213

’’پروفیسر گل حمیرہ چترالیوں کی ماں‘‘……محمد جاوید حیات 

کوئی شام جو ہو گئی ہو گی ۔صبح ایک ’’بلبل‘‘کو نشیمن چھوڑنا تھا ۔شام ڈھلی کالی رات وسوسوں بھری تھی ۔۔پر خطر راستے،پہاڑوں پر سفر،انداز کوہکنی ،پسماندگی،بے چراغ سی نگری،تپش درد ،دوری ،جدائی ،نا توان جان ،اجنبی راستے ،پھول جیسی رنگت ،حیات کی رنگینیاں،شہر کی چکاچوند،ہو کا عالم ،شب کی خوفناکیاں ،سکون کی بربادی اور کتنے کانٹے جو دل بے سکون کو چھپتے تھے۔۔مگر جب عزم پختہ ہوتا ہے تو چٹان ہو تا ہے ۔۔نشیمن کا کیا نشیمن بنایا جاتا ہے ۔۔صحرا و دریا دونیم ہو سکتے ہیں ۔۔پہاڑ سمٹ کر رائی بن سکتے ہیں ۔۔یقین کی دولت کوہ بے ستون ہے ۔اس کو کاٹنے کے لئے بھی یقین ہی کے تیشے کی ضرورت پڑتی ہے ۔۔پہاڑوں پر سفر شاہین کا ہوتا ہے ۔۔عقل پہاڑ میں پیدا ہوتی ہے شہر میں پرورش پاتی ہے ۔۔بے چراغ نگری کو روشن کیا جا سکتا ہے ۔۔راستوں کے پتھر ہٹائے جا سکتے ہیں ۔۔جب نظر خدا پہ جائے تو عزم غضب کا پختہ ہوتا ہے ۔۔پھول رنگت کا کیا ہے عظمت کی خوشبو سے رنگت خود نکھرتی ہے ۔۔دل کی دھڑکنوں سے آواز آتی ہے ۔۔’’میں جاؤنگی۔۔میں پڑھاؤنگی۔۔میں علم کا چراغ روشن کرونگی ۔۔میں محبت بانٹونگی ۔۔اور محبت کی طاقت سے سب کو فتح کرونگی۔۔‘‘نازک ہاتھ دل پہ رکھے جاتے ہیں ۔۔اور خیالوں میں پرواز کیا جاتا ہے ۔۔چترال لواری سے پرے ہے ۔۔۔لواری جو چترال کو چھ مہینے دوسری دنیا سے کاٹ کے رکھ دیتی ہے ۔۔چترال زندوں کا قید خانہ ۔۔ایک درہ ایک دروازہ ۔۔خوشیوں ،آمد و رفت،سہولیات اور ممکنات کا دروازہ ۔۔جب بند ہوتا ہے تو بند ہی رہتا ہے ۔۔زندوں کا قید خانہ ۔۔بڑے بڑوں کو اس سے ڈر لگتا ہے ۔۔بڑے بڑے سورما زندگی کی گھٹن کا شکار ہو جاتے ہیں ۔۔تھک جاتے ہیں راہ فرار ڈھونٹتے ہیں ۔۔لیکن گلشن انسانیت کا ایک پھول پتھروں سے ٹکرانے پہ تلا ہوا ہے ۔۔ہیرے کا جگر پھول کی پتی ہی سے کاٹا جاتا ہے ۔۔۔
نوجواں لکچرر گل حمیرہ کے سارے گھر والے ،رشتہ دار دوست احباب حیران تھے ۔شاید سب کو اندازہ نہ ہو اول لغزمان دانشمند ایسے ہوتے ہیں ۔کشتیاں جلاتے ہیں ۔۔بہ بانگ دھل کہتے ہیں ۔۔’’ناممکن‘‘لفظ میری زندگی کی ڈکشنری میں نہیں ۔۔
ایک مبارک اور روشن صبح میڈم گل حمیرہ ملتان سے روانہ ہوئی ۔۔عزم ہمسفر تھا ۔ہمت زاد راہ تھی ۔۔کہکشان سے ہوتی ہوئی آئی۔چترال میں نہ اخبار نہ ٹی وی ،نہ فون کی سہولیات نہ کھانے کو ڈھنگ کی چیزیں ۔۔ادارہ نیا ۔۔صرف دو کمرے ۔۔گاؤں کے افسردہ پژمردہ چند معصوم چہرے ۔۔ان کا ماضی کوئی نہیں ،حال اجنبی مستقبل دھند ھ زدہ۔۔یہ ان چہروں کو سہانا خواب دیکھاتی رہی ۔۔علم کا چراغ روشن کرتی رہی ۔۔اپنا آرام و سکون ،زندگی کی رنگینیاں ،جوانی کی مستیاں گلشن انسانیت کے ان پھولوں پہ تج دیتی رہی ۔۔ان پودوں کو اپنے خون سے سینچتی رہی ۔۔گھٹ گھٹ کر جیتی رہی ۔۔مگر کسی کوا حساس ہونے نہ دیا کہ وہ پہاڑوں کے قیدی ہیں ۔۔انھوں نے سب کو باور کرایا کہ چترال کی ہر بچی تریچمیر کی شہزآدی ہے۔۔دن گذرتے رہے عمر ڈ ھلتی رہی ۔۔ہر صبح کی طرح دوسری صبح آتی رہی ۔۔علم کی روشنی پھیلتی رہی ۔۔پودے تناور درخت بنتے رہے ۔۔سب قوم کی قابل فخر بیٹیاں کہلانے لگیں ۔عظیم چترال کی عظیم بیٹیاں ۔۔ان کو عظیم بنانے والی خود کتنی عظیم تھی ۔۔۔اس عظیم انسان نے ۲۳ سال تک چترال کی خدمت کی ۔۔۲۳سال ایک عمر ہو تی ہے ۔۔دنوں کا الٹ پھیر عمر نہیں کہلاتا ۔عمر کے لمحے لمحے گنے جاتے ہیں ۔۔اگر عمر صرف کاٹی جائے تو پیچھے مڑ کے دیکھنے سے دھند ہی دھند نظر آتی ہے ۔۔اگر روشنی پھیلائی جائے تو روشنی ہی نظر آتی ہے ۔۔عمر کے یہ دن روشنی کے تعاقب میں بھاگتے ہیں تھکتے نہیں ۔۔ان ۲۳ سالوں کے دوران پسماندہ چترال شہر بن گیا ۔۔بجلی کے قمقمے ،ٹی وی ، موبائل ،انٹر نیٹ ،تھری جی ، فور جی ،لواری ٹن ،اور کیا کیا ؟؟؟؟ مگر ملتان کی شہزآدی کا ماضی پورے چترال کا ماضی ہے ۔۔اور چترال کے درخشندہ مستقبل میں میڈم گل حمیرہ کا خون جگرشامل ہے ۔۔یہ یقیناًچترالیوں کی محسن ہیں ۔۔محمد بن قاسم کی مورتی بنائی گئی۔۔باوفا چترالیوں کے دل میں کوئی اپنا گھر بنائے تو وہ ڈھایا نہیں جاتا ۔۔میڈم گل حمیرہ ہر چترالی کے دل میں موجود ہے اور چترال کے ہر گھر میں اس کی ایک بیٹی موجود ہے ۔۔اس نے ثابت کر دیاہے کہ روشنی کے مسافر کیسے جیئے جاتے ہیں ۔۔
میڈم گل حمیرہ روشنی پھیلا کر چترال کی سر زمین چھوڑگئی ۔۔آنسووں کی سوغات اپنے پیچھے چھوڑ گئی ۔۔دھڑکتے دل اپنے پیچھے چھوڑ گئی ۔۔یادوں کی کتاب چھوڑ گئی ۔۔جس میں اس کا نام نا می سنہری حروف سے لکھا جائے گا ۔۔میڈم گل حمیرہ ایک ما ں تھی۔اس پاک سر زمین کی عظیم ماں اس لئے مجھ ناچیز کو اس کے بارے میں دوچار لفظ لکھنے پر فخر ہے ۔۔۔ 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں