Mr. Jackson
@mrjackson
تازہ ترین

کالاش ویلیز میں جلغوزے اتارنے کا نیا سسٹم نا قابل قبول ہے، سخت احتجاج کیا جائے گا/عمائدین

چترال(ڈیلی چترال نیوز)کالاش ویلیز بمبوریت، رمبور اور بریر کے عوام نے محکمہ جنگلات کی طرف سے آنے والی سیزن میں جلغوزوں کو ٹھیکہ داروں کے ذریعے اتارکر سرکاری قبضہ میں لینے اور عوام کو بے دخل کرنے کی حکومتی فیصلے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ اس ظلم کے خلاف تینوں وادیوں کے باشندے میدان میں اتریں گے اور اسے کسی بھی طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ گزشتہ کئی صدیوں سے جلغوزہ ان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔

ہفتے کے روز چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ثراوت شاہ، نورشالی، مارشل لاء خان، کونسلر رحمت علی اور دوسروں نے کہاکہ محکمہ جنگلات کی طرف سے کالاش ویلیز کے جنگل میں جلغوزوں کو اتارنے کے لئے ٹینڈر نوٹس کی اخبارات میں اشاعت کے بعدوادی میں مایوسی اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ یہ سرکار کی طرف سے ان کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے جبکہ وادیوں کے عوام ان جنگلوں کے ہر لحاظ سے محافظ ہیں اور ان پر استفادہ کا حق بھی انہیں حاصل ہے۔

انہوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیاکہ چترال میں کالاش ویلیز کے علاوہ دوسری ویلیز شیشی کوہ، دمیڑ، دروش، گہریت گول اور چترال گول میں بھی جلغوزے کا جنگل پایا جاتا ہے لیکن وہاں پہلے کی طرح مقامی لوگوں کو براہ راست استفادہ دے دیا گیا ہے اور یہ نیا قانون صرف کالاش ویلیز پر لاگوکیا جارہا ہے جس میں عوام کو اس آمدنی سے 60فیصد حق دئیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
کالاش ویلیز کے عمائیدین نے کہاکہ انہیں حکومت کے کسی وعدے پر اعتبار نہیں ہے کیونکہ 2011ء میں بریرکے جنگل کی مارکنگ کی گئی تھی لیکن اس کی 60فیصد رائلٹی 2025ء میں بھی عوام کو ادا نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ انہوں نے ٹینڈرنگ کے عمل کو رکوانے کے لئے ڈی سی لوئر چترال سے اپیل کی ہے کہ وہ کالاش ویلیز کے عوام کی آواز کو حکام بالاتک پہنچادیں اور وزیر اعلیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ظلم اور ناانصافی کا سخت نوٹس لے کر انہیں آمدن کے سب سے بڑے ذریعہ سے محروم نہ ہونے دیں بصورت دیگر تینوں وادیوں میں 80فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب سے کے وی ڈی پی نامی ادارہ کالاش ویلی میں آیاہے عوام کو فائدہ پہنچنے کے بجائے ہمیشہ نقصان پہنچا ہے۔اور چلغوزے کی ٹنڈرنگ میں بھی کالاش ویلیز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہاتھ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button