گلگت بلتستان کے بے شمار مسائل میں ایک اہم مسئلہ بلکہ سب سے اہم اور پیچیدہ مسئلہ ’’ارضیات‘‘ کا ہے۔ارضیات میں سب سے اہم ایشو بنجرزمینیں، جنگلات اور معدنیات کا ہے۔گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں اب تک ارضیات کے حوالے سے سو سال پرانے رسم ورواج اور روایات کو مدنظر رکھ کرمعاملات کو چلایا جاتا ہے۔ آزادی گلگت بلتستان سے پہلے گلگت، استور اور بلتستان کو بندوبستی(Settlement ) حیثیت دی گئی تھی جبکہ دیامر ،غذر، ہنزہ ونگر اب تک نمبرداروں ، جرگہ داروں، وڈیروں اور طاقتوروں کی اقرباپروریوں اور سرکاری عمال کی خرمستیوں کے رحم وکرم پر جی رہے ہیں۔گلگت بلتستان کی ارضیات بالخصوص بنجرزمینوں اور حدود کے حوالے سے جائزہ لیا تو حیران کن چیزیں سامنے آئی۔ تمام اضلاع کے مابین حدود کا جھگڑا ہے۔ ایک ضلع بیک وقت دو تین دیگر اضلاع سے حدود کے جھگڑوں میں الجھا ہوا ہے پھر ہر ضلع کے مابین ڈویژن، تحصیل اور یونین کونسل حتی کہ گاؤں اور نالہ سطح تک حدود کے سخت قسم کے جھگڑے پائے جاتے ہیں۔ انہیں حدود کے جھگڑوں کی وجہ سے اب تک سینکڑوں لوگ مارے جاچکے ہیں اور کئی دیوانی او ر فوجداری کیسز رجسٹرڈ ہیں۔گلگت بلتستان میں بے شمار بنجر زمینیں اس لیے ناقابل استعمال ہیں کہ ان کے حوالے سے کوئی قانونی راستہ موجود نہیں۔ بہت سے علاقوں اور بنجر اراضی پر طاقتوروں نے قبضہ جمایا ہوا ہے۔ بعض جگہوں میں اضلاع کے مابین جھگڑا چل رہا ہے تو بعض میں حکومت اور عوام کے درمیان بنجر ارضیات پر جھگڑے اور مقدمے چل رہے ہیں۔ بے شمار بنجرارضیات ایسی ہیں جہاں عوام آپس میں الجھی ہوئی ہے۔ایک دوسروں کے علاقوں میں قبضے ، مقدمے اورقتل کی سینکڑوں کیسز چل رہے ہیں۔اس سب کچھ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان ارضیات سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اس حوالے سے کوئی مثبت قدم اٹھانے کی بجائے ان بنجر ارضیات پر پابندی عائد کرکے خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔دیامر ڈیم کی مدمیں ملنی والی رقم کا اکثر حصہ ان جھگڑوں میں ناقابل استعمال ہوکر پابندی کا شکار ہے یعنی یہ پوری رقم حکومتی اکاونٹ میں جمع ہے۔یہی حالت بلتستان، گلگت، ہنزہ نگر اور غذر و استورکے بنجر ارضیات کا ہے۔
بنجرزمینوں اور جنگلات اور معدنیات کے حوالے سے ایک اور ظلم گلگت بلتستان میں سالوں سے روا رکھا جارہاہے۔ نظام اور رواج آج سے سو ڈیڑھ سوسال پرانا والا چل رہا ہے۔ ایک قوم یا قبیلہ تین سو سال سے ایک علاقے میں آباد ہے مگر اس کو جنگلات کی ریالٹی اور جنگلات سے استفادہ کرنے ، بنجر زمینوں کی تقسیم اور اس کی مدمیں ملنا والا پیسہ اور معدنیات سے استفادہ کرنے سے محروم رکھا جارہا ہے۔بے شمار مثالیں ایسی ہیں کہ ڈیڑھ سو سال سے آباد لوگوں کو بنجرزمینوں اور جنگلات سے ملنے والے رقم میں اس لیے حصہ نہیں دیا گیاکہ وہ ’’غیر مالک ‘‘ ہیں۔ یہ مالک اور غیر مالک کا ظالمانہ اور کافرانہ تصور کہاں سے آیا اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ بس طاقت کے نشے میں کچھ لوگ مالک ہیں اور بہت سارے غیر مالک۔ اور مالک لوگ اپنے ایریاز کے تمام بنجراراضی، تمام جنگلات ، معدنیات اور دیگر نیچرل ریسورسز یعنی قدرتی وسائل کے بلاشرکت غیر مالک بنے ہوئے ہیں۔اور خدا کی زمین پر خدا بن کر بیٹھنے میں فخر بھی کرتے ہیں۔یا اسفا علی ذالک
ایک انٹرنیشنل ریسرچ رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان میں معدنیات کے بے شمار ذخائر موجود ہیں۔دنیا کا دوسرا قیمتی ڈائمنڈ گلگت بلتستان کا ہے۔ہر قسم کے قیمتی پتھر گلگت بلتستان کے ان کالے کالے پہاڑوں میں موجود ہیں۔معدنیات کے حوالے سے گلگت بلتستان پوری دنیا میں امیر ترین علاقہ ہے اور جی بی کا مستقبل بھی ان معدنیا ت کے درست استعمال سے جڑا ہوا ہے۔لیکن انتہائی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان اور آزادی گلگت بلتستان سے اب تک اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ گزشتہ چند سالوں میں معدنیات کے حوالے سے گلگت بلتستان کو بہت عروج حاصل ہوا تو اس حوالے سے بھی کسی قسم کے قوانین موجود نہیں تھے۔ کچھ جعلی کمپنیوں کو لائسنس دیے گئے۔ اور سستے داموں قیمتی سرمایہ فروخت کیا گیا۔ محسن انڈسٹری اور اس جیسے دیگر کالے بھجنگ اس علاقے کو لوٹنے میں بھرپور کامیاب ہوئے۔معدنیات کے حوالے سے چونکہ قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی اس لیے محکمہ کے سابق اعلیٰ افیسران، سیکڑیز اور ان کے کارندوں نے ان کمپنی مالکان سے بھاری مقدار میں رشوتیں وصول کی اور بعض کے ساتھ اپنے حصے شیئر کیے پھر انہیں من مانی کرنے کی کھلی اجازت دی۔محتاط اندازے کے مطابق ان چند سالوں میں گلگت بلتستان کو اربوں کا نقصان ہوا۔اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس اور باوثوق ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق معدنیات کے ڈیپارٹمنٹ کے چندسابق کرپٹ آفیسروں نے جمیز اور منزلر میں کام کرنے والی لوکل کمپنیوں اور کاروباری لوگوں کا جینا حرام کیا۔ لائسنس منسوخ کیے گئے اور انہیں ڈرا دھمکا کر ان کے گوداموں میں چھاپے مارے ، ان کے قیمتی املاک کو ضبط کیا۔ اور ملک کے دوسرے حصوں میں اسمگلنگ کرکے کروڈوں کمائے۔بہت سارے غیر ملکی لوگ بھی اس گورکھ دھندے میں شامل رہے، لیکن افسوسناک امر یہ تھا کہ گلگت بلتستان کے ارباب اقتدار، حساس اداروں کے لوگ اور دیگر تمام لوگ غفلت کی گہری نیند سو گئے۔ اخبارات نے بھی اس معاملے کو زیادہ دیر تک نہیں اچھالا۔آخری اطلاعات کے مطابق معدنیات کے حوالے سے قوانین تیار کرلیے گئے ہیں اور جی بی کونسل نے اس کی منظور ی دینی ہے۔ اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ ان بنائے ہوئے قوانین کو جی بی اسمبلی میں بحث کے لیے پیش کیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مخصوص لابی اپنے مفادات کے لیے جی بی کے عوامی مفادات کو پس پشت ڈالے۔جڑی بوٹیوں کے حوالے سے بھی گلگت بلتستان بالخصوص استور اور بلتستان بہت امیر ہے مگر قیمتی جڑی بوٹیوں کے حوالے سے بھی قوانین موجود نہیں،اور نہ ہی ان کی اہمیت و افادیت سے کسی کو شعور وآگاہی حاصل ہے اور علاقہ ان جڑی بوٹیوں سے استفادہ کرنے سے محروم ہے۔ استور اور بلتستان میں ’’ بکراوال‘‘ کی شکل میں آنے والے لوگ سالانہ اربوں کی جڑی بوٹیاں مفت میں نکال لے جاتے ہیں اور ان کی پست پر یقیناًکوئی طاقتور گروپ موجود ہے مگر ہمارے ادارے آرام کی گولیاں کھا کر گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔ایک اطلاع کے مطابق کچھ قیمتی جڑی بوٹیاں پوری دنیا میں ناپیدہیں صرف استور اور بلتستان کے سبزہ زاروں اور چراگاہوں میں پائی جاتیں ہیں۔
جنگلات کے حوالے سے بھی انتہائی مخدوش صورت حال کا سامنا ہے۔اس حوالے سے بھی باقاعدہ قوانین موجود نہیں۔ ضلع دیامر میں بے انتہاجنگلات ہیں جس میں ہر قسم کی قیمتی لکڑی والے درخت موجود ہیں۔بے دریغ کٹائی کے باوجود بھی یہ جنگلات آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ تمام جنگلات اور قیمتی درخت چند نمبرداروں، ٹمبر مافیا اور چند کرپٹ محکموں کے چند آفیسروں اور طاقتور وڈیروں کی من مانیوں اور علاقائی غیر انسانی رسم و رواج اور ملکیتی و غیر ملکیتی ظالمانہ قوانین کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی ضرورت اور مفاد کی خاطر اپنی طرف سے کچھ قوانین گھڑنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ یقیناًان کا کوئی فائدہ نہیں۔ قوانین اسمبلیاں بناتی ہیں۔ایک تو بے تحاشا کٹائی کی گئی ہے اور پھر جنگلات کی مدمیں موصول ہونی والی رقم کو مخصوص افراد میں تقسیم کیا گیا ہے۔ صدیوں سے رہنے والے لوگوں کو ’’ غیرمالک‘‘ کا لیبل چسپاں کرکے محروم رکھا گیا ہے۔جن کو مالک تصور کیا گیا ہے ان میں بھی غریب لوگوں کو بہت کم حصہ دیا گیا ہے ۔ چند لوگ ان تمام قدرتی وسائل کو اپنی نجی ملکیت بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ان کی ظالمانہ کہانیوں کو سناجائے تو رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ظلم کا یہ سلسلہ آزادی گلگت بلتستان سے لے کر تادم تحریر اپنی پوری جاہ وجلال کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
دنیا اکیسوی صدی میں جی رہی ہے مگرہم اپنے دائیں بائیں کا جائزہ لیں تومعلوم ہوتا کہ ہم پتھر کے دور میں جی رہی ہے بلکہ پتھر کے دور میں بھی کچھ قوانین ہوا کرتے تھے۔کہاجاتا ہے کہ جنگل کا قانون چل رہا ہے مگر سچ یہ ہے کہ جنگل میں بھی تو کوئی قانون چل رہا ہوگا مگر گلگت بلتستان میں بنجر ارضیات، معدنیات اور جنگلات اور دیگر قدرتی وسائل کے حوالے سے قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔مفاداتی گروہوں، پریشر گروپس اور طاقتور فیملیزنے اپنے مفادات کے لیے وقتا فوقتا ’’محکمانہ قوانین‘‘ بنوانے کی کوشش کی ہے مگر یہ علاقہ اور عوام کی مفاد کے بجائے ان مخصوص لوگوں کو فائدہ بہم پہنچاتے ہیں۔ ان حساس معاملات کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے جناب وزیر اعلی گلگت بلتستان کو ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کے لیے موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ چونکہ اسمبلی میں ن لیگ کو بھاری اکثریت حاصل ہے ، اگر وہ ماہرین سے مشاورت اور معاونت کے بعد گلگت بلتستان کی ارضیاب بالخصوص بنجر زمینیں، خالصہ زمینیں، نظام آب، معدنیات اور جنگلات اور جڑی بوٹیوں کے حوالے سے قانون سازی کرے تو بغیر کسی مشکل کے وہ قوانین اسمبلی سے پاس کرواسکتے ہیں۔اگر موجودہ اسمبلی ارضیات کے تنازعے، حدود کی لڑائیاں،بنجرارضیات کی قانونی حیثیت، جنگلات، معدنیات، مالک اور غیر مالک کی لڑائی،حدود کی تعین، اور اس قبیل کے دیگر ظالمانہ رسوم ورواجات کے خاتمہ کے حوالے سے انصاف پر مبنی قوانین بنانے میں کامیاب ہوئی تو یہ اکیسوی صدی میں گلگت بلتستان کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔ قوانین کی موجودگی میں معدنیات، جنگلات اور بنجرارضیات کادرست استعمال ہوگا جسے علاقے کی قسمت بدل جائے گی۔ہر ذی شعور انسان سمجھتا ہے کہ آج گلگت بلتستان کی سب سے اہم ضرورت انہیں چند چیزوں میں بہتر حکمت عملی اور قانون سازی ہے۔اگر موجودہ اسمبلی اس حوالے سے کوئی مثبت اقدام کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اگلی حکومت بھی یہی بنائی گی ۔ اگر مہدی شاہ سرکار کی طرح چند مخصوص لوگوں کو نوازنا، خود بھی کھاؤ ، دوسروں کو بھی کھلاؤ اور من پسند افراد کی اعلیٰ پوسٹوں پر تقرری تک محدود رہی تو یاد رہے کہ ان کا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا۔اگر ن لیگ ایسے کچھ ایکٹس اسمبلی میں لاتی ہے تو حزب اختلاف کے دو چار لوگ بھی ان کے حمایتی بن جائیں گے۔اور قوم بھی سمجھیں گی کہ اسمبلی ،ممبروں،وزیروں، گورنروں اور مشیروں کی شاہ خرچیوں کی مَد میں قوم کو سالانہ اربوں کا نقصان ہوتاہے تو پھرمثبت قانون سازی کی شکل میں ان کو فائدہ بھی ہورہاہے۔کیا میری اس صدا کو کوئی سن سکتا ہے؟ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو