299

ذوقِ نظر۔۔۔۔۔ صلاح الدین صالح کی شاعری پر ایک نظر۔۔۔ تحریر فخرالدین فخر

آپ کا نام صلاح الدین تخلص صالح ۔ آ پ کے والد محترم  کا نام سراج الدین تھا آ پ چترال کی ایک خوب صورت وادی اویر کے پرپیش نامی گاؤں میں 1964کو پیدا ہوئے ۔چترال کے ہائی سکول سے میٹرک کےبعد اسلامیہ کالج پشاؤر سے بی اے اور پھر بی ایڈ کر کے تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے ۔ اور ابھی ایک غیر  سرکاری ادارے سے منسلک ہیں ۔شاعری کا چونکہ بچپن سے ہی شوق  تھا اس لئے اپنے اس ذوق کی تسکین بھی کرتے رہے۔ شعرو سخن کی دنیا میں ڈاکٹرعنایت اللہ  فیضی سے فیض یاب ہوئے۔ استاذالاساتذہ امین الرحمان چغتائی کا شرف شاگردی انہیں حاصل رہی۔ 1982 میں پہلی دفعہ کسی مشاعرہ میں شرکت کی اور وہ آئے اور آتے ہی چھاگئے کے مصداق ٹھرے ۔ شمس الحق قمر صا حب ایسے ہی ایک مشاعرے کی روداد قلم بند کر کے یہ اعتراف کی ہیں کہ صا لح کی شاعری منظر کشی اور معاملہ بندی کا اعلیٰ مرقع ہیں ۔ آپ کی شاعری سے واقعی زمین شعر کو چار چاند لگ گئے ۔ آپ کی منظر کشی اور معاملہ بندی قاری پر ایک وجد کی کیفیت طاری کر دیتی ہے اور قاری اُس منظر کو اپنے تصو ر میںپاتاہے۔حسرت موہانی کے الفاظ میں

‘شعر اصل میں وہی ہیں جوحسرت

سنتے ہی جو دل میں اتر جایئں

صالح کا محبوب کوئی خیالی نہیں بلکہ جیتا جاگتا انساں ہے ۔ وہ ان سے باتیں کرتا ہیں جذباتی بھی ہو جاتاہے ۔

اوا تہ خوشہ ریکو ،بو لہ ریتائے

ہاتے گفتاروتے ارمان مہ بویان

وصل کی شام ہے اور پہلوئے یار میسر ۔ایسے میں ایک عاشق کو کچھ بھی سوجھائی نہیں دیتا۔کہے تو کیا کہے ۔نہایت جذباتی کیفیت طاری ہے اور اُدھر عالم ایسا ہیں کہ بقول شاعر وہ شرمائے بیٹھے ہیں گردن جھکائے

عضب ہو گیا ایک نظر دیکھ لینا

اور،وہ آئے ہمارے گھر خدا کی قدرت ہے

کبھی انکو ہم کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

ایسے میں ایک رجائی سی کیفیت میں ایک عجیب سا سوال کر بیٹھتا ہے “اوا تہ خوشہ” ریکوبو لہ ریتائے،اس ایک جملے میں چپھے حشر سامانیوں کو تو کوئی سمجھے ۔جو اس کی تہہ میں پنہاں ہیں۔کیسی وجدنی سی کیفیت والی مصرع ہیں عشق میں اکثر و بیشتر ایسے لمحات آتے رہتے ہیں  جو بھلایا نہ جاسکیں۔ اور یہی منظر کشی صالح کی اس شعر میں نمایاں ہٰیں ۔خدارا داد دیجئے ۔یہاں “بولہ ریتائے”کیا قیامت ڈھارہی ہیں۔ایسے نہیں ذرا وہ لمحات  اپنے تصور میں لائے اور خود سے اسے دھرائے ۔پھر ساری صورت حاصل کی پوری تصویر سامئے نمودار ہوجائیگی۔                                محبت ایک عا لمگیر جذبہ ہے جو زمان و مکان کی قیود سے یکسر آزاد ہے ۔اور عزل محبت ہی کے جذبات کا اظہار ہے۔صالح کی عزلیات میں اسی حسین جذبے کی ترجمانی کی گئی ہیں ۔ اگرچہ کہ کہیں کہیں روایتی انداز میں زمانے سے بھی شکایت رہی ہیں ۔انکی شاعری میں درد کی کسک اور حسرت اور حزن بھی ہیں اور دل کی گہرائیوں میں  اتر جانے والا شکوہ بھی۔دردِ دل کی گہرائیوں سے نکلے یہ الفاظ شاعر کی دلی کیفیات کا غماز ہیں

“مہ نغزینینئے مہ  روخسیتاوالہ

ژانو بطینئے مہ روخسیتاوا لہ

غیچ سرمہ گینئے مہ روخسیتاوالہ

بروُ نماکینیئے مہ روخسیتاوا لہ

اوا تھے ژائے تہ روخسیکو نو بوم

سرو سمینئے مہ روخسیتاوا لہ

ماہ جبینئے مہ روخسیتاو ا لہ

مہ نغزینیئے مہ روخسیتاوالہ

اس پورے عزل میں ایک درد پہناں ہے ۔ اپنی بے بسی کا اظہار ہے ایک کوشش ہے یاد دہانی کی یعنی”وہ جو ہم میں تم میں  قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ کہ یاد ہوں”شاعر یوںہی بیٹھے بیٹھائے اپنے محبوب سے ہمکلام  ہےاور کہتا ہے کہ ۔” ژانو بطینئے مہ روخسیتاوالہ”اور یوں  اپنے آپ سے ہی باتیں کر تا ہی چلا جاتاہے  اور محبوب کے سراپا کے بیان سے بھی نہیں چُوکتا۔”غییچ سرمہ گینئے مہ روخسیتاوالہ ۔برو نماکینئے مہ روخسیتاوالہ”پھر شاعر اپنے محبوب کو یہ باور کرانے کوشش کرتاہے کہ ہم پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہیں اگر چہ جسم سفر عشق میں چُورچُور ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم تھک ہار جائینگے

تہ انتظارا عمر سار بیکو ہوئے

زندگی تروق بیتی تروق ژار بیکو ہوئے

صالح عشقو انگارا چار بیکو ہوئے

ژانو ماکینئے مہ روخسیتاوا لہ

مہ نغزینینئے مہ روخسیتاوا لہ

حال سے کٹ کر ماضی میں چلے جانے کو یاد کہتے ہیں ۔ماضی کی یادوں میں کھو جانے کے عمل کو رومانی رنگ اس وقت دیا جاسکتاہے جب وارفتگی عشق میں پختگی آجائےاور ماضی میں رنگوں اور اجالوں کی جھلمل ہو ۔صالح کی شاعری میں گرچہ محبوب کی بے اعتنائی کا ذکر بھی ملتا ہے مگر ماضی کی حسیں یادیں ایک تسلسل کے ساتھ دل کے دروازے پر دستک دیتی محسو س کی جاسکتی ہے اور کہ یہ تھمنے کا نام  نہیں لیتی۔اور صالح ان یادوں کو مرحبا کہنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

مہ پرویزی بی ،تان کھانجو سوری

پوری لوڑیک اچی مہ یادی گویان

ھردیو لوؤ تو تے دیکو وختہ

دَ دَنگ رونزک اچی مہ یادی گویان

یار تویار  ہوتا ہے بے وفا ہی سہی ۔اس کا ثبوت ہر شخص کو زندگی کی منزلیں طئے کرنے کے ساتھ مل جاتاہے  جو ں جوں اس کے ساتھی لمحے ساتھ چھوڑ تے جا تے ہیں توں توں اس کی قدرو قیمت اور اہمیت کا اندا ذہ ہو تا چلا جاتا ہے ۔تاہم یادیں شاعری کےلئے کو ئی بڑا موضوع نہیں بن سکتے جب تک اس کے ساتھ احساس کے رنگ شامل نہ ہو۔اور یادوں کے ساتھ پیارو محبت کے پھول اور خوشبوئیں،وصل کی لذت آفرینی اور خوشگوار حادثات عشق وابستہ ہو تو اس سے شاعر کے دل کے نہان خانے میں مہک اُٹھتی ہیں اور ہمیشہ زندہ جاوید ہو جاتی ہیں ۔اور ان یادوں سے کسی صورت پیچھے نیہں ہٹا جا سکتا۔تاہم اسے حالات کی ستم ظریفی کہہ لیں یا غم دوراں کی دست درازیاں ،ان کے لپیٹ میں آہی جاتی ہے لیکن وہ یاد کیا جو محو ہو جائیں ۔صالح پر بھی کچھ کیفیات ایسی آئے ہیں جو انکو مخمسے میں ڈالنے کا سبب ہوئے۔ مگر صالح ہمیشہ سرخرو ہی رہے۔ان کیفیات کا اظہار اپنے اشعار میں بھی کرتے ہیں۔

روخسیک روخسیک اچی مہ یادی گویان

ھردی چومیک اچی مہ یادی گویان

صالح یادوں کو بھلانے کی کوشش ہی نہیں کرتا ۔جب بھی گردش ایام میں فکر دوران لاحق ہوئی بھی ہیں اور وقتی بھول ہوئی بھی ہیں مگر ان حالات میں بھی کسی پھول کو کھلتے دیکھ کر یادوں کا سمندر اُمڈ آتا ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتاہیں

گمبوریان بوچھوچھاوا کی پشیمان

خوشو ہوسیک اچی مہ یادی گویان

بحر حال صالح کی شاعری ایک لازاوال شاعری ہیں انکی منظر کشی اور معاملہ بندی پر بہت کچھ لکھا جائیگا ۔ اسلئے تو حسرت موہانی کے الفاظ صا دق آتے ہیں کہ

تونے حسرت یہ نکالاہے عجب رنگ عزل

اب بھی کیا تیری یکتائی کا دعویٰ نہ کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں