حقیقتِ قبورِ آدم و حوّا علیہم السلام۔ تحریر: مبشر الملک

ابتدائیہ:
آج کل سوشل میڈیا پر مذہبی جذبات کو اُبھارنے کے لیے ایک مخصوص رجحان دیکھنے میں آرہا ہے، جہاں تاریخی صداقت کے بغیر حضرت آدمؑ اور حضرت حوّاؑ کی جعلی قبریں دکھا کر عوام کے دلوں سے کھیلا جاتا ہے۔ سری لنکا کا “آدمز پیک”، سعودی عرب کا شہر جدہ، لبنان یا نجف عراق وغیرہ ایسے مقامات کے ناموں کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہاں ان مقدس ہستیوں کی قبریں موجود ہیں۔ ان دعووں کا مقصد محض سوشل میڈیا پر ویورشپ بڑھانا، سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنااور بعض اوقات مالی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مگر ان باتوں کا دینِ اسلام یا مستند دینی مصادر سے کوئی ثابت شدہ تعلق نہیں۔
درجِ ذیل مضمون میں ہم حضرت آدمؑ و حوّاؑ کے بارے میں قرآن، احادیث، اسلامی مؤرخین، اسراہلیات (یہودی و عیسائی روایات)، اور جدید جعلی دعوؤں کا تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہیں۔
1. قرآن مجید کی روشنی میں:
قرآن مجید حضرت آدمؑ و حوّاؑ کا تذکرہ تخلیقِ انسان، جنت سے اخراج، دنیا میں آمداور انسانیت کے اولین دور کے حوالے سے کرتا ہے، لیکن کسی مقام پر اُن کی قبور کے مقامات کا ذکر نہیں کرتا۔
2. احادیث و آثار:
احادیثِ نبویہؐ میں بھی حضرت آدم و حوّاؑ کی قبروں کے مقام کی واضح تعیین موجود نہیں ہے۔ البتہ بعض آثار و اقوال میں اشارے ملتے ہیں جن پر محدثین نے بھی قیاسی اور ضعیف روایات کا حکم لگایا ہے۔
3. اسلامی مؤرخین کی آراء:
امام طبری (تاریخ طبری): بعض اقوال کے مطابق حضرت آدمؑ کی قبر مکہ کے قریب جبلِ ابو قبیس میں ہے۔
ابنِ کثیر (البدایہ والنہایہ): انہوں نے مختلف آراء نقل کیں لیکن قطعی رائے دینے سے گریز کیا۔
شیعہ روایات: حضرت آدمؑ و نوحؑ کی قبریں نجف عراق میں بتائی جاتی ہیں۔
جدہ: حوّا کی قبر کے حوالے سے سب سے مشہور مقام جدہ ہے، جہاں پرانی قبریں موجود تھیں لیکن آج یہ مقام بند کر دیا گیا ہے۔
4. اسرائیلیات (تورات، تلمود، انجیل وغیرہ) کی روایات:
تورات (سفر پیدائش 5:5): آدمؑ کی وفات کا ذکر ہے لیکن دفن کی جگہ نہیں بتائی گئی۔
Midrash و Jubilees: بعض یہودی تفاسیر کے مطابق حضرت آدمؑ کو فلسطین (ہیبرون) میں دفن کیا گیا، جہاں بعد میں حضرت ابراہیم و اسحاق دفن ہوئے۔
عیسائی و غیر رسمی روایات: بعض افسانوی کتب جیسے Conflict of Adam and Eve with Satan میں لبنان یا کوہِ موریا کو ان کی آخری آرام گاہ کہا گیا۔
5. جعلی دعوے اور سوشل میڈیا کا فتنہ:
سری لنکا – آدمز پیک: ایک پہاڑ ہے جس پر بعض مذاہب (بدھ مت، ہندو، مسلمان) اپنے اپنے عقیدے کی نسبت سے تقدس قائم کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں بھی کچھ روایات میں یہاں حضرت آدمؑ کا پہلا قدم رکھنے کا ذکر ہے، مگر یہ محض قیاسی ہے۔
جدہ – قبر حوّا: عوامی شہرت ضرور رکھتی ہے مگر شرعی طور پر ثابت نہیں، نہ ہی نبی کریمؐ یا صحابہؓ سے ایسی کوئی روایت ملتی ہے کہ وہ اس جگہ کی زیارت کرتے یا تعظیم کرتے ہوں۔
نجف – قبر آدمؑ: شیعہ کتب میں مذکور ہے، لیکن اہل سنت کے ہاں یہ روایت تسلیم شدہ نہیں۔
لبنان – کوہ موریا: عیسائی و یہودی روایات کی بنیاد پر بعض مقامات کو نسبت دی گئی ہے، مگر اس کا اسلامی عقائد سے کوئی تعلق نہیں۔
حاصل کلام۔
حضرت آدمؑ اور حوّاؑ کی قبور کے مقامات کے بارے میں جو بھی اقوال پائے جاتے ہیں، وہ زیادہ تر ظنی، قیاسی یا اسرائیلیات پر مبنی ہیں، نہ کہ قطعی شرعی دلائل پر۔ اس لیے ان مقامات پر عقیدت یا زیارت کا شرعی جواز نہیں۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی قبروں کی تصاویر اور ویڈیوز کا مقصد عوام کے جذبات کا استحصال اور کمائی کا ذریعہ بنانا ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں صرف اُن روایات پر یقین رکھنا چاہیے جو قرآن و سنت سے ثابت ہوں، اور گمان پر مبنی باتوں کو عقیدے یا دین کا حصہ نہ بنائیں۔