کرپشن،حکومت اور اشرافیہ….ایم سرورصدیقی
OOOایک شخص نے کسی دانشور سے دریافت کیا حضرت !کرپشن کی(Definition) تعریف کیا ہے؟
اس نے بلا تامل جواب دیا اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا کرپشن ہے۔۔۔ اگر اس فارمولے پر عمل کیا جائے تو ہماری پوری کی پوری بیوروکریسی اور سارے کے سارے سیاستدان کرپٹ ہو جاتے ہیں یہ تو بڑی بات قلم سے لکھ دی گئی ہے ۔۔۔ اور تو اور پاکستان میں تو ایک معمولی اہلکار اپنے دفتر کے افسرِ اعلیٰ کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتاہے بعینہ‘ ایک کانسٹیبل کا بس چلے تو وہ SHOکے اختیارات انجوائے کرتاہے خیر پاکستان میں یہ ایک معمولی بات ہے۔ ہمارے پڑوسی اور دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کہلوانے والے ملک میں تیزی سے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرنے والی ’’عام آدمی پارٹی ‘‘ نے دہلی میں جب سرکار بنائی تو کچھ عرصہ قبل وزیرِ اعلیٰ اروندک یجریوال نے کرپشن کے خلاف اسمبلی میں قانون سازی کرنا چاہی مگر ناکام رہے تو وہ احتجاجاً کابینہ سمیت مستعفی ہوگئے۔۔۔اس کا ایک مطلب کچھ لوگوں نے یہ بھی لیا کہ روندک یجریوال نے کرپٹ عناصرکے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔۔۔ ان کا استعفیٰ ایک اچھی روایت تھا بلکہ اسے روایت ساز بھی کہا جا سکتاہے ۔پاکستان میں تو سرے سے ایسی کوئی روایت ہی نہیں یہاں تو ایک سابق صدر ۔۔دو سابق وزراء اعظم سمیت 8000سے زائد سیاستدانوں، فوجی افسروں ، بیورو کریسی میں کرپشن۔۔۔ کرپشن کا کھیل کھیلنے والوں کے خلاف مقدمات موجود ہیں اس وقت 150نامی گرامی شخصیات جن میں آصف علی زرداری،میاں نوازشریف ، اسحاق ڈار، یوسف رضا گیلانی، میاں شہباز شریف،راجہ پرویز اشرف بھی شامل ہیں ان کی فائلیں اوپن ہونے کی خبریں آرہی ہیں جس کی وجہ سے ایک تھر تھلی سی مچی ہوئی ہے ڈاکٹر عاصم حسین کوپہلے ہی نیب نے حراست میں لے رکھا ہے ۔۔ کرپٹ عناصر کی بیخ کنی کیلئے ’’نیب ‘‘ جیسا ادار ہ موجود ہے۔۔انٹی کرپشن کا محکمہ بھی ہے ۔۔FIA میں بھی کرپشن کے کئی معاملات کی تفتیش ہوتی ہے ٍؑ ؐ لیکن جس معاشرے میں رشوت کے الزام میں گرفتار ہونے والا رشوت دے کر چھوٹ جائے وہاں اصلاحِ احوال کی تمام کوششیں دم توڑ جاتی ہیں یہ تو
لیکن سیاسی اثرورسوخ کی بنیادپر ہر کرپٹ شخص بچ نکلتاہے ۔۔۔ 150شخصیات کے خلاف نیب تحقیقات کررہی ہے ان میں بیشتر سیاستدان ہیں اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت کرپٹ ہے حاجی ثناء اللہ وہی ہے جس میں حوصلہ نہیں یا جسے موقعہ نہیں ملا۔ الزام ہے کہ نیب ، FIA اور انٹی کرپشن کو حکومت مخالفین کوزچ کرنے کے لئے بھی ا ستعمال کرتی ہے پیپلزپارٹی کا الزام ہے کہ نیب سندھ کے خلاف سرگرمِ عمل ہے ۔۔شنیدہے کہ اب پنجاب میں بھی مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالا جارہاہے اسی لئے شیخ رشید کہہ رہے ہیں اب پوچھل پر گینڈے کا پانی آنے والاہے ۔۔یہ معاملہ اس وقت سنگین ہوگیا جب وزیرِ اعظم پاکستان نے اپنے ہی محکمے نیب کے خلاف بیان دے ڈالا یہ بھی سننے میں آرہاہے نیب کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جائے گی یہ تو خود بھی شرمسارہو مجھ کو بھی شرمسار کر
والا معاملہ ہے۔ کچھ احتساب کرنے والے اداروں کے احتساب کرنے کا مطالبہ کرنے لگے ہیں ۔لگتاہے کرپشن ہر ادارے کی رگ رگ میں سماگئی ہے اس لئے سائلین ذلیل و خوار ہوتے ہیں جونہی سائل نے باربار چکر لگانے سے تنگ آکر مجبوراً کسی اہلکارکی مٹھی گرم کی حالات ہی بدل جاتے ہیں جو کام کئی ماہ سے اٹکا ہوتاہے دنوں میں ہو نے کی سبیل نکل آتی ہے۔ امید۔خوش فہمی ۔یقین اور جاگتی آنکھوں کے سپنے ہمیں مسلسل حوصلہ دیتے رہتے ہیں شاید اسی لئے یہ کہاوت ضرب المثل بن گئی ہے امید پر دنیا قائم ہے۔۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کرپشن کی علامت بن چکی ہے بڑے بڑے رہنماؤں نے سیاست کو صرف اپنی ترقی کیلئے مخصوص کررکھاہے یہی لوگ جرائم پیشہ افرادکی سرپرستی کررہے ہیں کراچی ، بلوچستان اور دیگر شہروں میں امن و امان کا مسئلہ بھی اسی لئے الجھاہوا ہے کہ مجرم ذہنیت لوگوں نے سیاست اور جمہوریت کو یرغمال بنارکھا ہے جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں یہ عناصر اتنے طاقتور ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے ادارے ان کے علاقوں میں قدم بھی نہیں رکھ سکتے اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر قسم کی کرپشن کو حرام قرار دیا گیاہے اس کیلئے حرام اور حلال کا ایک وسیع تصور ا س کے مفہوم ومعانی کااحاطہ کرتاہے یہ الگ بات کہ اب پاکستانی معاشرے میں حرام اور حلال کی تمیز ختم ہو تی جارہی ہے یہی مسائل کی اصل جڑ ہے دولت کی ہوس ، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ، معاشرہ میں جھوٹی شان و شوکت اورراتوں رات امیربننے کی خواہش نے اکثریت کو بے چینی میں مبتلا کرکے رکھ دیاہے۔۔انہی خواہشات نے اختیارات سے تجاوز کرنے پر مجبور کررکھاہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو دہلی کے سابقہ وزیرِ اعلیٰ اروندک یجریوال نے بھارت کے بے ایمان معاشرے کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسیدکیا جس سے ہر کرپٹ کا منہ سرخ ہورہاہے۔۔۔پاکستان میں بھی ایسی ہی روایت کی طرح ڈالنی ہوگی ہمارے حکمران دن رات عوام کی خدمت کے دعوے کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کو کسی طور ریلیف نہیں مل رہی۔۔جتنا پاکستانی معاشرہ بگڑ چکاہے۔۔ متعدد محکموں کی کارکردگی سے جتنے لوگ تنگ ہیں یا پھر جتنی بہتری لائی جا سکتی ہے ان کیلئے ایک مربوط حکمت عملی اور ٹھوس منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ انڈیا میں تو کرپشن کے خلاف ایک سماجی رہنما انا ہزارے ایک علامت بن کر ابھراہے اس کے بعد روندک یجریوال نے اس کی سوچ کو مزید تقویت دی پاکستان میں ڈاکٹرطاہرالقادری اور عمران خان نے کرپشن کے خلاف علمِ بغاوت بلندکررکھا ہے ان میں خوبیاں اور خامیاں یقیناًموجود ہوں گی لیکن جس انداز سے وہ کام کررہے ہیں معاشرے کا ہرطبقہ متاثر ہوتا جارہاہے حالانکہ یہ کام علماء کرام، درگاہوں کے گدی نشینوں اور سماجی رہنماؤں کا تھا جو اب سیاستدانوں نے سنبھال لیاہے ہمارا مذہب تو ہر قسم کی کرپشن کے خلاف ہے ہمارے مذہبی، سیاسی و سماجی ،مذہبی رہنماؤں اور اداروں کو کرپشن کے خلاف میدان میں آنا چاہیے جرأت مندی سے اس فتنے کا مقابلہ کیا جا سکتاہے علماء کرام حلال و حرام کے فلسفہ کو اجاگر کرنے کیلئے بڑے ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں یہ بات سب سے اہم ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے ۔ امید۔خوش فہمی ۔یقین اور جاگتی آنکھوں کے سپنے ہمیں مسلسل حوصلہ دیتے رہتے ہیں شاید اسی لئے یہ کہاوت ضرب المثل بن گئی ہے امید پر دنیا قائم ہے۔ میاں نواز شریف سے بیشترپاکستانیوں کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں جس کا تقاضا ہے کہ وہ ملک میں امن وامان کے قیام، مہنگائی کے خاتمہ ،سماجی انصاف اور ہر سطح پر ظلم کی حکومت ختم کرنے کیلئے اپنا بھرپور سیاسی کردار ادا کریں حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ کفرکی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے ظلم کی حکومت نہیں سینٹ اور پارلیمنٹ کے اجلاس ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ عوام کی کتنی بد نصیبی ہے کہ کوئی عوام کے کسی مسائل پر بات کرنا پسند نہیں کرتا صرف عمران خان اور طاہرالقادری مسلسل حکمرانوں کی کرپشن بے نقاب کرتے ہیں اقتدار میں آئیں تو شاید وہ بھی ’’گونگے ‘‘ ہو جائیں ۔آج وطن عزیز پاکستان کو بہت سے مسائل درپیش ہیں،ملک میں قیامت خیز مہنگائی سے غریبوں کا جینا عذاب بن گیا ہے ،بیروزگاری اورغربت نے عوام کی خوشیاں چھین لی ہیں کرپشن،دہشت گردی،ڈرون حملے،انتہاپسندی جیسے حالات میں جو لوگ میاں نوازشریف کوپاکستان کا سب سے بڑا قومی رہنما سمجھتے ہیں اب تو وہ بھی پریشان ہوتے جارہے ہیں اس ملک میں سب وسائل اشرافیہ کیلئے مختص ہوکررہ گئے ہیں اور غریبوں کو وہی محرومیاں مل رہی ہیں ملکی حالات ، امن و امان کی صورتِ حال اور کرپشن نے محب وطن پاکستانیوں کو انتہائی اضطراب میں مبتلاکرکے رکھ دیا ہے غریبوں کے بہت سے کام صرف حکمرانوں کی تھوڑی سی توجہ۔۔۔بہتر انتظامی حکمتِ عملی،ٹھوس منصوبہ بندی سے ہی ہو سکتے ہیں ۔اداروں میں روایتی لاپرواہی ۔اربابِ اختیارکی بے حسی اور ہربات پر مٹی پاؤ کی صورتِ حال نے مسائل کو مزید گھمبیر کرکے رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہرحکمران نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہیں کیا شاید اسی پالیسی پر آج بھی عمل ہورہا ہے حالانکہ حکومت کا اصل کام عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنا اورغربت کم کرنا ہے عوام تو مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں اس بارے حکمرانوں کوسوچنا چاہیے ۔۔۔ایک بات قابلِ غور ہے کہ جب تک جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی پاکستان کی نازک ترین صورت حال پر سیاستدانوں کا جوکردار ہونا چاہیے وہ نظر نہیں آرہا کرپشن،اقربا پروری اور اشرافیہ کا اختیارات سے تجاوز بھی سنگین مسائل بن چکے ہیں جس سے لوگ مایوس کیوں ہوتے جارہے ہیں ؟ حکمرانوں کو یہ بھی احساس کرنا ہوگا کہ معاشی چکی میں پسے عوام موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے متحمل نہیں ہیں حکمران عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں تیار کریں جس سے عوام کو ریلیف مل سکے لوڈشیڈنگ،مہنگائی اور کرپشن جیسی لعنتوں سے پاک،خوشحال ،پر امن اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط پاکستان بنانے کیلئے میاں نوازشریف کو پہلے سے زیادہ غور،فکر اور محنت کرنی چاہیے۔ امید۔خوش فہمی ۔یقین اور جاگتی آنکھوں کے سپنے ہمیں مسلسل حوصلہ دیتے رہتے ہیں شاید اسی لئے یہ کہاوت ضرب المثل بن گئی ہے امید پر دنیا قائم ہے۔۔۔ اللہ کرے ہماری سب کی امید قائم رہے ۔