’’ فوری طلاق پچھتاوے کا باعث بنتی ہے ‘‘ ۔۔۔۔۔تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
بحالت مجبوری یعنی جب کسی صورت میاں بیوی کا نبھاہ نہ ہو سکے ایسی صورت میں اسلام نے مرد کو طلاق کا حق تو دیا ہے مگر اس کو سخت نا پسندیدہ فعل قرار دیا ہے۔ آج کل کے معاشرے میں جہاں عدم برداشت اور قدم قدم پر فرائض کی ادائیگی کے بجائے صرف حقوق کی بات کی جاتی ہے ایسے حالات میں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ جبکہ غصے کی حالت میں اٹھائے گئے اس قدم سے جہاں دو خاندان تباہ ہوجاتے ہیں وہاں ننے معصوم بچوں کی باقی ماندہ زندگی بھی اجیرن ہوجاتی ہے۔ اس سخت قدم کے بعد لوگوں کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں رہ جاتا، ایسے حالات میں لوگ علماء کرام سے رابطہ کرتے ہیں اور مختلف عذر پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ جناب بچے چھوٹے ہیں ، غصے کی حالت میں طلاق دے دی ہے، تو اکثر علماء کرام کا جواب ہوتا ہے میاں غصے کی حالت میں ہی ایسا ہوتا ہے پیار میں طلاق کون دیتا ہے، پھر کبھی کس مسلک کے عالم سے کبھی کسی دوسرے مسلک کے عالم دین سے رابطہ کرکے کوئی حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں جب معاشرے میں طلاق کے مسائل روز بروز بڑھ رہے ہوں پاکستان کے علمائے کرام اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کو بھی ایسے مسائل کے تدارک کے لیے ٹھوس قانون سازی کرنا چاہیے تاکہ کوئی غصے کی حالت میں ایسا فیصلہ نہ کرسکے کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔
واضع رہے کہ سال 2015 ء کے شروع میں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چےئرمین جناب مولانا محمد خان شیرانی نے اپنے زیر صدارت دو روزہ اجلاس میں متعدد سفارشات کی منظوری دی تھی جن میں ایک اہم شفارش یہ تھی کہ’’ بیک وقت تین طلاقیں غیراسلامی اور شریعت کے منافی ہیں۔ اور خاوند کی جانب سے بیک وقت بیوی کوطلاق ثلاثہ کو قابل سزا جرم سمجھا جائے گا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’شریعت میں طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ایک خاوند اپنی بیوی کو ایک وقت میں ایک ہی طلاق دے سکتا ہے‘‘۔ اس طرح پاکستان میں نافذ قوانین کو اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالنے کے ذمہ دار آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک وقت میں اکٹھے تین طلاقوں کی حوصلہ شکنی کے لیے اس فعل کو قابل سزا جرم قرار دینے کی سفارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو شخص اسٹامپ پیپر پر بھی اکھٹی تین طلاقیں لکھے اسے بھی سزا دی جائے۔ جنوری2015ء میں اسلام آباد میں منعقدہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے اجلاس میں چیئر مین مولانا محمد خان شیرانی کے علاوہ کونسل کے گیارہ ارا کین ، مذہبی ماہرین، علماء اور محققین نے شرکت کی تھی۔ عوامی و سماجی حلقوں اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے اس فیصلے کو بہت سراہا گیا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے مذکورہ بالا فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ’’ مرد اپنی بیوی کو تین الگ مجالس میں یونین کونسل یا عدالت کے ذریعے طلاق کے نوٹس بھجوائے گا اور اس کے بعد دونوں کے درمیان علیحد گی ہوسکے گی‘‘۔
اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے وضاحت کی تھی کہ اس فیصلے کے نفاذ کے بعد ’’ایک طلاق دینے کے بعد خاوند کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہوگا، دوسری طلاق کے بعد وہ دونوں میاں بیوی دوبارہ نکاح کرکے اکٹھے رہ سکیں گے ، لیکن تیسری طلاق کے بعد وہ کسی صورت اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اس صورت میں اب وہ عورت اپنے اس سابقہ خاوند سے براہ راست نکاح نہیں کرسکتی۔ جبکہ کسی دوسرے مرد سے نکاح اور پھر اس شوہر سے بھی مذکورہ بالا نئے قانون کے مطابق اتفاقی طلاق کی صورت میں وہ اپنے پہلے خاوند کے عقد میں آسکے گی‘‘۔ مولانا شیرانی نے اکھٹے تین طلاقیں دینے والے خاوند کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے قید یا جرمانے کی صورت میں کوئی سزا تجویز نہیں کی تھی ،بلکہ اس کو متعلقہ عدالتوں پر چھوڑ ا تھا کہ وہ جو چاہیں سزا دے سکتی ہیں۔ روز بروز بڑھتے طلاق کے مسائل کے پیش نظر گزشتہ دنوں ہمسایہ ملک بھارت کی کابینہ نے بھی بیک وقت طلاق ثلاثہ دینے کیخلاف قانونی مسودے کی منظوری دے دی ہے۔ مجوزہ بل کے مطابق’’ زبانی ، تحریری یا کسی الیکٹرانک ذریعہ سے ایک ساتھ تین طلاق دینا ناقابل ضمانت جرم ہوگا اور ایسا کرنے والے کو تین سال قید کی سزا د ی جاسکے گی جبکہ متاثرہ خاتون علاقہ مجسٹریٹ سے اپنے اور بچوں کے تحفظ اور خرچے کی درخواست بھی کرسکے گی ‘‘۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی جید علمائے کرام کی مشاورت کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں کو قانونی شکل دی جائے ۔ اور قرار دیاجائے کہ جیسے نکاح خاندان کے لوگوں اور گواہان کی موجودگی میں ہوتا ہے اسی طرح طلاق بھی گواہا ن کی موجودگی میں ہو، تاکہ اس پرفتن دور میں ہر قسم کے سقم اور شک و شبے سے بالاتر ہو۔ افسوس کا مقام ہے کہ یہاں سیاسی شخصیات کے تحفظ کے لئے تو قانون سازی کی جاتی ہے مگر عوامی مسائل نظر انداز کردئے جاتے ہیں، جبکہ معاشرے میں پھیلے مسائل کا تدارک ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہئے، تاکہ معاشرہ اسلامی اقدار کے مطابق پھل پھول سکے۔ ایسی قانون سازی سے جہاں تفرقے بازی کا خاتمہ ہوگا وہاں قانون کی بالا دستی ہوگی اور سوچ سمجھ کر اٹھائے گئے فیصلوں کے باعث عدالتوں سے فیملی مقدمات کا بوجھ کم، اور معاشرے کے لیے بہترین خاندانی نظام قائم ہوسکے گا۔