281

داد بیداد….دو سیاحتی مقامات.…ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

گر میوں کے 6مہینے پہا ڑی علا قوں کی سیا حت کے مہینے ہوتے ہیں اس دوران سیاح شہروں کی مصروف زند گی سے کچھ وقت نکا ل کر پہاڑی وا دیوں کا رخ کر تے ہیں اس ہفتے کے دوران دو سیا حتی مقا مات پر جا نے والے سیا حوں نے اپنے تجربات اور مشا ہدات میڈیا پر لے آئے کا لم نگار جا وید چوہدری نے 35سیا حوں کے گروپ کے ساتھ خیبر پختونخوا کے ضلع لوئیر چترال میں وادی کا لا ش کا دورہ کر کے اپنے مشا ہدات بیان کئے محمد فاروق اور فرخ مسعود نے اپنے با ل بچوں کے ہمراہ سو ئٹزر لینڈ کے سیا حتی مقام اینگل بر گ (Engelberg) کا دورہ کر کے اپنے مشا ہدات کو میڈیا کی نذر کیا دونوں سیا حتی مقا ما ت میں ہزاروں کلو میٹر کی دوری ہے ایک ایشیا میں ہے دوسرا یو رپ میں ہے دونوں میں اگر مشترک اقدار ڈھو نڈنے کا کام کیا جا ئے تو پہا ڑ کے سوا کچھ بھی مشترک نہیں دلچسپ با ت یہ ہے کہ اینگل برگ میں ٹٹلیس (Titlis) پہاڑ کی چوٹی 10620فٹ ہے چترال لوئیر میں لوا ری درے کی بلندی 10500فٹ ہے یعنی دونوں برابر کی بلندی پر واقع ہیں اگست کے مہینے میں لواری کا درہ برف سے خا لی ہو چکا ہے جبکہ ٹٹلیس کی چو ٹی پر گلیشر بھی ہے برف بھی ہے اسلا م اباد سے وا دی کا لاش جا نے والے سیا حوں نے پہلے جہا ز کا ٹکٹ لیاجہا ز کی اُس روز والی پرواز مو سم کی خرا بی کی وجہ سے منسوخ ہو نے پر سیا حوں نے اپنے سفر کو دوحصوں میں تقسیم کیا اسلا م اباد سے براستہ چکدرہ دیر تک کو سٹروں میں سفر کیا دیر سے کا لا ش ویلی تک جیبوں میں سفر کیا اسلا م اباد سے دیر تک 340کلو میٹر کا سفر زیا دہ تھکا دینے والا نہیں تھا سیا حوں نے محسوس کیا کہ راستے میں بزر گوں، بچوں اور خوا تین کے لئے واش روم کی ایک بھی سہو لت نہیں کسی ہو ٹل کا دروازہ کھٹکھٹا نا اور اگر وقت رات کا ہو تو کسی اونگھتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ کو جگا نا پڑتا ہے جگا نے کے بعد اس کو یہ بھی بتا نا پڑ تا ہے کہ کمرہ یا کھا نا نہیں چا ہئیے صرف واش روم کا سوال ہے دیر سے چترال تک 100کلو میٹر کے راستے میں سیا حوں کو وقت کے ضیاع کے ساتھ تھکا وٹ کا بھی گہرا احساس ہو تا ہے چترال سے کا لا ش وادی 27کلو میٹر کا راستہ ہے مگر اس راستے کا خوف اور دہشت سیا ح کو اتنا تھکا دیتا ہے کہ 340کلو میٹر کا سفر اس کے مقا بلے میں کچھ بھی نہیں کا لا ش وادی دنیا کے 10خوب صورت ترین سیا حتی مقا مات میں شا مل ہے اس کی منفرد ثقا فت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے مگر وہاں جا نے والے سیاح دونوں کا نوں کو ہاتھ لگا کر تو بہ کر تے ہیں اور حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ سیا حتی مقا مات کی تشہیر سے پہلے سٹرک بنا ؤ، ہو ٹل بنا ؤ، ریسٹو رنٹ بناؤ، واش روم بناؤ جب سہو لیات پوری ہو ں تو اشتہار دیدو کہ سیا حتی مقا م آپ کا منتظر ہے سو ئٹزر لینڈ کے دونوں سیاح پا کستا نی ہیں فرخ مسعود کا تعلق کو ہاٹ سے ہے محمد فاروق چترال کے با سی ہیں دونوں کا پختونخوا سے تعلق ہے اینگل برگ (Engelberg)سے دونوں بال بچوں کے ہمراہ ریل میں بیٹھے 3300فٹ کی بلندی پر ریل سے اتر کر کیبل کار کے ذریعے 10620فٹ کی بلندی تک خو ش گوار سفر کیا جب ٹٹلیس کی چو ٹی پر اتر گئے تو ایک نیا جہاں ان کے سامنے تھا گلیشر کو چیرتے ہوئے سرنگوں میں روشن راستے اور برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ جہاں جرمن، فرنچ اور انگریزی کے علا وہ کسی زبان کا چلن نہیں ان لو گوں نے ٹٹلیس کی چو ٹی پر شاہ رخ خا ن کی تصویر کے ساتھ ان کی فلم کا دیو قامت اشتہار لگا یا ہوا ہے فلم کا نام ہے ”دل والے دلہنیا لے جا ئینگے“ یہاں کے ریستو رانوں میں شاہ رخ خان کے ملک کا پکوان بھی ملتا ہے تا ہم کمبل میں لپٹی ہوئی جو بڑھیا یہاں اپنے پوتے پو تیوں کا انتظار کر رہی تھی اس کے پا س تھر مو س میں اپنی ہندوستا نی چا ئے تھی اور صاف ستھری اردو بول رہی تھی سوئس حکومت نے اس سیا حتی مقا م پر فلم کا اشتہار لگا کر ایک ارب سے زیا دہ کی آبادی والے ملک کو سیا حت کی دعوت دینے کا انو کھا انتظا م کیا ہے پا کستانی سیا حوں نے زیو رخ (Zurich) کے چڑیا گھر میں ایسے جا نور دیکھے جن کے نا م لکشمی، دیوی، چکوری وغیرہ تھے پو چھنے پر معلوم ہوا کہ یہ جا نور شارخ خا ن کے ملک نے تحفے میں دیئے تھے یہاں منگو لیا کے خو ش گاؤ (یا ک) چترالی سیا حوں کے لئے خصو صی طور پر باعث مسرت تھے۔دونوں سیا حتی مقا مات کا موازنہ کر نے کے بعد اس پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں رہتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں