409

“شکایت ہے مجھے یارب خداوندان ِ مکتب سے” ۔۔۔۔۔۔۔تحریر: کومل شہزادی

ایک مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے ۔ اگر اخلاق نہیں تو مسلمان نہیں۔یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک مسلمان ایمان کا تو دعویٰ کرے مگر اخلاقیات سے عاری ہو۔ہمارے پیارے نبی کریم کائنات میں اخلاقیات کاسب سے اعلیٰ نمونہ ہیں جس پر اللہ کریم جل شانہ کی کتاب ِ لاریب مہرتصدیق ثبت کر رہی ہے۔
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ( القلم4)۔
’’بے شک تم بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہو۔‘‘
اورایسا کیوں نہ ہو آپ مکارم اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت اور درستگی کے لیے مبعوث فرمائے گئے ۔جیسا کہ خودآپ مالک ِ خلق عظیم فرماتے ہیں ۔
’’میں اعلیٰ اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘(حاکم ، مستدرک)۔
ابن خلدون نے جو بات کہی ہے آج کے حقائق بھی اسے بالکل درست ثابت کرتے ہیں۔ اخلاقیات سے دور قومیں ترقی کی دوڑ میں بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔
گر نہ داری از محمد رنگ و بو
از زبان خود میسا لا نام او

آج بچوں کی اخلاقی تربیت کا انتظام نہایت ہی اہم مسئلہ ہے ہمارے ہاں علمی اور فنی حوالے سے تو تربیت کے لئے ہر شہر گاؤں میں ادارے موجود ہیں یا ان کے قیام کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن تعلیمی اداروں یا گھر کی سطح پہ اخلاقی تربیت کا باقاعدہ کوئی نظام موجود نہیں اور نہ ہی معاشرے میں ایسے اداروں کی روایت موجود ہے جو اخلاقی تربیت فراہم کرتے ہیں۔جدید علوم تو ضروری ہیں ہی، اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی اہمیت اپنی جگہ ضروری ہے ۔ اسکے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت سے دوستی کیلئے اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں سے مستقبل کے معمار کم، سوچ اور جذبے کے بیمار زیادہ بر آمد ہوتے رہے ہیں۔ ایسے میں یہ ادارے (سکول، کالج، یونی ورسٹی) دانش گاہیں کم لگتے ہیں۔ بے دلی، بے عقلی اور بے سمتی کے سانچوں میں ڈ ہالنے والے کارخانے سے زیادہ لگتے ہیں۔

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
ہماری نسل میں اخلاقی اقدار قوت برداشت اساتذہ کا احترام حب الوطنی اجتماعی سوچ سب پس پشت چلی گئی ہیں رٹہ سسٹم نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا بچوں کے ذہن میں ایک ہی بات بیٹھ گئی ہے کہ اچھے مارکس آجائیں اور ملازمت مل جائے دنیا بھر میں بچوں کی ذہانت کا امتحان لیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں یاداشت کا امتحان لیا جاتا ہے ہمارے ملک میں تعلیم ایک کاروبار بن چکا ہے۔نسل نو کو ملازمت کے لیے مجبورا تعلیم حاصل کررہے ہیں ناکہ شعور و شوق کے لیے ۔

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

اس اخلاقی پستی اور زوال کی بہت بڑی وجہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت کے عنصر کی عدم موجودگی ہے۔ ہماری تعلیم یافتہ نوجوان نسل اخلاقی تربیت سے بے بہرہ رہتی ہے اور محض نوکری کا حصول ان کا مطمح نظر ہوتا ہے جس کے لیے وہ تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔صرف اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں نہ صرف اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ دی جائے بلکہ اس سلسلے میں نصاب کو از سرنو مرتب کیا جائے۔افسوس ناک ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم اخلاقی اقدار سے خالی ہوتی جارہی ہے، اس پر حکومت کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، نجی تعلیمی اداروں کو بھی اور خاص کر مسلمانوں کے زیرِ انتظام اداروں کو کہ وہ تعلیمی ترقی کے ساتھ اپنے اداروں میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کی طرف توجہ دیں۔کالم لکھتے ہوئےمیرے ذہن میں گردش کرتے چند سوالات ہیں۔
کیا اخلاقی اقدار میں ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟؟
کیا تدریسی خدمات کے ساتھ اساتذہ اس پہلو پر غعروفکر کرتے ہیں؟؟؟
کیا والدین اس پر عمل پیرا ہیں ؟؟؟
کسی ایک پر اس کی ذمہ داری ڈالناناسب نہیں۔محض سکول کالج یونیورسٹی سے ڈگریاں لے کر کبھی کوئی مہذب، بااخلاق نہیں بنتا۔
یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ تعلیم قوموں کے لیے قوتِ حیات ہے۔ فی زمانہ وہی قومیں سربلند رہی ہیں جنہوں نے تعلیم کو ترجیح دی۔ایک چینی کہاوت ہے۔ ’’خوش حالی کے لیے اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اگاؤ۔ اگر ایک سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو درخت اگاؤ۔ اگر ایک ہزار سال تک قوموں کے آگے وقار سے سر اٹھا کر چلنا ہے تو تعلیم پر سرمایہ لگاؤ۔ ‘‘
کیوں ہم اتنا پڑھ لکھ کر بھی جاہل ہیں. لوگوں نے پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں لی ہوئی ہیں لیکن انھیں کسی ملازم سے کسی مسافر سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے.استاد چپڑاسی کو ڈانٹ رہا ہے پرنسپل استاد کی عزت افزائی میں مصروف ہے. علاوہ ازیں جو کمی تھی وہ کرونا نے پوری کردی ہے۔نا ہی تعلیم کے ناہی اخلاقیات کے قابل رہے۔ویسے تو پاکستان واحد ملک نہیں جو اس فارمولے پر عمل پیرا ہے، بلکہ پوری دنیا اس مسئلے کو جھیل رہی ہے، اور یہ مشکل فیصلہ کرنا یقیناً حکومتوں کی مجبوری ہے کہ یہ بیماری اب تک پوری دنیا میں ہی تباہی پھیلا چکی ہے اور طلبہ کی حفاظت کے لیے تعلیم کو آن لائن کرنا ہی واحد آپشن رہ گیا ہے۔خصوصاً پاکستان کے تباہ حال تعلیمی نظام کا مزید برا حال ہے۔ وبا کے باعث طلبا کا تعلیمی سال تو ضائع ہو ہی رہا ہے مستقبل کا کو ئی فیصلہ بھی نظر نہیں آرہا ۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں شرح تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کے سکول جانے کا رجحان بھی کافی کم ہے مستقبل کا تعین ناگزیر ہے۔ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ تعلیمی نظام اور اداروں کوبند کرنا حل نہیں بلکہ اس کے ساتھ جینے کی تیاری کرنا ہوگی اوروائرس کے ساتھ ہی تعلیمی نظام کا لائحہ عمل سامنے لانا ہو۔کرونا ہمارے تعلیمی اداروں کا ہی دشمن کیوں ہے؟ جبکہ ہمارا باقی ملکی نظام جوں کا توں چل رہا تھا اور چل رہا ہے خالی ہیں تو صرف ہمارے تعلیمی ادارے کیونکہ کرونا صرف تعلیمی اداروں میں ہی ہے۔
آج بھی اگر ہم قرآن وسنت کا دامن تھام لیں، اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں اور اپنے اسلاف کی شان دار اخلاقی روایات پر چلیں تو اس اخلاقی زوال سے بچا جا سکتا ہے۔

قسمتِ لالہ و گل اب بھی سنور سکتی ہے
نیت اچھی ہو جو گلشن کے نگہبانوں کی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں