Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

دھڑکنوں کی زبان …..” روشنی کا مسافر "…محمد جاوید حیات

ابھی کالج سے فارغ ہی ہوۓ تھے کہ روشنی کا سفر شروع ہوا چترال پبلک سکول اپنے ابتدائی دور میں تھا بچے شریر تیز طرار اور چترال کے متمول خاندان کے ہوتے تھے چترال میں کوئی دوسرا نجی تعلیمی ادارہ نہ تھا ۔ہم نے روشنی کا سفر یہاں سے شروع کیا ۔پڑھانے لگے خود زندگی کی ڈھگر میں ڈھگمگا رہے تھے کہ تعلیم وتربیت کی شد بد سے واسطہ پڑا ۔۔ان شاگردوں کا ذکر اس لیے نہیں کررہا کہ وہ بڑے بڑے عہدوں پہ ہیں اور بندہ عاجز وہی دریدہ دامن ،کم علم ہے نہ باتوں سے علم کی خوشبو نہ کردار سے عظمت کی روشن کرن بس لجاجت ہی لجاجت ۔۔۔وہ اگر یاد کریں بھی تو یقینا روشنی کے مسافر کی وہی کم علمی اور کم ماٸگی یاد کریں گے کہ استاذ کے پاس نہ علم تھا نہ تجربہ تو بندہ کس منہ سے کسی شاگرد کا سامنا کرے ۔۔روشنی کا یہ سفر چار عشروں پہ محیط ہے اور اس کا لمحہ لمحہ گویا بوجھ جیسا ہے۔۔۔
روشنی کا یہ مسافر جب 1991ء کو محکمہ تعلیم کے کاروان میں شامل ہوا تو ابو نے تنبیہ کی کہ اب روشنی کے سفر میں اس سفر کی اہمیت کا اندازہ لگانا ۔۔یہاں کا ہر گام منزل ہوتا ہے ہر مسافر ایک الگ جہان ہوتا ہے اگر جہان تازہ کی تعمیر چاہتے ہو تو مسافر کا خیال رکھنا ۔مسافر یہ یقین کرے کہ تو اس کی زندگی ہے ایسا اگر نہ ہو تو تو یقین کرے کہ وہ تیری زندگی ہے اگر یہ دونوں معیار نہ ہوں تو تو روشنی کے اس سفر میں کہیں گم پو جاو گے تیرا نام ونشان تک نہ ملے گا ۔۔
تب اس دن سے شاگردوں سے خوف کھانے لگا۔۔۔
شاگردوں سے خوف کھانے کا یہ لا متناہی سلسلہ جاری ہے گویا زندگی کسی لمحہ مسعود کی امانت تھی ۔۔۔وہ لمحے ہمیشہ آۓ کہ ایک عزم لے کے کلاس روم میں داخل ہوۓ مگر کلاس سے نکلتے وقت وہی کم مائگی کہ جو خواب لے کے گئے تھے ادھورا رہ گیا کبھی اپنی پڑھائی ،تدریس اورطریقہ تدریس سے مطمین نہیں ہوا ۔ایک کمزوری تھی وہ کبھی پاوں کے کانٹے بھی بنی کہ شاگرد لوگ بڑے پیارے لگتے ۔۔یہ لفظ "شاگرد "مشام جان میں ایسا رچ بس گیا تھا کہ شاگرد کے خیال آتے ہی رگ عقیدت پھڑک اٹھتی اکثر شاگردوں سے ایسے ملا کہ ان کا سر دل پہ رکھا اور سینے سے بیھنج دیا کہا کہ دل کی دھڑکن جن میں تم رہتے ہو محسوس کرو ۔۔روشنی کا یہ سفر عجیب تھا چترال پبلک سکول سے شروع ہوا اور اب ہائی سکول واشچ اپر چترال میں احتتام پزیر ہورہا ہے روشنی کے سفر میں جو روشنی ملی وہ صرف ان جگنووں سے ملی جن کو دوسری زبان میں روشنی کا استعارہ یا "شاگرد "کہا جاتا ہے ۔۔انہوں نے میری زندگی کے دیے میں تیل کا بندوبست کرتے رہے ۔۔مجھے ان جگنووں نے راستہ دیکھاۓ گھپ اندھیرے میں ان کے لیے چراغ بننے کا کام مجھے سونپا گیا تھا میں میر کارواں تھا مگر انہوں نے میرے راستوں کو چراغوں سے جھلملا دیا مجھے جینے کے قرینے سیکھاۓ میں نے ان سے محبت ،عقیدت اور احترام سیکھا ۔مجھے انسان سے محبت کی وہ لازوال دولت ملی کہ جس کا میں اہل نہیں تھا انہی کی وجہ سے میری زندگی کے وہ ٹیڑھے راستے بند ہوگئے جو دھندوں ،بد عنوانیوں دھوکوں ،حسد ،فریب اور نفرت کی طرف لے جاتے ہیں ۔۔میں نفرت کس سے کرتا پھولوں سے کیسے نفرت کرتا ۔۔میرے پاس کرپشن کے مواقع ہی کب تھے ۔۔میں ظلم کس پہ کرتا۔۔۔ میں درندہ کیوں بنتا ۔ان جگنووں نے میری زندگی سنوارے ۔روشنی کے سفر میں عجیب اندھیروں سے بھی واسطہ پڑا ۔کسی آفسر کی لاپرواہی ،تجاہل عارفانہ بےجا نفرت نے کڑکا کے بھی رکھ دیا۔ اگرکسی ہیڈ ماسٹر کے منظور نظر نہ رہے تو عتاب میں رہے ۔۔کسی ساتھی کی بے جا حسد اور بعض کینہ کا شکار رہے ۔۔سسٹم کی کمزوریوں میں جی نہ سکے ۔ روشنی کے سفرمیں یاد ہے کہ 1995 میں ہائی سکول بلچ میں پہلی بار ایسا یوم والدین منایا کہ یہ تقریب ضلع کے دوسرے سکولوں میں تقریبوں کے لیے نئی روح ثابت ہوئی پہلی بار بچوں سے ٹیبلو ،منظوم مزاحیہ خاکے اور دوسری سرگرمیاں کرائی کہ پورا محکمہ عش عش کر اٹھا روشنی کے سفر میں یہ پہلا،نیا اور کامیاب تجربہ تھا ۔روشنی کے سفر کے وہ مسافر ساتھی اب بھی وہ لمحے یاد کرتے ہیں ۔۔کتنے بچوں کو بولنا ،تقریر کرنا اور مقابلہ کرنا سیکھایا ۔۔کتنے مقابلے جیتے ۔کتنے چیلنجز قبول کیے ۔کتنی تقریریں ،نظمیں ،ڈرامے لکھے یہ سب روشنی کے سفر میں یادوں کی کتاب میں محفوظ ہیں ۔روشنی کے سفر میں جغرافیے کی ضد ،اپر اور لویر چترال کی نفرتیں بعض ساتھیوں کے زہر بھرے تبصرے گویا روشنی کا مسافر ان کی زندگی میں ان کے اوپر بوجھ تھا سب یاد ہیں ۔۔روشنی کا سفرعجیب سفر تھا ہر صبح ایک ہی طرح کی صبح ہر شام ایک جیسی شام ۔۔دنوں کی قطاریں راتوں کا تسلسل ۔۔۔چہروں کا ہجوم ۔۔جذبات کی بہتی ندیاں ،خواہشات کے سمندر ۔۔محنت کے شگوفے ۔۔لاپرواہی کے کانٹے ۔۔مستقبل کے خواب ۔خدشات ۔۔۔ان پہ کڑھنا سوچ سوچ کر خوفزادہ ہونا ۔۔۔
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں ۔۔۔۔
کہیں ایسا نہ ہو جاۓ کہیں ویسا نہ ہو جاۓ ۔۔۔۔
روشنی کے سفر میں ہمارے سامنے کئی شگوفے کھلے تناور درخت بنے سراپا چمن بنے ۔کئی سر جھکے ۔کئی نگاہیں ملیں ۔کئی دل دھڑکے ۔کئی جذبات ابھرے ۔۔ کبھی ان کی نفرت کا نشانہ نہ بنے ۔کبھی کسی نے گستاخی نہیں کی کبھی کسی نے کسی حکم سے انکار نہیں کیا ۔۔”استاذ” نام رکھا گیا ۔۔”استاذ” کہہ کر پکارہ گیا ۔تگ و دو کی دنیا کبھی پیچھے نہ چھوڑی ۔۔کبھی تھک ہار کے سرنڈر نہیں کیا ۔۔۔کلاس روم نے تھکایا نہیں شوق کو مہمیز ہی لگا ۔۔۔ایسا جیسا مچھلی سمندر کو ترسے ۔۔کلاس روم کو ایسا ترسے ۔۔۔روشنی کے سفر میں اہ و افسوس بھی ساتھ رہے کبھی کسی ساتھی کو محنت میں کمتر دیکھا افسوس ہوا ۔۔کبھی کسی ساتھی کی غفلت نے کڑکا دیا ۔کبھی کسی شاگرد کی لاپرواہی اور ہٹ دھرمی نے بوجھل کر دیا ۔کبھی معاشرے میں بے توقیری پر نالان ساتھیوں سے شکوہ کرنا پڑا کہ عزت مانگی نہیں جاتی احترام کی بھیک نادان اور کم ظرف مانگا کرتے ہیں ۔۔۔جنگل میں شیر کی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود اپنا راستہ بناتا ہے ۔اپنی فقیری پہ نازان رہا ۔۔جائداد نہیں بنایا ۔۔محل نما گھر کی ارزو نہیں رہی ۔قیمتی گاڑی نصیب میں نہ تھی ۔۔البتہ کچھ خواب ادھورے رہ گئے جو سمجھانا چاہتے تھے سمجھا نہ سکے ۔۔جو بتانا چاہتے تھے بتا نہ سکے جو پڑھانا چاہتے تھے پڑھا نہ سکے ۔۔اس لیے کہ کلاس اس روشنی کے مسافر کی دنیا تھی اس سے باہر ہر حقیقت سراب تھی ۔۔شرافت کا درس لینے والے باہر نکلتے تو کہیں شرافت دیکھائی نہ دیتی ۔۔انصاف کی تشریح سن کر باہر نکلنے والوں کو انصاف کہیں نظر نہ آتا ۔۔علم کا نور باہر کے گھپ اندھیرے میں کہیں غایب ہوتا ۔۔ہر کرسی پہ نا اہل ،ہر دفتر میں فرغون ہر گام پہ دام و دت نظر آتے ۔۔روشنی کے طلب گاروں کو روشنی سے اعتبار اٹھ جاتا ۔۔روشنی کے مسافر اس کے باوجود جیا بہت جیا ۔۔چالیس لمبے لمبے سال ۔۔۔عمر کی ساٹھ بہاریں ۔۔۔کبھی فراز کے اس شکوے کے شکنجے میں نہ آۓ ۔۔۔۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا ۔۔۔
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے ۔۔۔
روشنی کے اس مسافر کو کبھی گھپ اندھیرے نے راستے سے ہٹایا نہیں اس کی زندگی کی کوئی روشن صبح ہوگی کہ اس نے اپنی پہلی کلاس لی ہو ۔۔اب 15 ستمبر 2025 ء کی صبح ہوگی کہ روشنی کا مسافر اپنی آخری کلاس لے گا ۔۔وائٹ بورڈ پر جلی حروف میں "روشنی کا مسافر ” لکھے گا ۔۔ساتھ سامنے بیٹھے ان ستاروں کی آنکھوں میں جھانک کر کہے گا ۔۔۔۔” روشنی کے سفر میں میرے ہمسفرو اللہ حافظ "

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button