پیپلز پارٹی سب ڈیویژن مستوج کے انتخابات کو مسترد کرتے ہیں۔شمس الرحمٰن لال
بونی (ممتاز علی منتظر) پیپلز پارٹی تحصیل مستوج کے سنیئر کارکنان نے حالیہ پارٹی الیکشن پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سنیئر راہنما ء اور سابق تحصیل ناظم شمس الرحمن لال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے دنوں پیپلز پارٹی سب ڈیویژن مستوج کے کابینہ سازی کے لیے انتخابات کے نام پر جو ڈھونگ رچایا گیا ہے اس کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس الیکشن کی کیا قانونی حیثیت ہوگی جس میں الیکشن کمشنر، پریزائڈنگ آفیسر ووٹر اور امیدوار سب ایک ہی پینل کے ہوں اور مقابلے میں کوئی اور موجود ہی نہ ہو اور وہ پینل خود کو جیت قرار دے کر خود ساختہ کابینہ تشکیل دے دیں۔ اس حوالے سے انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں پارٹی کنونشن کا کہہ کر ایم پی اے سردار حسین کے گھر پر بلایا گیا تھا،وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ امیر اللہ اور ان کے ساتھی کنونشن کے بہانے انتخابات کی تیاری میں آئے ہوئے ہیں اور اپنے ساتھ تحریک انصاف اور دوسری پارٹیوں کے کارکنان کو بھی لے کر آئے ہیں تاکہ ان سے ووٹ ڈلوا کر خود کو منتخب کرایا جا سکے۔ پورے کنونشن میں یوسی لاسپور سے ایک اور یارخون سے چار افراد شریک تھے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اپر چترال میں پی پی کے صرف دو سو کارکنان ہیں؟؟ سابق تحصیل ناظم نے مزید کہا کہ اس ڈرامہ بازی کی بابت ہم نے سوال پوچھا کہ پورے پاکستان میں چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو نے انتخابات کے بجائے انٹرویو کے ذریعے تنظیم سازی کی تو یہاں کیوں ہائی کمان کی پالیسی کو بائی پاس کیا جا رہا ہے اور اگر انتخابات کرانے ہیں تو نوٹیفیکیشن جاری کیوں نہیں ہوا نیز یوسی لاسپور، یارخون مستوج کے کارکنان کو اطلاع کیوں نہیں دی گئی تاہم ہمارے سوالات کا جواب دے کر مطمئن کرنے کے بجائے انہوں نے زور و شور سے خود کو منتخب کرانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے پارٹی کے سینئر اور نظریاتی کارکنان بشمول میرے مستنصر لال، سیف الدین ایڈووکیٹ، نواب ایڈووکیٹ، برہان شاہ ایڈوکیٹ، ابوللیث، لطیف صوبیدار، حمید الدین اور دوسرے کارکنان نے کنونشن سے واک آؤٹ کیا جس کے بعد امیر اللہ اور انکے ساتھیوں نے اپنے ہی پینل کو ووٹ ڈال کر خود ساختہ عہدیدار بن گئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ پارٹی ہائی کمان کو اپنے تحفظات پہنچانے کے بعد پارٹی کے نظریاتی کارکنان کے ساتھ مل کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے کیونکہ اس طرح کے ڈراموں سے اپر چترال میں پارٹی کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔