شہزادہ افتخا رالدین نے ان چارسالوں میں وہ کارنامے سرانجام دئیے جوکہ گزشتہ ستر برسوں میں نہ ہوسکا تھا؍میاں آصف علی شاہ کاکاخیل
چترال (نامہ نگار) چترال کی گزشتہ ستر سالوں کی محرومیاں اور مایوسیاں ایک پل بھر میں ختم تو نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ترقی کے ہر شعبے میں پسماندہ اس ضلعے میں ترقی پل جھپکنے میں وقوع پذیر ہوسکتی ہے کیونکہ پندرہ ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی اس ضلعے کے لئے بہت ذیادہ وسائل کی ضرورت پڑے گی کیونکہ یہ ضلع پورے کا رقبے کے لحاظ سے ایک چوتھائی ہے جبکہ اس کی آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق بھی پانچ لاکھ سے بڑھنے نہیں پائی جبکہ ترقیاتی فنڈز آبادی کے تناسب سے ہی دئیے جاتے ہیں ۔ ایسے حالات میں یہ سیاسی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ علاقے کی پسماندگی اور دورافتادگی کے پیش نظر حکومت وقت سے خصوصی فنڈز اور مراعات حاصل کرکے یہاں پسماندگی کو دور کرنے میں کردار ادا کرے۔ زندگی کے ہر شعبے میں پسماندہ چترال کی قسمت اس وقت جاگ اٹھی جب گزشتہ عام انتخابات میں چترال کی شاہی خاندان کے چشم وچراغ شہزادہ افتخار الدین کو آل پاکستان مسلم لیگ کی ٹکٹ پر ایم این اے منتخب کرلئے گئے جس نے اپنی سیاسی بصیرت اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے حکومت وقت کا قربت حاصل کرلیا اور ان کا یہ فیصلہ چترال کے عوام کی دل کی آواز تھی جوکہ اپنے علاقے کی ترقی چاہتے تھے اور ایوان زیرین میں تن تنہا اے پی ایم ایل کے جھنڈے تلے رہ کر اور حکومت وقت پر تنقید کے تیر و نشتر برساکر کچھ حاصل نہیں کرسکتا تھا بلکہ اس کا نقصان چترال کو ہوتا۔شہزادہ افتخا رالدین نے ان چارسالوں میں وہ کارنامے سرانجام دئیے جوکہ گزشتہ ستر برسوں میں نہ ہوسکا تھااور یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کی کاوشوں اور کاموں کا ذیادہ ہدف چترال کا جدید نسل ہے ۔ تعلیم ہو یا ٹیلی کمیونیکیشن کا جدید نظام یا بے روزگار ی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے لئے ماربل سٹی کا قیام اور اس سے قبل بجلی کی پیدوار کے لئے انقلابی اقدامات ، یہ سب چترال کو تیز رفتاری سے آگے لے جانے اور اسے جدید دنیا کے ساتھ دوڑ میں شریک کرنے کے قابل بنانے کا باعث بنیں گے۔ لواری ٹنل پراجیکٹ پر کام گزشتہ پی پی پی حکومت میں تقریباً بند ہوچکا تھا اور چترالی قوم اس سلسلے میں امید وناامیدی کے درمیان لٹکے ہوئے تھے ۔ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ یہ شہزادہ افتخار تھا جس نے حکومتی ایوانوں میں اپنا اثرورسوخ کا دائرہ قائم کرلیا اور چترال کے لئے موت وحیات کا درجہ رکھنے والی اس پراجیکٹ میں دوبارہ جان ڈال دی اور وزیر اعظم نواز شریف کو اس بات مجبور کیاکہ چار سال کی قلیل عرصے میں 80فیصدکام مکمل ہوا اور اب صرف آٹھ منٹ میں لواری پاس سے آر پار ہونا ممکن ہوگیا ہے ۔ اسی طرح گولین گول ہائیڈروپاؤر پراجیکٹ بھی سست روی کا شکار تھا اور اس میں 80فیصد کام ابھی باقی تھا جب نواز شریف نے عناں حکومت سنھبال لیا ۔ شہزادہ افتخار الدین نے بجلی کی اس میگاپراجیکٹ کو چترال کی ترقی کے لئے زینہ سمجھتے ہوئے اس کے لئے فنڈز کی ایلوکیشن کرانے کی جدوجہد میں لگ گئے جس کے نتیجے میں اس سال 25دسمبر کو 108میگاواٹ پیدواری گنجائش کا یہ پاؤر پراجیکٹ افتتاح ہونے جارہا ہے جس سے تیس میگاواٹ بجلی چترال کے لئے مختص کرادی جوکہ چترال کی آئندہ کئی دہائی سالوں میں بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس شہزادے نے اپنے علاقے کے لئے جوکام کیا وہ بغیر کسی حرص اورلالچ کے کیا اور اس نے نہ صلے کی تمنا کی اور ستائش کی آرزر کی اور ان کے کئی ایسے کارنامے ہیں جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کیونکہ اس نے دوسرے لیڈروں کی طرح ایک بلب روشن کرکے یا ایک حفاظتی پشتے کے لئے دو لاکھ روپے دے کر نہ جلسہ کرائی نہ اخبار میں بیان چھپوادیا اور نہ ہی فیس بک کا سہارا لیا۔ چنانچہ ایم این اے شہزادہ افتخار کا وہ کام جو اس نے سرانجام دیا ، وہ یونیورسل سروس فنڈ کے ذریعے چترال کے 95فیصد ایریا میں موبائل فون سروس کا اجراء ہے ۔ چترال میں آؓؓؓبادی کی کمی کے پیش نظر کوئی موبائل فون کمپنی اس کے چپے چپے میں سروس پہنچانے کو تیار نہیں تھا کیونکہ اس کے لئے ٹاؤر ز ایستادہ کرنے اور سروس کو چالو کرنے میں اربوں روپے لگ رہے تھے جبکہ اس کے بدلے میں بزنس کا امکان بہت ہی کم ۔ اس شہزادے نے وفاقی حکومت میں اپنا اثرورسوخ اس طرح استعمال کیا کہ یونیورسل سروس فنڈ نے اس کے لئے چار ارب روپے منظور کردی جس کا ٹینڈر ٹیلی نار نے جیت لیا اور آج لواری ٹاپ سے لے کر بروغل اور تریچ کے شاگروم اور تورکھو کے کھوت اور لوٹ کوہ کے گبور تک ٹیلی نار کے سگنلز دستیاب ہیں اور اسے کہتے ہیں کسی لیڈر کا کارنامہ ۔ اسی طرح چترال کے اندر بین الاقوامی معیار کی سڑکوں کو کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا لیکن سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے سامنے اس نے مطالبے کو اس طرح پیش کیا کہ میاں صاحب کو انکار کرنے کے لئے کوئی الفاظ نہیں ملے اور انہیں چترال گرم چشمہ روڈ، چترال شندور روڈ اور ایون کالاش ویلیز روڈ دے دئیے گئے جن کے لئے فنڈز بھی مختص ہوگئے ہیں اور اس سال کام شروع ہوگا۔ اسی طرح جنگلات کی بے دریغ کٹائی کرکے سوختنی لکڑی کے حصول کو روکنے کیلئے گیس پلانٹ بھی چترال ، دروش اور ایون کے ساتھ اپر چترال اور گرم چشمہ کے لئے منظوری بھی ایک وژن رکھنے والی قیادت ہی کام ہے اور یہ شہزادہ افتخار ہی سوچ سکتا تھا ۔ چترال یونیورسٹی کا قیام پی ایس ڈی پی کی 290میلین روپے کی گرانٹ کے بغیر ممکن نہیں تھا کیونکہ صوبائی وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے قائد نے اس یونیورسٹی کا سنگ بنیاد تو رکھا لیکن اس کے لئے انہوں نے صرف 20میلین روپے ہی دے سکے اور وفاقی حکومت سے اتنی خطیر رقم دلوانا بھی اس شہزادے کا کام تھا۔
چترال کے عوام اپنے محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتے ۔ انہیں کسی کو سمجھنے میں غلط فہمی ہوسکتی ہے اور وہ اپنے محسن کو پہچاننے میں دیر ضرور کرتے ہیں لیکن وہ احسان فراموش ہر گز نہیں ہیں اور آج کل میڈیا اور انفارمیشن کی اس دورمیں ان پر سب اشکار ا ہوجانے والا ہے کہ وفاقی حکومت کی چترال کے لئے ان گرانقدر منصوبوں کے پیچھے اس شہزادے کا ہی ہاتھ تھا جوکہ کام ، کام اور کام پر یقین رکھتا ہے۔