رُموز شادؔ۔۔۔۔ استقبال رمضان۔۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ ارشاد اللہ شادؔ۔۔۔ بکرآباد چترال
( استقبال رمضان)
رمضان ایک پورا پروگرام ہے۔ ایک ماحول ہے پوری قوم کیلئے… جب آدمی اس ماحول میں رچ بس جاتا ہے تو اللہ کا تصور ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اگر آپ کا ماحول ایسا ہے جس میں جھوٹ نہیں ہے تو آپ کتنا ہی چاہیں جھوٹ نہیں بو ل سکتے۔ اگر آپ کو یہ ماحول ملا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہیں کرنی تو آپ کسی کی دل آزاری نہیں کر سکتے اور اگر آپ سے نا دانستہ طور پر کسی کی دل آزاری ہو گئی تو آپ کا ضمیر مستقل ملامت کرتا رہتا ہے۔ اس طرح رمضان کا پورا مہینہ یا 30دن کو اللہ تعالیٰ نے ایک ماحول بنایا ہے کہ بندہ جو کچھ بھی کرے اس کا ذہن اللہ کی طرف متوجہ رہے۔ رمضان میں صبح طلوع فجر سے لیکر غروب آفتاب تک ہم اس خیال کو بار بار Repeatکرتے رہتے ہیں کہ میری زندگی اللہ کیلئے وقف ہے۔ میں نے وہی کرنا ہے جو اللہ چاہتا ہے، رات کو تراویح پڑھنی ہے، صبح سحری کرنی ہے۔ اگر آپ اس تمام وقت کا حساب کتاب لگائیں تو چوبیس گھنٹے میں سے سولہ سترہ گھنٹے انسان کاذہن اللہ کی طرف لگا رہا۔ جب کہ عام دنوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس نورانی ماحول میں رہنے سے انسان کے اندر غیب بینی کی صلاحیت ابھرتی ہے۔
برادران اسلام! روزہ اسلام کے پانچ رُ کنوں میں سے تیسرا رکن ہے۔اور انسان میں ملکوتی صفات پیدا کرنے میں اکسیر کا حکم رکھتاہے۔ تمام نفسانی اور شیطانی خواہشات کا قلع قمع کرنے کیلئے تیغ براّں کی حیثیت رکھتا ہے۔ بندہ کو خدا سے مقرّب کرنے اور روحانیت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ گناہوں کی آگ اس سے بجھ جاتی ہے۔خواہشات و جذبات میں اعتدال پیدا ہوجاتاہے۔ رفتہ رفتہ رذائل خبیثہ کی بیخ کنی کرکے اخلاق فاضلہ پیدا کرتاہے۔مصائب جھیلنے کی مشق ہوتی ہے۔ بھوک، پیاس برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔ مباحات کو ترک کرنے کی مشق کرکے حرام و نا جائز چیزیں ترک کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ حکم ربّانی کی اطاعت پر ہمت بندھتی ہے۔ بھوک، پیاس کا عملی تجربہ کرکے غریبوں اور بے کسوں کی امداد و جذبہ ابھرتاہے۔ غم خواہی اور خیر خواہی پر قلوب آمادہ ہوتے ہیں۔ شہوات و خواہشات کی بھٹی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ نفسانی قوتوں میں انکسار و اضمحلال پیدا ہوکر نفس پر کنٹرول کرنے اور برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ پرہیزگاری، عفت و پاکدامنی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ سب سے بڑی دولت یہ نصیب ہوتی ہے کہ ایمانی مراتب و مدارج میں ترقی اور قرب خداوندی نصیب ہوتاہے۔اس لئے ارشاد ہے (الصوم لی وانا اجزی بہ)یعنی ’’روزہ خالص میرے لئے ہے اور میں خود اس کا اجر دوں گا‘‘۔
عزیزان اسلام! روزہ اللہ کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس میں کسی قسم کی ریا اور نام و نمود کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ باقی تمام عبادتیں مخلوق پر آشکارا ہو سکتی ہے۔ مگر روزہ ایک سر بستہ راز ہے جس کو عابد و معبود روزہ دار اور خدا کے علاوہ کوئی دیکھ ہی نہیں سکتا۔
اس کے بر عکس جب ہم رمضان میں اپنے ارد گرد ماحول پر نظر ڈالتے ہیں تو رمضان میں کھانے پینے کا خرچ دُگنا ہو جاتاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم مسلمان لوگ اس مہینے میں عام دنوں سے دُگنا کھانا کھاتے ہیں۔ دن کا بیشتر وقت کھانے کی تیاریوں پر صرف ہوجاتاہے۔ لیکن آپ نے رمضان کے حقیقی آداب کے ساتھ روزہ رکھ لیا تو آپ غیب کی دنیا میں داخل ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اتنا کھائیں کہ جسم میں کمزوری نہ ہو۔ اتنا سوئے جس میں آپ کی طبیعت خراب نہ ہو۔ نہ اتنا کام کریں کہ تھکن سے بے حال ہو جائیں۔ روزہ میں زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کریں۔
میری دانست میں رمضان کا پورا مہینہ ایک ماحول ہے جوکہ انبیاء کا اللہ سے قربت رکھنے والوں کا اور فرشتوں کا ماحول ہے۔ آپ اس ماحول میں رچ بس گئے اور آپ کو اللہ کی قربت حاصل ہوگئی تو پھر سارا سال آپ کو یہ قربت حاصل رہے گی۔اسلئے رمضان کی آمد آمد ہے ابھی سے تہیہ کر لے کہ اس سال انشاٗاللہ پورے شوق و ذوق اور جذبے کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کریں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو انبیاء کرامؑ کے نقش قدم پر چلنے اور رمضان المبارک کو برکات سے ہم سب کو مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین یا ربّ العالمین۔