میڈیا اور صحافت کی کی اہمیت اوروقت کا تقاضا۔۔۔۔مولانا محمد جہان یعقوب
اگر اہل علم کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ اچھے انداز سے میڈیا میں اظہار خیال کریں ، کالم ومضامین اورمعاشرتی مسائل
پر فیچر زلکھیں تو نہ صرف زیادہ بڑا طبقہ مستفید ہوگا بلکہ لوگ دین کی طرف مائل بھی ہوں گے،ایک راہ نمااورترغیبی تحریر
حالیہ چندبرسوں میں میڈیاکی حیران کن ترقی ،وسعت وہمہ گیری نے دنیاکوایک ’’گلوبل ویلیج‘‘بناکررکھ دیاہے۔یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ میڈیاوارکادورہے،جس میں جنگیں بھی میڈیاکے ذریعے لڑی جارہی ہیں ۔ میڈیا کی حیران کن ترقی نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی شدید متأثر کیا اور ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میڈیا کے طاقت ور اثرات کے باعث معاشرتی رویے تبدیل ہوئے ہیں۔ میڈیا کے معاشرے پر بے پناہ اثرات کی وجہ سے ہی آج کے دور کو ذرائع ابلاغ کا دور کہا جاتا ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں میڈیا کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے استعمال کرنے کا آغاز کئی دہائیاں پہلے ہو چکاتھا، تاہم چوں کہ ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کی آمد کو ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں ،اس لیے اس حوالے سے کوئی پیشگی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔
یہ ایک نیا چیلنج ہے، جس نے ہمارے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح دینی حلقوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔ میڈیا کی روایتی پریکٹس اور تفریحی مواد کی زیادتی کے باعث اسے اسلام اور سماج مخالف سمجھ لیا گیا ہے اور بہت سے حلقے تو تمام تر’’ برائیوں کی جڑ‘‘ اسے ہی قرار دینے پر مصر ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ دینی حلقوں میں یہ بات سرایت کر چکی ہے کہ میڈیا ہمارے معاشرے میں الحاد ، فحاشی ، غیر اسلامی روایات اور ایسی ہی منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تیار کردہ ایک سازش کا حصہ ہے اور اس سے صرف اور صرف وہی کام لیا جا سکتا ہے، جو کہ آج کل میڈیا پر نظر آ رہا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دینی حلقوں کی جانب سے شروع شروع میں میڈیا کے خلاف تقریروں اور تحریروں کی بھرمار رہی، اب صورت حال بدل چکی ہے اورحالات کی ٹھوکروں نے میڈیا کی اہمیت باور کرا دی ہے۔
یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر میڈیا ٹیکنالوجی کو دینی علوم رکھنے والے افراد مکمل پیشہ ورانہ اصولوں کے ساتھ استعمال کریں، تو اسے تبلیغ دین کے لیے بسانی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ میڈیا ٹیکنالوجی بھی ہوائی جہاز ، موٹر کاروں اور دیگر سہولیات کی طرح ایک ایجاد ہی ہے ،چند آلات بنائے گئے ہیں کہ جن کو پیغام رسانی ، اپنے نظریات کے فروغ اور ان کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اگر آپ اس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے تو یہ آپ کا نظریہ اور پیغام ہر سو پھیلا دے گا۔ آج ہم گاڑیوں ، کمپیوٹرز اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے صرف اس بنیاد پر دور ہونا پسند نہیں کرتے کہ ان کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے،بالکل یہی حال میڈیا ٹیکنالوجی کا ہے ۔ یہ دعوت کو تیز ترین طریقے سے بڑے پیمانے پر پھیلا دینے کا ہتھیار ہے ۔ اگر ملحدین اپنا پیغام پھیلانے کے لیے ایسا مواد تیار کر سکتے ہیں ، جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنے ،تو اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے بھی ایسا مواد تیار کیا جا سکتا ہے، جس سے عقائد پر بھی فرق نہ آئے اور دعوت کا کام بھی ہو سکے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کا استعمال سیکھ کر آلات کو مرضی کے مطابق چلانا سیکھا اور سوچ بچار کے بعد اور بھرپور تیاری سے مواد کی تیاری کے لیے کام کیا جائے ۔میڈیا کے درست استعمال کے حوالے سے درپیش مسائل کو سمجھنے اور اس کو حل کرنے اور دعوت کے جذبے سے ان آلات کو اپنی آواز کفر کے ایوانوں میں پہنچانے کے لیے تصرف میں لانے کے لیے مزید منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین کی جو رہی سہی جھلک نظر آتی ہے، وہ مسجد و محراب اورمدارس کی وجہ سے ہے ۔ مدارس کے پڑھے ہوئے علمائے کرام ہی ہمارے معاشرے میں دین کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اسلام گوشہ نشینوں اور تارک الدنیا افراد کا دین نہیں ، اس کے ماننے والے معاشرے کے فعال رکن بن کر جیتے ہیں ۔ میڈیا کا خود اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا ،بلکہ اس کو چلانے والے اپنے خیالات عام کرتے ہیں ۔ اگر دینی لوگ اس میدان میں آئیں گے تو یقیناًاسے ہدایت کا سرچشمہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ واقعی المیہ ہے کہ اس وقت جو دینی پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں، ان میں ٹھوس دینی علم رکھنے والوں کے بجائے نیم دینی علم رکھنے والے لوگ غالب ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مستند دینی حلقے اچھے اینکرز اور ٹی وی پر اچھے بولنے والے افراد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں ،یا ان کی اس جانب سرے سے توجہ ہی نہیں ہے،جس کی وجہ سے یہ میدان خالی نظر آتاہے۔
اگر آج میڈیا پر لادینیت اور سیکولرازم غالب نظر آتا ہے اور ایسی چیزوں کی بہتات ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں، تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی سطح پر اسلام مخالف اداروں نے اس کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں ۔ ایسے ادارے اور ریسرچ سینٹرز موجود ہیں، جو مکمل منصوبہ بندی کے ذریعے میڈیا پر اثرانداز ہوتے ہیں ،وہاں سے تیار کی جانے والی سروے رپورٹس اور انکشافات کے زریعے میڈیا کو ایک خاص لائن فراہم کی جاتی ہے ۔ اسلام مخالفت ادارے میڈیا سے منسلک ہنرمند اور تجربہ کار افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں ایسا مواد تیار کیا جاتا ہے، جو بظاہر تفریح ، کھیل یا کسی بھی اور مقصد کے لیے ہوتا ہے ،لیکن اس کا پوشیدہ مقصد معاشرے میں لادینیت پھیلانا ہوتا ہے، میڈیا پر اس مواد کی اشاعت کے لیے ا سپانسرز ڈھونڈے جاتے اور ایک نیٹ ورک کے ذریعے اسے عام کر دیا جاتا ہے ۔
پرنٹ میڈیاکی اہمیت اپنی جگہ،لیکن اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں ،کہ الیکٹرانک میڈیابھی ذرائع ابلاغ کااہم فیکٹرہے ۔انٹرنیٹ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے اور یورپ و امریکا میں اتنے لوگ اس کے ذریعے مسلمان ہوئے ہیں، جن تک پہنچنا شاید عام حالات میں ممکن نہ ہوتا ۔ اچھا لکھنے اوراچھا بولنے والوں کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے ۔ میڈیا معاشرتی تبدیلی کا طاقت ور ترین ہتھیار ہے اور دعوت کے میدان میں اس کی ضرورت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ، اس لیے دینی طبقے میڈیا سے دور رہنے کے بجائے اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوششوں کا آغاز کریں ۔
اگر اہل علم کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ اچھے انداز سے میڈیا میں اظہار خیال کریں ، کالم ومضامین اورمعاشرتی مسائل پر فیچر زلکھیں تو نہ صرف زیادہ بڑا طبقہ مستفید ہوگا بلکہ لوگ دین کی طرف مائل بھی ہوں گے۔اس حوالے سے ہونے والاکام بارش کاپہلاقطرہ اورایک اچھاآغازتوضرورکہا جاسکتاہے،مگرکافی ہرگزنہیں۔ابھی بہت کچھ کرناباقی ہے۔اس کومزیدوسعت دینے کی اس میڈیاکے تیزترین دورمیں جتنی ضرورت ہے ،شایداس سے قبل کبھی نہ تھی۔ دورحاضرکے چیلنجوں کے مقابلے کی کوشش اورپیش بندی ایک زندہ معاشرے کا لازمی فریضہ ہے،اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ دین وعصری تعلیمی اداروں میں صحافت اور کمپیوٹرکی تعلیم کو لازمی مضمون کے طورپر شاملِ نصاب کیا جائے،تاکہ ہمارا نوجوا ن مستقبل کی صورت گری کے قابل ہوسکے۔
****