242

وزیر سیاحت کی ناقص پالیسیاں،خوبصورت تریں علاقہ چترال کی تباہ حالی سیاحوں کی آمد میں روکاؤٹ ثابت ہوگی۔ ایم این اے چترال

اسلام آباد( ساجد حسین) نااہل وزیر سیاحت خیبر پختونخوا کی ناقص پالیسیاں،دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں میں شامل چترال کی تباہ حالی سیاحوں کی آمد میں سب سے بڑی رکاؤٹ ثابت ہوگی،خیبر پختونخوا حکومت بحالی کی صرف فارمیلٹی پر گامزن‘ ٹھیکیداروں کو کام کے بغیر ہی بلینک چیک دیئے جانے لگے، صوبائی حکومت نے ٹھیکیدار کمپنیوں کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ تعمیرات کی آدھی سے زیادہ رقم ذاتی خزانوں میں جارہی ہے،بحالی کے لئے اربوں روپے کے فنڈز کا کوئی بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں حاصل ہورہا،چترال کا اصل معنوں میں بحال کیا جائے توبیس ہزار سے زائد افراد کو یک مشت روزگار اور کروڑوں ڈالرز کی آمدن حاصل کی جاسکتی ہے، ان خیالات کا اظہار رکن قومی اسمبلی چترال شہزادہ افتخار الدین نے پشتو ون کے مقبول پروگرام ’’ اسلام آباد آن لائن ‘‘ میں میزبان حسن خان کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران کیا۔افتخار الدین نے اپنی گفتگو میں مزید کہا کہ چترال خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا ضلع ہے اور صوبے کا ایک چھوتائی حصہ ہے،بیس سے بتیس کلومیٹر تک دنیا کے عظیم ترین اور بڑے گلیشئرز چترال میں موجودہیں۔کیلاش، شندور،قاقلشٹ، بروغل جیسے خوبصورت ترین علاقے یہاں پر ہیں اور یہ علاقہ سنٹرل ایشیاء، افغانستان، چائنہ،پاکستان کے بالکل مرکز میں واقع ہے،لواری ٹنل خود ایک بڑا سیاحتی مرکز ہے کیونکہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا ٹنل ہے، پھر یہ کہ پاکستان کے سب سے بڑے سپورٹس ٹورنامنٹ شندور پولو،قاقلشٹ ہوتے ہیں جس کو لاکھوں لوگ دیکھتے آتے ہیں لیکن اس کے باوجودصوبائی حکومت اپنی بدترین نااہلی کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر ذرہ بھر توجہ نہیں دے رہی، چترال سیاحوں کے لئے اتنا دلکش علاقہ ہے کہ 90 کی دہائی میں یہاں غیر ملکی سیاحوں کے صرف ایک ہی گروپ سے 65 سے 80 کروڑ روپے کمائے جاتے تھے لیکن نااہل وزراء اور حکومتوں نے اس علاقے کی قسمت اور آمدن کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا، وفاقی حکومت نے گو کہ چترال کے لئے ایک بڑے پیکیج کا اعلان کیا ہے اور وفاقی حکومت کے تحت سڑکوں کے بڑے منصوبوں پر کام بھی ہورہا ہے جس میں لواری ٹنل کا بہت بڑا منصوبہ، چکدرہ ٹو چترال روڈ کے27 ارب روپے کا منصوبہ اور دیگر بڑے منصوبے شامل ہیں لیکن صوبائی حکومت اپنے اس نہایت منافع بخش خطے پر کسی قسم کی توجہ نہیں دے رہی۔ رکن قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ جب تک سیاحوں کو مکمل سہولیات نہیں دی جاتیں ‘ اس وقت تک غیر ملکی سیاح تو درکنار مقامی سیاح بھی ادھر کا رخ نہیں کریں گے، زلزلے کی وجہ سے چترال کھنڈرات کی شکل پیش کررہا ہے، اکثریتی ہوٹل ملبے کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں، سڑکیں مکمل تباہ ہیں تو پھر سیاح کیونکر یہاں آئیں گے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں ایک پالیسی دی جائے تاکہ اس کے مطابق ہم سیاحوں کو چترال لا سکیں، اس سے نہ صرف پندرہ سے بیس ہزار لوگوں کو روزگار مل سکے گا اور اگر سلسلہ بحال رکھا گیا تو مستقبل میں یہاں لاکھوں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے بلکہ چترال سے صوبائی حکومت سالانہ اربوں روپے سیاحت کی مد میں آمدن حاصل کرسکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں