماحولیاتی سرگرمی اور وقت کی اہمیت پہ نصیحت کی۔ انہوں نے اس پروگرام کے منعقد کرنے پرحبیب یونیورسٹی کا شکریہ ادا کیا کہ واحد خان جیسے اسٹوڈنٹ کے زریعے کراچی اور چترال کے لوگوں کو ایک جگہ لایا  اور مستقبل میں ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی کہ جس میں چترال کے پسمندہ علاقے کو فائدہ ہوگا۔

اس پروگرام میں چترال سے تعلق رکھنے والے کمشنر  سلام  نے جدیدیت کا چترالی  ثقافت پہ اثر  کے عنوان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بہت اچھے طریقے سے جدیدیت اور عالمیت کا چترالی خوراک’ لباس’ موسیقی اور دوسرے ثقافتی عناصر  پہ اثر کے بارے میں مثالوں کے زریعے اپنے رائے کا اظہار کیا۔ پروفیسر کنیز فاطمہ نے “چترال عورت آباد “کے عنواں پر بات کی کہ کیسے چترالی ثقافت کو بنانے میں عورتوں کا کردار رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ  عورتیں مردوں کے ساتھ مل کر چترال کو اس مقام تک بہنچایا ہے کہ اب سب کیلئے دلچسپی کا منظر ہے۔ اس موقعے پر شاہ جی  نے کالاش ثقافت پہ گفتگو کی اور کالاش کے بارے میں اپنی رنگیں شاعری سے سامعین کا دل جیتا۔

اس پروگرام کے رنگین ترین حصے میں چترال سے ابھرنے والا نوجوان فوک کلاکار عرفان علی تاج نے اپنے ساتھی معاذ آفریدی کو لیکے اپنے تینو  ں گانے گائے اور سامعین و حاضریں سے خوب داد حاصل کی۔ اس کے بعد ایک اور نوجوان کلاکار زوالفقار علی شاہ  نے پرانے کھوار گانے گائے اور نوجوانوں نے اپنے دلکش ناچ سے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔

اس موقعٰے پر  چیپس کی طرف سے چترالی کھانوں کا احتممام بھی کیا گیا تھا جس میں چھیرا شاپیک’ لیگانو’ شوشپ’ کاڑی’ سناباچی’ پھینک’ ٹیکی اور شیشر وغیرہ شامل تھے۔ کچھ ممبرز نے دست کاری کے بھی سٹال لگایے جسے حاضریں نے بےحد پسند کیا۔

چیپس کے چیرمین اور یوتھ  کوارڈنٹر نے حبیب یونیورسٹی کے ڈین اور آرزو سینٹر کے سربراہ  آصف فرخی سے بھی ملاقات کی اور اس طرح کے مزید پروگرام کرانے پہ بات کی۔ اس کے ساتھ ساتھ حبیب یونورسٹی کے طلباء کیلئے چیپس کے ساتھ کام کرنے کے مواقع پہ بھی گفتگو ہوئی۔ چیپس کے چیرمین اور یوتھ  کوارڈنٹر نے اڈمشن ڈپارمنٹ کے ایک سربراہ یاسمین بانو سے بھی مستقبل میں سکولرشپ اور داخلے میں چترالی طلباء کی چیپس کے زریعے مدد  کرنے پہ بات چیت ہوئی۔ یقینا یہ پروگرام ایک بہت ہی مفید اور معلومات سے بھرپور رہا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں