244

سرکاری ملازمتوں سے چترال کے نوجوانوں کو محروم رکھنے کا سلسلہ جاری…تحریر: کریم اللہ

2013ء سے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے پی ٹی آئی کا پہلے دن ہی سے یہ دعوی رہا ہے کہ وہ میرٹ کو بحال رکھیں گے اور سارے شہریوں کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کیا جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت نے واقعی چترال کے ساتھ انصاف کیا ہے۔۔؟؟
پی ٹی آئی کے پہلے دور حکومت کے دوران بروغل کو نیشنل پارک قرار دے کر اس پراجیکٹ کےلئے کم و بیش سترہ سے بیس بندے بھرتی ہوئے جن میں واچر اور کمیونٹی موبیلائزر بھی شامل تھے ۔ مگر ان میں سے ایک بھی لوکل بندے کو بھرتی نہیں کیا گیا بلکہ اس پروجیکٹ میں بھرتی ہونے والے سارے افراد کا تعلق پشاور، مردان اور نوشہرہ سے تھے ، حد یہ ہے کہ خاتون سوشل / کمیونٹی موبیلائزر کی پوزیشن پہ مردان کے کسی لڑکی کو بھرتی کیا گیا۔ اس کے خلاف پریس کانفرنسز ہوئے احتجاج ہوا مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ۔ چار پانچ سالوں کے اندر بروغل نیشنل پارک کے نام پر مردان ، صوابی، نوشہرہ اور پشاور سے تعلق رکھنے والے افراد تنخواہوں کے مزے اڑاتے رہے مگر کسی ایک ملازم نے موسم گرما میں ٹور کے لئے بھی بروغل آنے کی زحمت گوارا نہ کی ۔
2۔ کلاس فور ملازمتوں میں ہیرا پھیرا کی باتین آپ سب کے علم میں ہے ، محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم میں نہ صرف چترال کے اندر دور دراز سے من پسند افراد کی تعیناتی ہوتی رہی بلکہ محکمہ صحت میں مردان اور پشاور سمیت ڈاؤن ڈسٹرکٹ سے کلاس فور بھرتی کرکے گرم چشمہ اور دوسرے علاقوں میں تقرری جیسے کارنامے بھی اسی حکومت میں دیکھنے کو ملی۔ ایسی صورتحال میں چترال کے منتخب و چنتخب ہر د و قسم کے نمائندگان آپس میں ایکدوسرے سے دست و گریبان تو ہوئے مگر لوگوں کو ان کا جائز حق دلوانے میں کسی نے بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
3۔ چند ماہ قبل ایک خبر چلی کہ ڈسٹرکٹ ایٹرنی اپر چترال میں کلاس و فور ڈرائیور سمیت درجنوں ضلعی کیڈر کی پوسٹوں پر پشاور، نوشہرہ ، صوابی اور مردان وغیرہ سے بندوں کی پوسٹنگ کرکے گزشتہ آٹھ ماہ سے انہیں پشاور میں رکھا گیا پھر آٹھ نو ماہ بعداپر چترال بھیج دیا گیا اس کے خلاف سوشل میڈیا میں ہو ہاؤ ہوئی اور پھر معاملہ ختم ہوگیا ۔
یہ تو پی ٹی آئی کی قیادت کو پتہ ہے کہ اپر چترال کے نوجوانوں میں آفس اسسٹنٹ یا کمپیوٹر اپریٹر بننے کی صلاحیت کسی میں نہیں مگر کیا اپر چترال میں کلاس فور اور ڈرائیور کی پوسٹ کے لئے بھی کوئی اہل نہیں۔۔۔؟؟
4۔ حال ہی میں محکمہ آبی حیات یعنی فیشریز میں بڑے پیمانے پر واچر بھرتی ہوئے میرے ذرائع کے مطابق اپر چترال میں واچر کی کل تیس پوسٹیں تھی ان میں سے اکثریت سوات سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھرتی کرکے اپر چترال بھیجا گیا ۔ پی ٹی آئی کے انتہائی سنئیر ذرائع نے بتایا کہ لوئر چترال میں واچر کے دس پوسٹوں پر بھی سوات سے بندوں کو بھرتی کیا گیا۔ مگر پی ٹی آئی چترال کے بعض رہنما فیس بک میں صفائیاں دیتے رہے کہ پوسٹیں تو ڈویژنل لیول کی تھی ۔ حالانکہ واچر کی بنیادی ذمہ داری علاقے میں جانوروں کی نگرانی ہوتی ہے جو اسی مخصوص علاقے کے لوگوں کا حق بنتا ہے مگر انصاف کی حکومت میں اگر کلاس فور و ڈرائیور کوئی چترالی نہیں بن سکتا تو واچر کس طرح بن سکتا ہے۔
یہی انصاف کی حکومت کے چند موٹے موٹے کارہائے نمایاں ہے ، البتہ پس پردہ کیا کیا ہوتے رہے اس کا زیادہ اندازہ نہیں۔

وزیر اعلی کے مشیر وزیر زادہ، پی ٹی آئی چترال کی قیادت، ایم پی سے ہدایت الرحمن اور ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی سے گزارش

(ایٹا کے ہاتھوں اہالیان چترال کا استحصال بند کروانے میں اپنا کردار ادا کریں)

ایٹا خیبر پختونخواہ حکومت کا ایک ٹسٹنگ ادارہ ہے پہلے اسی ادارے کے تھرو انجینئرنگ اور میڈیکل کے ٹسٹ کروائے جاتے تھے مگر رفتہ رفتہ صوبائی حکومت نے سرکاری اداروں کے سارے ٹسٹ اسی ادارے کے حوالے کردئیے۔ مگر اتنا بڑا سرکاری ادارہ ہونے کے باؤجود اس کے ٹسٹ سنٹر صرف چند ایک مقامات پر موجود ہے جس کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے امتحانی امیدواروں کو شدید مشکلات درپیش ہے۔

حالیہ دنوں محکمہ جیل خانہ جات میں جیل وارڈر اور دوسری پوزیشنوں کے لئے مردو خواتین سے اسی ادارے کے تھرو ٹسٹ لئے جارہے ہیں۔ پچھلے دنوں امیدواروں کے فزیکل ٹسٹ ملاکنڈ یونیورسٹی چکدرہ میں ہوئے۔ جس میں اپلائی کرنے والوں میں سے نوے فیصد خواتین کا تعلق چترال سے تھے۔ ان خواتین کو اتنے دور سے ملاکنڈ یونیورسٹی لا کے ان کے فزیکل ٹسٹ بالخصوص دوڑ وغیرہ کروائے گئے اور اب 26 فروری کو اس فزیکل میں پاس ہونے والوں کا ریٹن ٹسٹ پھر اسی ملاکنڈ یونیورسٹی میں رکھا گیا تھا مگر بعد میں موسمی حالات کی وجہ سے 5 مارچ تک ملتوی ہوچکے ہیں۔

 صوبائی حکومت، مشیر برائے وزیر اعلی وزیر زادہ، ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمن، ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی اور پی ٹی آئی چترال کی قیادت سے گزارش ہے کہ اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھا کر 5 مارچ کو ہونے والے ٹسٹ کے لئے چترال میں سنٹر قائم کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں کیونکہ اس سخت موسمی حالات میں چترال کے دور افتادہ علاقوں سے خواتین کا ملاکنڈ یونیورسٹی چکدرہ آنا انتہائی ریسک بھی ہے اور وہاں ذلالت کا بھی سامنا رہتا ہے۔ کیونکہ چکدرہ سے تمرگرہ تک کم و بیش ایک سے دو گھنٹے کا فاصلہ ہے ساتھ ہی چکدرہ اور تیمرہ گرہ سے ماسوائے ٹو ڈی کے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں اس کے علاوہ چکدرہ میں رہائش کے لئے ہوٹل وغیرہ بھی موجود نہیں۔ جس کی وجہ سے چترالی امیدواروں کو بہت سارے مالی خسارے کا سامنا رہتا ہے۔

انہی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے محکمہ جیل خانہ جات کے لئے اپلائی کئے ہوئے امیدواروں کا ٹسٹ سنٹر چترال میں کروایا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں