467

ضلع کونسل چترال کے تمام ممبران نے صوبائی حکومت سے چترال کو دو ضلع بنانے کیلئے بھر پور مطالبہ

چترال ( محکم الدین ایونی ) ضلع کونسل چترال کے تمام ممبران نے صوبائی حکومت سے چترال کو دو ضلع بنانے کیلئے بھر پور مطالبہ کیا ہے ۔ اور کہا ہے ۔ کہ چترال کے وسیع رقبے ، بڑھتی ہوئی آبادی ، غربت ، شکستہ سڑکوں اور انتظامی مشکلات کی وجہ سے اس کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنا ناگزیر ہو چکی ہے ۔ اس لئے وزیر اعلی خیبر پختونخوا اور صوبائی حکومت چترال کے عوام کے اس اہم مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بلا تاخیر اقدامات کرے ۔ پیر کے روز کنونیر ضلع کونسل چترال مولانا عبدا لشکور کی زیر صدارت جب اجلاس کا آغاز ہوا ۔ تو ایجنڈے کے مطابق چترال کو دو ضلع بنانے کے حوالے سے قرارداد مولانا محمودالحسن نے پیس کرتے ہوئے کہا ۔ کہ چترال 14850مربع کلومیٹر پر محیط ضلع ہے ۔ جس کے ایک سرے سے دوسرے تک پہنچنے کیلئے گاڑی میں دو دن سفر کرنا پڑتا ہے ۔ آفات کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے ،آبادی سات لاکھ تک پہنچ گئی ہے ۔ لوگوں کو تعلیم ، صحت ، ملازمت اور دیگر سرکای کاموں کیلئے سینکڑوں کلومیٹر سفر کرنا پڑتا ہے ۔ اور خاص کر ضلع کے انتظامی امور کی انجام دہی میں بھی غیر معمولی تکالیف کا سامنا ہے ۔ اس لئے ان حالات کے پیش نظر تحریک انصاف کی حکومت کو عوام کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے چترال کو دو ضلع بنانا چاہیے ۔ اور ضلع کونسل چترال کے تمام ممبران اس حوالے سے ایک پیچ پر ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ صوبے میں جتنے بھی نئے ضلعے بنائے گئے ہیں ۔ وہ مکمل طور پر سیاسی بنیادوں پر وجود میں لائے گئے ہیں ۔ جو چترال کے مقابلے میں قواعد و ضوا بط سے بہت دور ہیں ۔ انہوں نے اس حوالے سے تور غر، لوئردیر ، کوہستان وغیرہ کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے کہا ۔ کہ ان کی آبادی ، رقبہ اور مشکلات چترال کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ لیکن سیاسی مفادات کی بنیاد پر اُن کو ضلع بنایا گیا ہے ۔ اس موقع پر ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ نے کہاکہ اس سلسلے میں ہماری کوششیں جاری ہیں ۔ حالیہ دنوں میں تین سرکل ، تین تھانے اور چھ چوکیوں کا قیام اس سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ ہم صوبائی حکومت سے بھی اس حوالے سے قریبی رابطے میں ہیں ۔ تاہم اس سلسلے میں چترال کے ایم این اے ، ایم پی ایز ،تحصیل ناظمین و ممبران ویلج ناظمین و ممبران کا گرینڈ جرگہ بلایا جائے گا ۔ اور ضلع کے قیام کیلئے متفقہ طور پر لائحہ عمل طے کیا جائے گا ۔ بحث میں صدر تحریک انصاف چترال و ممبر ڈسٹرکٹ کونسل عبداللطیف نے کہا۔ کہ وہ دو ضلعوں کے قیام کے حق میں ہیں ۔ اوراُ ن کی حکومت نے دروش کو تحصیل بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ اسی طرح تورکہو اور موڑکہو کو بھی تحصیل بنانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ جبکہ دیگر ممبران مولانا عبد الرحمن ، رحمت الہی ، رحمت ولی ،غلام مصطفی ، مولانا انعام الحق ، شیر محمد ارندو ، شیر محمد شیشیکوہ ، عبدالقیوم ، محمد یعقوب وغیرہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا ۔ کہ دو ضلع کا قیام انتہائی ضروری ہے ۔ باقی چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں ۔ دوسرے ایجنڈے میں اس امر کا مطالبہ کیا گیا ۔ کہ ضلع کونسل کے پانچ لاکھ سے کم لاگت کے ترقیاتی منصوبے ٹھیکہ داری کی بجائے پراجیکٹ لیڈر ی سسٹم کے تحت کئے جائیں ۔ کیونکہ ٹھیکہ داری نظام میں کم رقم دفتری سسٹم کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ اس بحث میں عبداللطیف نے کہا ۔ کہ پراجیکٹ لیڈر پہلے بد نام ہوئے ہیں ۔ اور حکومت کا بڑا فنڈ اس سسٹم کے تحت بندر بانٹ کی گئی ۔ اس لئے صوبائی حکومت ٹھیکہ داری نظام پر زور دے رہا ہے ۔ ضلع ناظم نے کہا ۔ کہ اس سلسلے میں ناظمین چیف منسٹر سے ملاقات کی ہے ۔ تاہم اُس کے کوئی اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں ۔ اجلاس میں ممبران کے اعزازیہ کے بارے میں بھی بات کی گئی ۔ اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ۔ کہ ویلج سطح پر ناظمین کو اعزازیہ دیا جاتا ہے ۔ جبکہ ضلع کے ممبران جو دور دور سے اجلاس کیلئے آتے ہیں ۔ اُن کیلئے کوئی اعزازیہ کا انتظام موجودہ بلدیاتی نظام میں نہیں رکھا گیا ۔ قبل ازین جب کنونئیر نے اجلاس کا آغاز کیا ۔ تو ممبر ڈسٹرکٹ کونسل عبد اللطیف نے اجلاس میں چھ خواتین ممبران کے مسلسل بائیکاٹ کا سوال اُٹھاتے ہوئے کہا ۔ کہ یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے ۔ کہ تین سال ہونے کو ہیں ۔ ہم خواتین ممبران کے مسئلے کی طرف سنجیدہ توجہ نہیں دیتے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے ۔ کہ اُن کا مسئلہ صنفی امتیاز کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ اور اخبارت کے ذریعے بیرونی دنیا تک پھیل گیا ہے ۔ جو کہ ہمارے لئے انتہائی شرم کا باعث ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ہم اگر اپنی خواتین ممبران کا مسئلہ حل کرکے اُن کو مطمئن نہیں کر سکتے ۔ تو چترال کی ترقی کیلئے کیا کر سکتے ہیں ۔ اس لئے اس پر توجہ دی جائے ۔ اس حوالے سے مولانا محمودالحسن ، عبدالوہاب ، شیر محمد ، محمد حسین نے مخا لفت جبکہ غلام مصطفی ایڈوکیٹ ، محمد یعقوب ، شیر عزیز بیگ اور مولانا عبدالرحمن نے حق میں دلائل دیتے ہوئے بحث میں حصہ لیا ۔ ضلع ناظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ کہ خواتین کو پانچ فیصد بجٹ دیا گیا ہے ۔ جبکہ اُن کے مقابلے میں کسان اور یوتھ ممبران کو نہیں دیا گیا ہے ۔ پھر بھی کونسل کا تقدس ہم سب کیلئے لازمی ہے ۔ اس لئے خواتین ممبران سے بات کرنے کیلئے معزز ارکان عبداللطیف تحریک انصاف ، مولانا محمودالحسن جے یو آئی اور شیر عزیز بیگ پاکستان پیپلز پارٹی کا نام لیتا ہوں ۔ کہ وہ انفرادی یا اجتماعی طور پر خواتین ممبران سے بات کریں ۔ اور مسئلے کو حل کی طرف لے آئیں ۔ اس پر کنونئییر نے ضلع ناظم کے فیصلے کی توثیق کی ۔ اور کمیٹی تشکیل پائی ۔ واضح رہے ۔ کہ ضلع کونسل کی خواتین ممبران گذشتہ چار اجلاسوں سے بائیکاٹ پر ہیں ۔ اور اُن کا یہ موقف ہے ۔ کہ فنڈ کی تقسیم میں اُن کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے ۔ اور حالیہ دنوں میں انہوں نے صوبائی اسمبلی پشاور کے سامنے اس حوالے سے بھوک ہڑتال کرنے کی دھمکی دی تھی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں