251

شندور ٹاپ چترال کے راستے شانگلہ اور درگئی کیساتھ گلگت کو منسلک کرنے کے لئے ایک متبادل ریلوے ٹریک کی تجویز ۔یہ تمام راستے قراقرم ہائی وے کے ذریعے سی پیک کے لئے متبادل راستے فراہم کریں گے

پشاور(نامہ نگار)وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی اقتصادی راہداری منصوبے میں خیبر پختونخوا کے مناسب اورجائز ہے کے حصول میں دلچسپی اور سرگرمی کسی سے پوشیدہ امر نہیں وزیر اعلیٰ سی پیک کے حوالے سے تجاویز اور مطالبات کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس مطالبے کا اعادہ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ سی پیک پر آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور وزیر اعظم خود اس کی صدارت کریں ۔ خیبر پختونخوا کی جانب سے سی پیک میں شمولیت کیلئے نہایت سود مند تجاویز پیش کی گئی ہیں جن میں گلگت سے براستہ شندور،چترال،چکدرہ روٹ،دوسری تجویزقرا قرم ہائی وے علاقہ بشام سے براستہ شانگلہ،خوازہ خیلہ سے چکدرہ تک روٹ تاکہ یہ زیر تعمیر سوات موٹر وے سے ملحق ہو کر پورے ملک اور سی پیک سے بھی منسلک ہو سکے۔تیسری تجویز انہوں نے یہ پیش کی کہ اس کو ضلع شانگلہ سے ضلع بونیرکے راستے صوابی تک ایم ون سے منسلک کیا جائے۔انہوں نے شندور ٹاپ چترال کے راستے شانگلہ اور درگئی کیساتھ گلگت کو منسلک کرنے کے لئے ایک متبادل ریلوے ٹریک کی تجویز بھی پیش کی۔یہ تمام راستے قراقرم ہائی وے کے ذریعے سی پیک کے لئے متبادل راستے فراہم کریں گے اور اس طرح سے افغانستان اور باقی یورو ایشیائی ممالک کو آسان ترین رابطے کے ساتھ ساتھ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں متبادل راستے کو یقینی بنائیں گے۔خیبر پختونخوا کے وفد نے خصوصی صنعتی زونز اور پن بجلی کے منصوبوں کے قیام کے لئے کئی مقامات کے سلسلے میںتجاویز بھی پیش کیں۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے سی پیک کے متبادل کے طور پر جن روٹس پر توجہ دلائی ہے اگر ان کو اقتصادی راہداری کے متبادل روٹس کی بجائے فطری روٹس قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے کے عین مصداق اب وہ قدیم را ہیں اور گزرگاہیں ایک مرتبہ پھر توجہ کا مرکز بننے لگی ہیں جس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ ان روٹس کے قدیم دور میں انسانوں کے مشاہدے تجربے اور قدم قدم پر ان راستوں کو موسمی حالات تحفظ قربت مکانی اور با سہولت ہونے کو اس دور کے باشندوں نے بار بار جانچا ہو۔ فطری طور پر پا پیادہ راستوں اور جانوروں سے بار برداری کاکام لینے کے دور کے تجربات کا کوئی نعم البدل نہیں اس وقت بھی اگر خیبر پختونخوا میں دیکھا جائے تو صوابی چکدرہ موٹروے اس نہایت قدیم راستے پر تعمیر ہو رہی ہے جس پر کسی دور میں مغل حملہ آور آئے۔ اگر دیکھا جائے تو پہاڑی علاقوں میں فطری اور قدرتی گزر گاہیں ہی ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا استعمال متروک ضرور ہوتا گیا مگر پھر وقت ہی ان کی ضرورت اور اہمیت ثابت بھی کرتا گیا ۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے سی پیک کیلئے جن روٹس کی نشاندہی کی ہے وہ فطری روٹس ہیں۔ خاص طور پر گلگت سے براستہ شندور چترال چکدرہ روٹ نہ صرف نہایت محفوظ روٹ ہے بلکہ یہ روٹ پورے ملاکنڈ ڈویژن سمیت مردان ڈویژن اور پشاور ڈویژن کے لئے یکساں طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ خاص طور پر لواری ٹنل کی تعمیر کی تکمیل کے بعد مستزاد چترال تیمر گرہ روڈ اور سوات موٹروے کی تعمیر سے یہ روٹ صرف محولہ ڈویژنو ں ہی کے لئے نہیں بلکہ ہزارہ ڈویژن جنوبی اضلاع سمیت موٹر وے کے ذریعے ملک بھر سے منسلک اہمیت کا حامل روٹ ہوگا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے زیر صدارت اجلاس بلا کر قومی قیادت اور ماہرین کی موجودگی میں ان تجاویز پر غور کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ۔ سی پیک کے پہلے بلکہ آزمائشی قافلے کا مغربی روٹ سے گزر کر بحفاظت گوادر پہنچ جانا خوش آئند امر تھا۔ سی پیک کے تحت ہونے والی تجارت کے پہلے قافلے کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مکمل سیکورٹی فراہم کی گئی تھی لیکن مستقبل میں تجارتی ادارے اور ٹرانسپورٹرز اپنی سہولت کو دیکھتے ہوئے اپنی راہ خود متعین کریں گے ۔ کراچی پشاور موٹر وے کی تکمیل اور کراچی ،لاہور ریلوے ٹریک کی مرمت کے بعد کراچی کو سی پیک کی تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو جائے گی ۔ سی پیک اور اس کے ذیلی روٹس پر تجارتی سرگرمیوں کے لئے سہولیات فراہم کرنے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان روابط اور مشاورت کی ضرورت پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔ پلاننگ کمیشن کو سی پیک کی وجہ سے ملک کے شہری علاقوں اور دیہاتوں میںپیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک قومی جغرافیائی منصوبہ بندی کا آغاز کرنا ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ سی پیک سے متعلقہ تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے لئے اداروں کے درمیان روابط کو بہتر بنانے کے لئے بھی جامع منصوبہ بندی کی سخت ضرورت ہے۔اس اہم نوعیت کے منصوبے پر گفت وشنید مشاورت اور اس کے ثمرات میں جائز حصے کے مطالبات کی مخالفت نہیں کی جا سکتی البتہ ان مطالبات کو ایک خاص حد سے آگے لیجا کر تنازعہ کھڑا کرنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی ۔ایسا تب ہوگا جب اعتماد کی فضا میں قومی قیادت اس پر گفت وشنید میں بخل سے کام نہ لے اور بہتری کی ہر طرح کی تجاویز کو قبول کرنے اور ان پر عملد ر آمد کی دیانتدارانہ سعی کی جائے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں