Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

"بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم  بونیر سے تعلق رکھنے والےچودہ  سالہ حیدر نصیب کھٹن مراحل طے کرکے سپیشل ایجوکیشن کمپلیکس مردان پہنچے، مگر ابھی ان کے امتحان باقی ہیں”

"ایک مشکل کو عبور کرتے ہیں تو ایک اور سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ میری اور میرے بچے کی ہمت توڑنے کے لیے حکومتی  اور معاشرتی  سطح پر بے شمار مشکلات  ہمیشہ سے مو جود ہیں۔ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتں ۔ ” یہ  کہنا تھا حیدر نصیب کے والد نصیب یار کا جو گذشتہ آٹھ برسوں سے اپنے بیٹے کو ایک بامقصد زندگی کی طرف لے جانے میں مصروف عمل ہیں۔

حیدر نصیب قوت سماعت و گویائی سے محروم بچہ ہے جس کا تعلق ضلع بونیر کے تحصیل چغرزی کے  گاؤں انذرمیرہ سے ہے۔ ان کے والد نصیب یار چغرزی نے اپنے بیٹے کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے خصوصی گفتگو میں ان کی ہمت بھری کہانی بیان کرتے ہوئے کہا  کہ حیدر نصیب میرا وہ  بچَہ جو کچھ صلاحیتوں کی کمی ہونے کے باوجود علم و ہنر سیکھنے کی تڑپ رکھتا ہے۔ آگے بڑھنا چاہتا ہے، کچھ بن کے دکھانا  چاہتا ہے۔اپنی تعلیم و  تربیت کے  حوالے سے بہتر انتظام نہ ہونے کے باوجود بھی  وہ مسلسل اپنی تعلیم کے لئے کوشاں ہے۔

حیدر نصیب کے والد نصیب یار چغرزئی کا تعلق  صحافت سے  ہے اور کئی معروف اداروں کے ساتھ بونیر سے بحیثیت نمائندہ و بیورو چیف کام کرتے ہیں۔ انہوں  نے اپنے بچوں کے حوالے سے بتایا کہ میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور ان میں سے حیدر نصیب  سب سے بڑے ہیں۔  وہ شروع ہی سے خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے یا بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ جب اسکی بہن اور بھائی   عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سکول جانے لگے تو انہیں دیکھ کر حیدر کے من میں بھی سکول جانے کا خیال آتا تھا اور مجھ سے بار بار کہتے کہ مجھے بھی سکول میں داخل کراؤ،  پر میں کیسے ان کو سمجھاتا، کہ عام بچَے جن سکولوں میں جاتے ہیںوہ نہیں پڑھ سکتے ۔

ان کا کہنا تھا کہ بیٹے کو سمجھانے کے لئے میں نے ان کو دیگر بچَوں کے سکول بھیجنا شروع کیا تو کئی دن جانے کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ مجھے تو وہاں کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ تب میں نے ان کو سمجھایا کہ بیٹا ! آپ جیسے  بچوں کے لئے الگ سکول ہوتے ہیں جہاں انہیں مخصوص طریقوں سے پڑھایا جاتا ہے۔ اب ان کی سمجھ میں بات آگئی تو سپیشل ا یجوکیشن والے سکول میں جانے کی ضد شروع کی ۔میں نے اس کے لئے بہت کوشش کی کہ بونیر میں سکول کا انتظام ہوجائے ایک سکول دو ہزار سولہ میں شروع ہوا  جس میں اس وقت 72 بچے زیر تعلیم تھے جوکہ قوت سماعت و گویائی سے محروم تھے۔ چونکہ وہ سکول اینول ڈیویلپمنٹ پلان کے فنڈ سے چلتا تھا اور کرایہ بلڈنگ میں تھاتب    دو ہزار اٹھارہ  کے بجٹ میں پی ٹی آئی حکومت نے اس کے لئے فنڈز مقرر نہیں کیےجس کے باعث سکول کو چلانا ناممکن ہوگیا اور مجبوراً سکول  بند ہوگیا۔ ہم نے اس سکول کو دوبارہ شروع کرانے کی بہت کوششیں کیں، ڈپٹی کمشنر سے ملے، ایم پی ایز سے ملےاور سوشل ویلفیئر افیسر کے ساتھ رابطے میں رہے لیکن تمام کوششیں بے سود رہیں۔

نصیب یار نے کہا کہ میں اپنے بچے کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیلنا نہیں چاہتا تھا اسی لئے میں نے دیگر اضلاع کا رخ کیا میں نے سوات، پشاور، مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے تعلیمی اداروں کے دورے کئے تو پتہ چلا کہ پورے صوبے میں صرف دو سکول ایسے ہیں جن کے ساتھ ہاسٹل کی سہولت موجود ہے ایک مردان میں اور دوسرا  ڈیرہ  اسماعیل خان  میں ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ  ان دو سکولوں میں بھی صرف 40 بچوں کے رہنے کی گنجائش ہے۔  چونکہ مردان، بونیر سے  نزدیک پڑتا ہے اسی لئے میں نے وہاں کے ڈپٹی کمشنر کے ذریعے  کسی نہ کسی طریقے سے حیدر کو داخل کروایا۔ لیکن اب مسلہ یہ ہے کہ مردان سپیشل ایجوکیشن کمپلکس میں ہر اتوار کو ہاسٹل کی چھٹی ہوتی ہے۔ اب یہ تو بچے ہیں جنکو کسی نہ کسی جسمانی کمی کا سامنا ہے تو ہمیں یہ فکر رہتی ہے کہ کیسے جائیں گے؟ کیسے آئینگے؟ بول نہیں سکتے ، سن نہیں سکتے ، ڈرائیورز کا رویہ ان کے ساتھ  عموماًٹھیک نہیں ہوتا کبھی کبھار تو گاڑی والے ان کو مارتے بھی ہیں یا کرایہ زیادہ لیتے ہیں۔ اسی طرح کے ایک واقعے کے بارے میں نصیب یار نے بتایا کہ ایک دن جب حیدر سکول سے گھر آئے تو  رو کر کہنے لگے کہ میں نے واپس سکول نہیں جانا، میں نے پوچھا کیوں؟  تو کہنے لگے کہ ڈرائیور نے مجھ سے 170 روپے کرایہ کی بجائے 400 روپے لئے اور جب  میں بقایا مانگنے کی کوشش کی تو  اس نے گالی گلوچ کی اورمجھے مارا۔ میں نے حیدر سے پوچھا کہ آپ کو گاڑی نمبر وغیرہ یاد ہے تو کہا کہ مجھے نہیں پتہ۔ اب میں نے ان کو یہ بھی سمجھایا کہ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے گاڑی کا نمبر لکھا کرو یا موبائل میں تصویر بنا کر مجھے بھیجا کرو تاکہ بعد میں پہچاننے میں مسلہ نہ ہو۔ اسی طرح کے کئی واقعات معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔

ایک اور واقعے کے بارے میں بتایا کہ چیک پوسٹ پر پولیس نے بہت تنگ کیا کہ آپ کے پاس کارڈ نہیں ہے اسی بہانے بہت دیر تک ادھر کھڑا کیا پھر اسے چھڑانے کے لئے مجھے کال کرنا پڑا،  تو اس وجہ سے بھی وہ اکثر فکر مند رہتا ہے۔

نصیب یار نے بونیر میں سپیشل ایجوکیشن کے لئے بہت کوششیں کیں ہیں اور مختلف نجی و فلاحی اداروں کے دورے بھی کیے ۔ اس کا اعتراف خود دعوت اسلامی پاکستان کے ضلعی نگران برائے ضلع بونیر حمزہ منیر نے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دعوت اسلامی کا ذیلی ادارہ فیضان گلوبل ریلیف فاونڈیشن پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں میں کام کر رہا ہے۔ نصیب یار سے   انکی پہلی ملاقات شعبہ صحافت کے تحت منعقدہ دورہ میں ہوئی جہاں انہیں مختلف شعبہ جات کا دورہ  کرایا گیا جس میں ایک خصوصی بچوں کا شعبہ بھی تھا جس میں نصیب یار نے دلچسپی لی، فاؤنڈیشن کے بڑوں کے ساتھ بات ہوئی انہوں نے بونیر کا وزٹ کیا، بچوں کے والدین سے ملے اور سکول کے حوالے سے پیش رفت ہوئی۔ اب تقریباً تمام انتظامات تکمیل کے مراحل میں ہیں اور پختونخوا ہ میں یہ اس نوعیت کا پہلا سکول ہوگا جس کا سہرا نصیب یار کے سر جاتا ہے۔

فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن کے شعبہ سپیشل ایجوکیشن کے ضلعی نگران کا کہنا ہے کہ اس سکول میں ابتدائی طور پر بچوں کو پڑھائی ، لکھائی کا عمل سکھایا جائے گا جوکہ سرکاری نصاب کے مطابق ہوگا۔ اگلے مرحلے میں ری ہیبیلیٹیشن  سنٹر بھی قائم کیا جائے گا جہاں ذہنی طور پر کمزور افراد کا علاج کیا جائے گا۔

بونیر کے مرکزی بازار سواڑی  سے تعلق رکھنے والے محمد غنی بھی بونیر کے بند ہونیوالے سکول کی متاثرین میں شامل ہے جس سے ان کی بچیاں متاثر ہوکر گھر بیٹھ گئیں۔ ان سے جب میری ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ میری دو بچیاں سماعت و گویائی سے محروم ہیں بڑی 15 سال جبکہ چھوٹی اب 12 سال کی  ہے۔ دونوں بچیوں نے سواڑی میں قائم  سکول میں دو سال تک بہت کچھ سیکھا تھا ۔نماز اور مسنوں دعائیں یاد کیں تھیں اور ان کی  تربیت میں بھی نمایاں فرق آیا تھا، لیکن سکول بند ہونے کے بعد سب کچھ ادھورا رہ گیا اور یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے میری بیٹیوں کو تاریک کنویں میں پھینک دیا ہو۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبہ میں کسی بھی سکول کے ہاسٹل میں بچیوں کے لئے انتظام موجود نہیں ہے ہم اگر اپنے تمام وسائل لگا کر انکو پڑھاناچاہیں بھی تو اپنی بچیوں کو پڑھا نہیں سکتے اور اسی بوجھ تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے حکومت وقت اور دیگر صوبائی و قومی فلاحی اداروں  اور مخیر افرادسے سوال کیا کہ  کیا ہی انکی  ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ  پسماندہ علاقوں کے ان  بچوں  اور بچیوں کے مستقبل کے بارے میں اقدامات اٹھائیں؟ کیا یہ حکومتی اداروں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ہمارے بچوں کے تاریک مستقبل کو روشن کر دیں؟

بونیر میں لوکل سطح پر  کام کرنے والی  زیادہ ترسماجی فلاح وبہبود کی تنظیمیں افراد باہم معذوری کی تعلیم وتربیت  کے حوالے سے غیر فعال   ہیں۔ فلاحی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن ضلع بونیر کے صدر شاہ روم اپنے تنظیم کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے ابھی تک ایسے  بچوں کی تعلیم کے لئے پائیدار  اقدامات نہیں اٹھائے تاہم ان کےلئے وظائف ، ویل چیئرز اور ہیرنگ ڈیوائسز کا انتظام کیا ہے۔ اس کے علاوہ یتیموں کی کفالت کا ایک وسیع پروگرام پہلے سے بھی موجود ہے اور اب ان کے لئے خصوصی طور پر بونیر میں تور ورسک کے مقام پر "آغوش سنٹر” کا قیام جاری ہے جس پر کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جن میں دو سو بچوں کے رہنے کی گنجائش ہوگی۔ ان کے مطابق  مستقبل قریب میں سپیشل ایجوکیشن کمپلکس بھی  ہمارے پلان کا حصہ ہے جس پر ابتدائی طور پر میٹنگز جاری ہیں اور بہت جلد عملی جامہ پہنایا جائے گا۔

بونیر کا واحد اسپیشل ایجوکیشن سکول (جو کہ 2018 میں بند بھی ہوچکا ہے) کے اس وقت کے پرنسپل و سکالر محمد اقبال تھے جو کہ بصارت سے محروم ہیں اور مختلف قومی و بین الاقوامی سپیشل تنظیوں کے رکن ہیں ۔ اپنی  ماہرانہ رائے  دیتےہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ ایسے افراد کو یا تو سپر ہیرو بنا دیتے ہیں یا مکمل  بس و لاچار انسان تصور کرتے ہیں جو حقیقت کے الٹ ہے۔  افراد باہم معذوری کو عام افراد کی ہی طرح ٹریٹ کرنا چاہیے انکو معاشرے کی  بہتر مجموعی سوچ درکار ہوتی ہے جو ان پر ترس نہ کھائے بلکہ ایسا سپورٹ کا نظام بنا دے جس کی وجہ سے یہ خود اپنی زندگی گزارنے کے اہل ہو جائیں۔ ہماری مثبت سوچ اور رویے  اصل میں انکی زندگی میں تبدیلی لانے کا سبب بنیں گے، یہ کہنا تھا محمد اقبال کا جو خود تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے ایک اہل شہری کے طور پر بہتر اور بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔

محمد اقبال نے کہا کہ اگر افراد باہم معذوری کو بہتر سپورٹ سسٹم  دیا جائے تو معاشرے سے بے پناہ بوجھ    ہٹ جا تا ہے۔ انہوں نے کہا ریسرچ نشاندہی کر  تی ہے کہ جب ایسے بچے سکول جاتے ہیں تو 2 سے 5 فیصد بوجھ معاشرے سے کم ہوجاتا ہے اور سکول کے منافع میں بیس سے پچیس فیصد ا ضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں  زیادہ ترلوگ اس سے بے خبر ہیں جب یہ بچے سکول نہیں جاتے تو گھر کے ساتھ ساتھ معاشرے پر بھی بوجھ بن جاتے ہے۔

انہوں نے پاکستان میں خصوصی افراد کے رجسٹریشن کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا میں 15 فی صد لوگ معذوری کا شکار ہیں لیکن میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں یہ شرح اس سے بھی زیادہ ہے اور وہ اس لئے، کہ یہاں معذوری کی تعریف غلط کی گئ ہے کیونکہ یہاں جب ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے، تو پوچھا جاتاہے کہ آپ معذور ہے؟ یا آپ کو کیا معذوری ہے؟ تو اکثر عورتوں کے گھر والے شادی بیاہ کے ڈر سے  انکی رجسٹریشن  نہیں کرواتے، رجسٹریشن کا طریقہ کار مشکل ہے اور عمر کے ساتھ تبدیلی کو معذوری تصور نہیں کیا جاتا تو اس حساب سے اگر ڈیٹا کو دیکھا جائے تو تقریباً 30 فی صد لوگ رجسٹرڈ جبکہ 70 فی صد لوگ اب بھی رجسٹریشن کے عمل  سے باہر ہیں۔

معذوری کی بین الاقوامی تعریف کے مطابق ایسے افراد جنہیں کسی طویل المیعادجسمانی، ذہنی یا حسیاتی کمزوری کا سامنا ہو جس کی وجہ سے انہیں معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیش آتی ہو انہیں معذور کہا جائے لیکن پاکستان میں معذور ان کو کہا اور سمجھا جاتا ہے جوکہ جسمانی  یا ذہنی لحاظ سے  جسم کے کسی حصے سےطویل المدتی محروم ہو اور وہ ان کے روزمرہ کے کاموں میں رکاوٹ کا سبب بنے۔

انہوں نے ضلعی منتخب  نمایندگان، سوشل ویلفیئر کے اداروں  اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا والدین کے لیے یہ انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے خاص کر ایک ماں او ر باپ کے لئے  کہ وہ اپنے بچے کو  معذوری میں اپنے  آپ سے  دور کریں جبکہ وہ نہ بول سکتا ہو، نہ سن سکتا ہو اور چھوٹا بھی ہو۔ اسی لئے یہ حکومت کی ذمَہ داری ہے کہ بونیر ضلع میں 2016 میں بنائے گئے سکول کو سوشل ویلفیئر بلڈنگ، گاگرہ ،میں دوبارہ شروع کیا جائے اور دیگر بچَوں کے ساتھ ساتھ ان خصوصی بچَوں کے حقوق کا بھی خیال رکھیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومت اسپیشل چلڈرن ، دونوں بچے اور بچیوں کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے قائم کرے تاکہ بحیثت پاکستانی شہری وہ ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار سر انجام دے سکیں۔ ہمارا آئین تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور اس کے ساتھ بچوں کی تعلیم اور وہ بھی پانچ سے سولہ سال کے بچوں کی فری تعلیم کے لیے اقدامات کرنے کے لیے اختیار بھی دیتا ہے۔

قانون کیا کہتا ہے؟

کنونشن ود د رائٹس آف پرسنز ود ڈس ایبیلیٹی کا آرٹیکل 23 میں ہوم اینڈ فیملی کیئر کے متعلق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایسے بچوں کو فیملی سپورٹ کی ضرورت ہے اور ہم اسے ہاسٹل میں ڈال کر نفسیاتی دباؤ کا شکار کردیتے ہے۔ یہی آفس فار د ہیومن رائٹس پرسنز ود ڈس ایبیلیٹی (او ایچ سی ایچ آر) کے رپورٹس میں بھی بتایا گیا ہے کہ ہاسٹل میں بچوں کو پیار تو ملتا ہے لیکن ان کو پیرنٹل سپورٹ نہیں ملتا ان کو پیار تو ملتا ہے جس سے بچے مارجنلائز ہوکر نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آرٹیکل 19 میں اسے آزادانہ طور زندگی گزارنے اور کمیونٹی سروسز کی بات کی گئی ہے کہ ان بچوں یا افراد کو زیادہ سے زیادہ سپورٹ سروسز دی جائے۔ اسی طرح آرٹیکل 5 میں ایکوالیٹی اینڈ نان ڈسکریمنیشن، آرٹیکل 9 اکسس ایبیلٹی، آرٹیکل 11 ایمرجنسی صورتحال بارے، آرٹیکل 12 لیگل کیپسیٹی کے بارے میں مثلاً جائیداد یا دیگر پراپرٹی میں حصے کے بارے میں، آرٹیکل 19 کمیونٹی سروسز، آرٹیکل 20 پرسنل موبیلیٹی، آرٹیکل 24 ایجوکیشن، آرٹیکل 25 ہیلتھ، آرٹیکل 26 ری ییبیلٹییشن، آرٹیکل 27 سوشل پروٹیکشن جبکہ 28 ایمپلائمنٹ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

 

3 مارچ ہر سال   ورلڈ ہیئرنگ ڈے کے طور پر منایا جاتاہے  اسی دن کے مناسبت سے ای این ٹی اور پلاسٹک اینڈوسکوپک سرجن ڈاکٹر قادر خان نے والدین کے نام پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ خواتین جو حاملہ ہو ان کو دوران حمل قطعاً اپنے آپ سے دوائیاں استعمال نہیں کرنی چاہیئے بلکہ ہمیشہ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق دوا استعمال کرنی چاہیئے۔  ان کا کہنا تھا کہ بہت سی ایسی دوائیاں ہیں جو کہ دوران حمل بچے کے قوت سماعت کو کمزور کرسکتا ہے جس کاخمیازہ بعد میں اٹھانا پڑتا ہے۔ انہوں نے  کہا کہ وہ مائیں جو بچوں کو دودھ پلاتی ہیں انہیں بھی کبھی لیٹے ہوئے بچوں کو فیڈ نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ اس سے منہ سے کانوں کی طرف جانیوالی نالیوں میں ریشہ جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور اس سے بچوں کے کانوں میں پیپ اور بعد میں خون آنا شروع ہوجاتا ہے جوکہ انتہائی خطرناک اور سماعت سے محرومی کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ عوامی آگہی کے لئے انہوں نے کہا کہ کانوں کی صفائی کے لئے گھریلو ٹوٹکے استعمال کرنے سے گریز کریں اور چابی یا دیکر نوکیلے اشیاء کے بجائے مستند ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کریں اور جدید آلات سی صفائی کریں تاکہ سماعت متاثر نہ ہو۔ اس کے علاوہ شوگر والے مریض، انڈسٹری میں کام کرنے والے لوگ، مستقل سماعت سے محروم افراد بروقت اپنا معائنہ کرکے علاج کو یقینی بنائے۔

ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر آفیسر بہادر شاہ نے 2016 تا 2018 تک چلنے والے سکول کے حوالے سے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ وہ مستقل بنیادوں پر چلنے والا پراجیکٹ نہیں تھا بلکہ عارضی بنیادوں پر کرایہ کے بلڈنگ میں اے ڈی پی کے تحت چلنے والا پراجیکٹ تھا ۔ جبکہ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے اسے بند کرنا پڑا ۔ ان کا کہنا تھا کہ گاگرہ کے مقام پر یتیم بچوں کے لئے سوشل ویلفیئر ہوم قائم کیا گیا ہے  جس کا افتتاح جلد کیا جائے گا جبکہ صوبائی حکومت کو ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر کمپلیکس کے لئے پروپوزل بھیجا گیا ہے جس میں بینائی، قوت سماعت سے محروم افراد اور جسمانی معذوری کاشکار بچوں کے لئے سکول  اور تربیتی سنٹرز جبکہ  ذہنی  معذوری کا شکار افراد کے لئے ری ہیبیلیٹیشن سنٹر کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سوشل ویلفیئر آفیسر کو یقین ہے کہ حکو مت ان کے پروپوزل کو منظور کرکے بونیر اس دیرینہ مسلے کا حل دیں گے اور ان بچوں کو تعلیم جیسے بنیادی حق سے ضرور آراستہ کریں گے۔

ضلع بونیر کے واحد سپیشل ایجوکیشن سکول کی بندش اور نئے سکول کھولنے کے حوالے سے اقدامات میں تاخیر منتخب ممبران صوبائی اسمبلی و قومی اسمبلی کی ذمہ داری ہے  ۔ تاہم ابھی تک وہ اس بنیادی مسلے کے حل میں ناکام رہے ہیں جو کہ منتخب ممبران کے ساتھ ساتھ یکساں نصاب تعلیم کے نعرے لگانے والی حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ یکساں نظام تعلیم تو دور کی بات  ان بچوں کو "یکساں انسان” بھی تصور نہیں کیا جاتا ۔

Related Articles

Back to top button