345

اشرافیہ اور عوام۔۔۔۔۔۔پروفیسر رفعت مظہر

ہم نے ہمیشہ لکھا کہ صحافت سیادت ہے شرط مگر یہ کہ اِس میں کھنکتے سکّوں کی ملاوٹ نہ ہو۔ لیکن آجکل میڈیا کا دامن اتنا وسیع ہو چکا کہ اِس میں ”لفافہ صحافیوں“ اور زرد صحافت کی گنجائش بدرجہئ اتم موجود۔ لگ بھگ تین عشرے پہلے تک شام کے جو اخبارات چھپا کرتے تھے اُن کی فروخت کا واحدہتھیار سنسنی خیزی ہوتاتھا۔ ٹریفک اشاروں پر ہاکر آواز لگاتے ”دھماکہ ہوگیا“ تو ہم جلدی سے اخبار خرید لیتے کہ ہم بھی سنسنی خیز خبروں کے بڑے شوقین تھے۔ خبر پڑھنے پر پتہ چلتا کہ وہ دھماکہ تو کسی گاڑی کا ٹائر پھٹنے کا تھا۔ اب چونکہ ہم بھی تھوڑے ماڈرن ہو گئے ہیں اِسی لیے اِس سنسنی خیزی کو ”بریکنگ نیوز“ کا نام دے دیا گیا ہے جس میں خبر کو ”بارہ مصالحے“ لگا کر یوں پیش کیا جاتا ہے کہ اصل خبر ”ریٹنگ“کے گہرے پانیوں میں گم ہو جاتی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اکثر لکھاری اور تجزیہ نگار بھی اِسی بے ڈھنگی چال کے شکار ہو چکے۔ وہ ”اندر کی خبروں“ کو اِس اعتماد کے ساتھ پیش کرتے ہیں جیسے وہ اُس محفل میں بنفسِ نفیس موجود ہوں۔ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہماری پوری صحافت ہی سنسنی کے ”گَٹر“ میں بہہ چکی۔ حقیقت یہ کہ ”ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے عمرِ رواں کا زیادہ تر سفر دشتِ صحافت کی سیاحی میں گزارا۔ اُن کے ہاں اب بھی بوئے صحافت موجود اور اُن کے کالم جہاں چمنِ صحافت کے گلہائے رنگارنگ سے مزیّن، وہیں اہلِ سیاست کے اُن کانٹوں کا ذکر بھی جن سے ارضِ وطن کا دامن تار تار۔ جناب سعید آسی بھی اُنہی میں سے ایک جن کا قلمی سفر 70 کہ دہائی سے روز نامہ نوائے وقت سے شروع ہوا اور تاحال وہ اُسی شجر سے پیوستہ۔
سعید آسی سے ہماری بالمشافہ ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔اُن سے ہمارا تعارف اُن کے کالم ہیں جن میں لگی لپٹی رکھے بغیر وہ سب کچھ لکھ جاتے ہیں جنہیں لکھتے ہوئے اکثر لکھاریوں کے قلم رعشہ زدہ ہو جاتے ہیں۔ جس زمانے میں سعید آسی یونیورسٹی لاء کالج کے طالب علم تھے، ہم یونیورسٹی اورینٹل کالج میں ایم اے اُردو کے سٹوڈنٹ تھے۔ آسی صاحب کی ”اشرافیہ اور عوام“ کا مطالعہ کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ ہماری طرح اُن کا تعلق بھی اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔ اِسی لیے جب وہ لیاقت بلوچ، فریدپراچہ اور عبدالشکور جیسے احباب کا ذکر کرتے ہیں تو ہماری نظروں کے سامنے یونیورسٹی کے درودیوارگردش کرنے لگتے ہیں اور ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے ہوئے عہدِ جوانی میں پہنچ جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے اُس دَور میں ذوالفقار علی بھٹو کا عروج تھا جس میں ”سُرخے“ ایشیاء کو سُرخ اور جماعتیے سبز کرنے کی تگ ودَو میں رہتے۔
آسی صاحب کی عمر بھر کی مسافتوں کا ثمر اُن کی تحریریں ہیں جو بقول بھائی عطاء الحق قاسمی ”اُن کا تعلق میڈیا کی لفافہ کلاس سے نہیں“۔ مجیب الرحمٰن شامی نے لکھا ”سعید آسی سو فیصد دیانتدار صحافی ہیں جنہوں نے متانت ووقار کے ساتھ زندگی گزاری اور مجیدنظامی کی مسند پر بیٹھنے کا حق ادا کر دیا“۔ ہمارے خیال میں تو سعید آسی کی عظمتوں کے حق میں یہی دو گواہیاں کافی ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو ”اشرافیہ اور عوام“کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجئے جہاں آپ کو ایک دبنگ صحافی سچائیوں کی شمشیرِبرہنہ لہراتا ہوا نظر آئے گا۔سعید آسی کی ادب شناسی کسی بھی شک وشبہے سے بالاتر ہے۔ روانی وسلاست اُن کی تحریروں کا خاص وصف ہے جس کے سحر میں قاری یوں گُم ہوتا ہے کہ وقت ٹھہر سا جاتا ہے اور قاری کی جستجو اُسے صفحہئ آخر تک لے جاتی ہے۔ وجہ شاید یہ کہ غالب کے اشعار کی طرح سعید آسی کی تحریریں بھی ہشت پہلوکہ وہ بیک وقت صحافی، لکھاری، شاعر، قانون دان اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ہر قاری کواُن کی تحریروں میں اپنا مطلوب و مرغوب موضوع مل جاتا ہے۔ سعید آسی کی یہی خصوصیت اُن کی انفرادیت کو برقرار رکھتی ہے۔ اُن کے ہاں جہاں سنجیدگی اور متانت ہے وہیں ایک درد کی رَو بھی روح میں سرایت کرتی رہتی ہے۔ یہ دردوکرب قوم کی بَدحالی کا آئینہ دار بھی ہے اور اپنوں سے بچھڑنے کا نوحہ بھی۔ درد میں ڈوبی ایسی تحریریں شاید آسی صاحب سے بہتر کوئی نہ لکھ سکے۔ بھائی رؤف طاہر کے جہانِ فانی سے رخصت ہونے پر اُنہوں نے لکھا ”قلم رکھ دیا، بھئی زندہ جاوید رؤف طاہر پر کیا لکھوں، کیوں کر لکھوں، پھر ذہن پر سکوتِ مرگ طاری ہوگیا، کچھ لمحہ توقف کے بعددوبارہ قلم اُٹھایا تو یاروں کاغم خوار رؤف طاہر پھر میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔۔۔۔ قلم پھر جھٹک کر رکھ دیا۔ کیا میں جیتے جاگتے انسان کا نوحہ لکھوں؟۔ دل مان ہی نہیں رہا تھاکہ یاروں کے ہر دُکھ کا دَم بھرتا اور ہر خوشی کا حصّہ بنتا، ہمارا بھائی رؤف طاہر ہم میں نہیں رہا“۔ حقیقت وہی جو سعید آسی نے لکھ دی، بھائی رؤف طاہرواقعی ہر کسی کے غم گسار تھے۔ ہم اُس وقت امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں تھے جب رات کے تقریباََ دو بجے (پاکستان میں اُس وقت دن کے بارہ بجے تھے)بھائی عطاء الحق قاسمی کا مظہر صاحب کو میسیج ملا جس میں اُنہوں نے رؤف طاہر کی رحلت کا بتایا۔ وہ رات ہم نے رؤف بھائی کی یادوں میں گزاری۔ رؤف طاہر تو گویا ہمارے خاندان کا ایک فرد تھے جو بغیر بتائے ہمارے گھر میں یوں آتے جیسے اپنا ہی گھر ہو۔ بس آتے ہوئے صرف اتنا ”تکلف“ کرتے کہ مظہر صاحب کو فون کرکے پوچھ لیتے ”کِتھے جے“۔ پھر آتے ہی نادرشاہی حکم ملتا ”گھر میں جو کچھ پکا ہے جلدی سے لے آؤ“۔اب اِس دَور میں بھلا رؤف طاہر جیسے نابغاحہئ روزگار کہاں۔
یوں تو سعید آسی کی تحریریں سنجیدگی اور متانت سے لبریز لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اُن کے اندر ایک کھلنڈرا اور شرارتی سا بچہ بھی موجود ہوجو کبھی کبھی اُن کی متانت کا نقاب نوچ لیتا ہے۔اُن کی تحریروں کا یہی وصف شگفتگی برقرار رکھتا ہے اور تحریرکو بوجھل نہیں ہونے دیتا۔اپنی اہلیہ محترمہ کی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے ”مہنگائی کے توڑ کا مجرب نسخہ“ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں رقم طراز ہیں ”اِس کے لیے سوشل میڈیا پر چلنے والا یہ ”اشتہار“ زادِ راہ بنا لیا جائے تو زندگی کے جھنجٹوں سے چھٹکارے میں مزید آسانی ہو جائے گی۔ اِس اشتہار میں ہم راندہئ درگاہ طبقات کو ہی یہ صائب مشورہ دیا گیا ہے کہ ”تمام دوائیں غریبوں کی پہنچ سے دور رکھیں، طبیعت زیادہ خراب ہو تو یاد رکھیں کہ سکون صرف قبر میں ہے۔اور جناب! ”نرخ بالا کُن“ کے جواز نے تو دل باغ باغ کر دیا۔ وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان میڈیا کے روبرو آکر کتنے اعتماد کے ساتھ فرما رہے تھے کہ ادویات کے غیرمعیاری ہونے اور مارکیٹ میں ناپید ہونے کا توڑ نرخ بڑھا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ بھئی یہ تو بہت مجرب نسخہ ہے جو گزشتہ دو سال میں پانچ بار دہرایا جا چکاہے“۔
اپنی تحریروں میں سعید آسی طنز کے ایسے نشتر چلاتے ہیں جن کی چبھن تادیر برقرار رہتی ہے۔ جہاں کچھ غلط دیکھا، میدان میں کود پڑے اور کشتوں کے پُشتے لگا دیئے۔”بَس آگاہ رہیے جناب!“ میں لکھتے ہیں ”تو جناب مہنگائی میں کمی لانے کے وزیرِاعظم عمران خاں کے تفکروتجسس اور اُن کے اعلان کردہ اقدامات سے تو زخموں پر پھاہے رکھے جاتے نظر نہیں آرہے اور گھَن چکر ایسا کہ کہیں اونٹ کے مُنہ میں زیرے کے مترادف ریلیف دیا جاتا ہے تو اِس فارمولے کے لاگو ہونے سے پہلے ہی اُس کے ممکنہ ثمرات متعلقہ اشیاء کے نرخوں میں اضافہ کرکے منہا کر لیے جاتے ہیں۔ پھر آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ریاستِ مدینہ کے تصور والی فلاحی ریاست پر بھی راندہٗ درگاہ عوام کا مان ٹوٹ گیاتو یہ کس انقلاب کی نوید بنے گااور عالیجاؤں، عالم پناہوں، ناخُداؤں اور عیش وطرب میں ڈوبے سارے ”تجمل حسین خانوں“ پر کیا حشر ڈھائے گا، بس آگاہ رہیے اور بچاؤ کی سبیل کر لیجئے، اُس وقت سے جب راج کرے گی خلقِ خُدا، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو“۔ سچ یہی کہ سعید آسی کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے یہ مختصر سا کالم ناکافی، اِس کے لیے اُن کی تصانیف کا مطالعہ ضروری۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں