چترال میں این اے ایچ کی روڈ پراجیکٹس اور خصوصاً چترال شندور روڈ اور ریشن کے مقام پر سڑک کی دریا بردگی کے خطرات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا/ایم این اے
چترال (نمائندہ ) چترال سے قومی اسمبلی کے رکن عبداللطیف نے چیرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے ان کے دفتر میں ملاقات کرکے انہیں چترال میں این اے ایچ کی روڈ پراجیکٹس اور خصوصاً چترال شندور روڈ اور ریشن کے مقام پر سڑک کی دریا بردگی کے خطرات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے شدید عوامی ردعمل اور تشویش سے ان کو آگاہ کیا اور ان پر واضح کیاکہ اگر رواں سیزن میں اس پر ایمرجنسی بنیادوں پر کام کرکے اسے بچانے کی کوشش نہ کی گئی تو نہ صرف اپر اور لویر چترال کے درمیان سڑک کے ذریعے رابطہ منقطع ہوگا بلکہ گلگت بلتستان سے بھی رابطہ منقطع ہونے سے سیاحت کو ناقابل تلافی نقصان لا حق ہوگا۔ منگل کے روز اسلام آباد سے ٹیلی فون کے ذریعے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ چیرمین این ایچ اے نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ اپر چترال کے ریشن میں سڑک کو دریا برد ہونے سے بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں گے اورچترال شندور روڈ پراجیکٹ کی نشاندہی کردہ نقائص کو دور کرکے اس پراجیکٹ پر کام کو مقررہ معیار کے عین مطابق بروقت پایہ تکمیل کو پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ا جائے گا۔ انہوں نے بتایاکہ پی ٹی آئی کے سابق صوبائی حکومت کے دوران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی وزیر زادہ صاحب نے2022ء میں آفت زدہ ریشن گاؤں تین اطراف سے سیلاب کے خطرات سے بچانے کے لئے 16کروڑ روپے کی خطیر رقم منظور کرائی تھی جس میں سے ساڑھے 3کروڑ روپے سے 1100فٹ طویل حفاظتی پشتہ شادیر کے مقام پر سڑک کو دریا سے بچانے کے لئے تعمیر کی گئی تھی جوکہ 32فٹ وسیع البنیاد اور 15فٹ اونچی تھی لیکن لون گاؤں کے سرک جانے کے نتیجے میں دریا کا رخ مکمل طور پر اس طرف مڑجانے کی وجہ سے دریا کی طغیانی کے دوران پانی کا سطح حد سے ذیادہ بلند ہوکر اس حفاظتی پشتے کے اوپر سے زمینات کی کٹائی شروع کردی۔ انہوں نے کہاکہ باقی ساڑھے 12کروڑ سے ریشن گول اور دوسرے مقامات پر حفاظتی پشتوں پر کام جاری ہیں۔ چترال یونیورسٹی کی بندش کی افواہ کے بارے میں چترال سے ایم این اے عبداللطیف کا کہنا تھاکہ صوبائی حکومت کسی بھی یونیورسٹی کے پراجیکٹ فیز میں اس کا مکمل ذمہ دار ہوتا ہے اور اس دوران صوبائی حکومت نے اس یونیورسٹی کو مالی بحران سے دوچار ہونے نہیں دیا مگر جب یونیورسٹی باقاعدہ ایکٹ کے تحت قائم ہونے اور یہاں وائس چانسلر کی تقرری کے بعد یہاں مالی مسئلہ سر اٹھانے لگا جب وفاقی حکومت نے اس سے منہ موڑنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے 2022ء میں 200 میلین روپے ریلیز کی جس سی یونیورسٹی اب تک چل رہی ہے لیکن پی ڈی ایم حکومت نے اپنی زمہ داری پوری نہیں کی اور گرانٹ نہیں دی۔
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے 56کرروڑ روپے کی خطیر رقم سے یونیورسٹی کے لیے زمین خریدی جب کہ تعمیر کے لئے 2 ارب سے زائد فنڈ پی ٹی ائی کے گزشتہ وفاقی گورنمنٹ نے منظور کی لیکن بدقسمتی سے اس سال کی بجٹ میں وفاقی حکومت نے صرف دو سو ملین مختص جوکہ شرمناک ہے۔عبداللطیف نے کہاکہ چترال یونیورسٹی کو موجودہ وقت میں مالی بحران سے نکالنے کے لئے چیف منسٹر سے گرانٹ ان ایڈ کے لئے کیس بھیج دیا گیا ہے۔لیکن وفاقی حکومت ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے خیبر پختون خواہ کے تمام یونیورسٹی کو اپریشنل اخراجات کے. لۓ فنڈز دینے کے لیے تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے خیبر پختون خواہ کی یونیورسٹیز مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں اس کی تمام تر ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی دشمنی میں خیبر پختون خواہ کے لوگوں کے حقوق پہ ڈاکہ ڈال رہی ہے جس طرح مرکزی حکومت نے پی ایس ڈی پی سے پہلے سے منظور شدہ عوامی مفاد کے 90 سکیم بجٹ سے نکال دی ہے جس میں چترال گرم چشمہ روڈ بھی شامل ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سندھ کے لیے تو اسمبلیوں سے استعفی دینے کی دھمکی بھی دے کر بلیک میلنگ کر کے فنڈ منظور کرواتا رہا ہے لیکن چترال اور خیبر پختون خواہ کے لیے کبھی بھی ایک لفظ بولنے کے لیے تیار نہیں اگر بلاول بھٹو چترال کے ساتھ مخلص ہوتا تو جس طرح سندھ کے منصوبے منظور کروانے کے لیے بھوک ہڑتال کرنے کے لیے تیار تھا اس طرح گرم چشمہ روڈ بھی منظور کروانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔