لاہور:پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ قومی سطح پر ناکامیوں کے ہم سب ذمہ دار ہیں،تسلیم کرنا ہوگا کہ سٹیبلشمنٹ، سیاست دانوں اورعدلیہ سے غلطیاں ہوئیں۔لاہور ہائیکورٹ بار میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ سیاست دانوں کو وکلا سے مینڈیٹ تسلیم کرنا سیکھنا ہوگا،بار کے الیکشن میں دھرنا اور احتجاج نہیں ہوتا، نتائج جیسے بھی ہوں انہیں تسلیم کیا جاتا ہے۔پی پی کے دور حکومت میں ازخود نوٹس کا غلط استعمال کیا گیا۔میں پوچھ سکتا ہوں کہ ن لیگ ایکشن پلان میں کتنے دہشت گردوں کو سزا ملی،ن لیگ کا ایکشن پلان ہے کہ پنجاب میں کسی انتہا پسند کیخلاف کارروائی نہ کی جائے،نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جا رہا،ضرورت ہے کہ توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال روکا جائے،پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی ، کالعدم تنظیمیں دوسرے ناموں سے کام کر رہی ہیں ،حکومت نے اعتراف کیا دوسرے ناموں سے کام کرنیوالی تنظیموں کی تعداد کا علم نہیں۔ کبھی اچھے اور برے طالبان کی اصطلاحیں استعمال کی گئیں،وزیردفاع کہہ چکے ہیں کہ افغان طالبان سے تاپی گیس پائپ کی حفاظت کیلئے بات کی جائے گی۔ہائیکورٹ بار میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ بار جنوبی ایشیا میں سب سے پرانی بار ہے اور جمہوری جدوجہد میں اہم حیثیت رکھتی ہے، بار کا ہمارے ماضی اور مستقبل بنانے میں بڑا حصہ ہے قائد اعظم اور میرے نانا ذوالفقار علی بھٹو نامور وکیل تھے۔بار نے جمہوریت کیلئے جدوجہد کی تاریخ گواہ ہے کہ جب لاہور بار نے علم اٹھایا تو آمروں کو جانا پڑا۔ہر ادارے کو جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔قومیں آئین اور قانون کیلئے بڑی جدوجہد کرتی ہیں، ایک آمر نے ایمرجنسی لگائی اور 60 ججوں کو معطل کردیا۔ پارلیمنٹ نے عدلیہ کے تحفظات پر کمیٹی بنائی ججوں نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کیے پی پی کے وزرائے اعظم کے خلاف بڑے بڑے فیصلے کیے گئے۔ججوں کی تقرری جج کریں تو انصاف کا نظام مضبوط ہوگا، جوڈیشل کمیشن نے ججز کے تقرر میں پارلیمنٹ کو بھی اختیار دیا،آئین کے مطابق قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے ، ججز کی تقرری میں صدر اور وزیر اعظم کا کردار نمائشی ہے۔ پی پی ملک میں منصفانہ نظام کی خواہاں ہیں،ابھی تک کسی خاتون چیف جسٹس کا تقرر نہیں ہوسکا میری والدہ کے دور میں خواتین کو بینچ میں تعینات کیا گیا لیکن یہ بہت عجیب ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک بھی خاتون تعینات نہیں ہے،2010 سے 2013 تک 126 ججوں کی تقرری کی گئی ۔پی پی کے دور حکومت میں ازخود نوٹس کا غلط استعمال کیا گیا، پیپلز پارٹی کے دور میں کتنے اور پاکستان کی تاریخ میں کتنے سو موٹو نوٹسز لیے گئے؟ قانونی ماہرین نے ماضی میں از خود نوٹسز پر تحفظات کا اظہار کیا۔ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر اعتراض پر میں حیران ہوں، آئین کے مطابق قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے جبکہ عدلیہ آئین کی تشریح کرسکتی ہے۔کرپشن کے حوالے سے کوئی مقدس گائے نہیں ہے ہمیں کرپشن کیسز کے حوالے سے دہرا معیار ختم کرنا ہوگادو معاشروں کیلئے الگ الگ نظام درست نہیں ہے۔پی سی او کے تحت آئین روندنے کی مذمت کرنی ہوگی۔