430

اخلاقی صحافت۔۔۔ مگرضابطہ کیا؟۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

یہ ایک حقیقت ہے کہ1988 ء سے 1999ء تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے اقتدارپر مشتمل 11سالہ جمہوری دورحکومت میں پرنٹ میڈیا کی آزادی کاذکرہویا الیکٹرانک میڈیاکافروغ کوئی بھی قابل ذکراقدامات اٹھتے نظرنہیں آئے تھے بس سرکار ہی کے گن گاتا ایک ہی سرکاری ٹیلی ویژن (پی ٹی وی )تھااور ڈش انٹیناسے محروم ملک کے اکثریتی عوام چاروناچار پی ٹی وی کی نشریات دیکھنے پر مجبور تھے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسراذریعہ نہیں تھاایسے میں اگرچہ وجودرکھتی اس بات سے کوئی انکارنہیں کہ پاکستانی میڈیاکوسب سے زیادہ آزادی سابق فوجی آمر جنرل (ر)پرویزمشرف کے دور اقتدارمیں ملی تھی جو12اکتوبر 1999ء کواس وقت کی جمہوری حکومت پر شب وخون مارکراور منتخب وزیراعظم کوپابندسلاسل کرکے اقتدارپر قابض ہوگئے تھے۔سابق فوجی آمر کی جانب سے میڈیاکو دی جانے والی غیرمعمولی آزادی کے نتیجے میں ایک جانب پرنٹ میڈیاپر غیرضروری پابندیاں ختم ہوگئیں تودوسری طرف الیکٹرانک میڈیامیں انقلاب آگیااورنجی سیکٹرمیں دھڑادھڑ ٹی وی چینلز اور میڈیاہاؤسزبنتے گئے اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت وطن عزیزکے اندرنجی سیکٹرمیں 80سے زائد ٹی وی چینلزآن ایئر ہیں جن میں47 چینلزکرنٹ افیئرزکے ہیں جبکہ ملک کے طول وعرض میں 3000ہزارسے زائد اخبارات شائع ہوتے ہیں جن میں قریباََ ساڑھے چارسواخبارات صرف صوبہ سندھ سے چھپتے ہیں سویہ بات واضح ہوئی کہ میڈیاکوآزادی جمہوری نہیں بلکہ آمرانہ دور اقتدارمیں ملی ہے اس کے باوجودکہایہ جارہاہے کہ پاکستان میں طویل آمرانہ تاریخ کے دوران میڈیاکے معاملات میں ریاستی مداخلت کی وجہ سے میڈیا کامزاج مزاحمتی ہوگیاہے۔گوکہ آمرانہ حکومتوں کی پالیسیوں کی مزاحمت میڈیاانڈسٹری کے ارتقاء کاباعث بناتاہم اس دور کے ریاستی قوانین کی مزاحمت کے نتیجے میں ایک ایساماحول پایاجس میں میڈیاریاست کے تمام اقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ 2002میں یہاں میڈیاانڈسٹری کی بڑی تیزی سے نشونماء ہوئی مگر اخلاقی تربیت کی کمی اور دیگرپیشہ وارانہ مسائل بھی موجود رہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں اپنے پاؤں پر کھڑی دکھائی دیتی میڈیاانڈسٹری کے لئے ریگولیشن کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پچھلے دس سالوں میں جہاں میڈیاچینلزکی تعدادمیں غیرمعمولی اضافہ ہواوہیں صحافت کامعیارگرتانظرآیا اورنیوزچینلزکی طرف سے ٹی وی ٹاک شوزمیں تعصب پر مبنی سیاسی مؤقف کے پروان چڑھتے ماحول اور جرائم سے متاثرہ افرادکوہیجان خیزاورانسانیت خیزاندازمیں پیش کرنے پر سوالات اٹھتے گئے۔ اگرچہ بعض دفعہ نفرت انگیزاور قومی سلامتی کے خلاف تقاریراور بیانات نشرکرنے پر ٹی وی چینلزبعد میں معذرت بھی کرلیتے ہیں تاہم اٹھتاسوال یہ ہے کہ ایسا ہوتاکیوں ہے کیامیڈیاہوؤسز چلانے والون کواتنی بھی سمجھ بوجھ نہیں یاوہ ذاتی مفادات کی خاطر کچھ بھی کرگزرنے کاتیارہوتے ہیں۔اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک،مذہبی اقلتوں بارے نفرت آمیز تقاریر،صنفی اقلیتوں بالخصوص خواجہ سراء کے ساتھ تضحیک پر مبنی رپورٹنگ اور حادثات کے شکارمتاثرہ افراد کو ہیجان خیز اندازمیں پیش کرنایاواقعات کی شدت میں اضافے کے لئے فلم کے کسی سین،گانے اور کارٹونز سامنے لانے جیسے حربے استعمال کرنادرحقیقت وہ بنیادی عوامل ہیں جوآزادی کی آڑمیں میڈیاکی غیرذمہ داری اوربے لگام ہونے کی عکاسی کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ خطرناک رجحان دہشت گردی کے واقعات کی براہ راست کوریج ہے کیونکہ اس بات کااحساس ضرور ہوناچاہئے کہ دہشت گرد واقعات کی لائیو کوریج سیکورٹی فورسزکی کارروائی میں رکاؤٹ کاباعث بنتے ہیں۔اس کے علاوہ لائیوشوزاور مارننگ شوزنشرکرناجن میں ایسے غیرضروری محرکات سامنے لاناجن کی صحافتی لحاظ سے اہمیت کچھ بھی نہیں ہوتی یہ تمام وہ چیزیں ہیں جومیڈیاانڈسٹری کے لئے ضابطہ اخلاق کاتقاضاکرتی ہیں لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں ناقص قوانین جن کے ذریعے میڈیاکوکنٹرول کیاجاتاہے میڈیاکے لئے ضابطہ اخلاق کے اطلاق میں رکاؤٹ بنتے ہیں۔ پاکستان میں میڈیامختلف شکلوں میں سامنے آرہاہے جیسے پرنٹ میڈیا،نشریاتی میڈیااور ڈیجیٹل میڈیامگران سب کے ریگولیٹری ماڈلزایک دوسرے سے مختلف ہیں یہی وجہ ہے کہ میڈیا انڈسٹری کے لئے قانونی حدود کاتعین واضح نہیں جبکہ میڈیاانڈسٹری کی آمدنی کاانحصارمحض اشتہارات پرہونابھی ضابطہ اخلاق میں کمی سے جڑاایک معاملہ ہے کیونکہ اشتہارات پر انحصارکے باعث معاملہ چینلزکی درجہ بندی جسے عام اصطلاح میں ریٹنگ کہتے ہیں پر آجاتاہے جس کے پیش نظر اخلاقی معیارگرجاتاہے۔چونکہ ایک ہی کالم میں تفصیلی جائزہ نہیں لیاجاسکتا لہٰذااس کے چیدہ چیدہ نکات کوسامنے لانے کی کوشش کرتاہوں ۔اخلاقی صحافت کے اہم اصولوں میں یہ کہ صحافی سچائی کاعلمبردارہو،اس کی رپورٹنگ حقائق پر مبنی ہو،صحافی اور نیوزمیڈیا ایمانداراورغیرجانبدارہو،لوگوں کی ذاتی زندگی،سیاست اور مذہب کے حوالے سے رپورٹنگ میں احتیاط سے کام لیں اور کسی کی نجی زندگی کی رازداری کااحترام کریں،میڈیابین الاقوامی طریقہ کارکے مطابق ہو جس میں اخلاقیات اور پیشہ وارانہ صحافتی معیارہو،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیامیں ایڈیٹرزکواپنی ذمہ داریوں کااچھی طرح احساس ہو کہ شائع اورنشرہونے والا مواد اخلاقی اصولوں کے مطابق ہے، ٹی وی چینلزاور اخبارات عوام کے لئے اپنی جمہوری خدمات کو مقدم سمجھیں۔اب اگر میڈیاریگولیٹری اتھارٹی میں بہتری کے لئے سفارشات ہوں کاذکرہو تویہ کہ پیمراکووزارت اطلاعات ونشریات کے کنٹرول سے باہر لایاجائے اوراس امرکویقینی بنایاجائے کہ میڈیاپر ضابطہ اخلاق کااطلاق ریاستی کوشش نہ ہو،پیمرانشریاتی چینل کالائسنس جاری کرتے وقت اس بات کو یقینی بنائے کہ لائسنس لینے والی پارٹی پیشہ وارانہ طورپر اہل ہے،پیمراکواپنے مانیٹرنگ نظام میں بھی بہتری لانی چاہئے۔آخرمیں حکومت کے لئے سفارشات یہ ہیں کہ حکومت کوآئین کے آرٹیکل 19 اور19Aکے تحت تفویض کردہ حقوق فراہم کرنے چاہئیں اوراس امرکویقینی بنائے کہ میڈیاایک آزاد،خودمختاراورشفاف ماحول میں کام کرسکے۔اگر سفارشات کی روشنی میں مذکورہ بالااصولوں کواپنایاجائے تویقینی طورپر یہاں اخلاقیات اور اعلیٰ صحافتی اصولوں پر مبنی ماحول جنم لے گااورپروان چڑھے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں