306

حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ۔۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

روز اول سے آج تک کروڑوں انسان اپنے وقت پر اِس کرہ ارض پر آئے، کھایا پیا افزائش نسل کا حصہ بنے اور مٹی کا ڈھیر بن کے مٹی کا حصہ ہو گئے۔ زیادہ تر کا نام نہ تو تاریخ کے اوراق میں ہے اور نہ ہی لوگوں کے اذھان میں لیکن کچھ انسان اِس دھرتی پر ایسے بھی آئے کہ اُن کا نام قیامت تک کے لئے تاریخ کے سینے پر نقش ہوگیا اور وہ تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر مثل آفتاب چمک رہے ہیں اُن جیسا نہ کوئی آیا اور نہ ہی کوئی آئے گا۔چودہ صدیاں پہلے ایسا ہی ایک عظیم انسان خطہ عرب میں اِس شان کے ساتھ طلوع ہوا کہ قیامت تک اُن کا کوئی ثانی نہیں ہے ‘یہ سورج قریش کے سردار حضرت عبدالمطلب کے گھر طلوع ہوا ، قریشی سردار کا دسواں اور سب سے چھوٹا بیٹا حضرت عبداﷲؓ نورمحمدی ﷺ جو حضرت آدم ؑ کے ماتھے میں رکھا گیا وہ مختلف پیغمبروں اور نیک ترین انسانوں سے ہوتا ہوا آخر حضرت عبداﷲؓ کے ماتھے پر چمکا، آپ نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان ‘سرتاج الانبیا ‘سرور کائنات ‘محبوب خدا کے باپ ہیں جو وجہ تخلیق کائنات ہیں، دنیا کا کوئی باپ آپ سے زیادہ خوش قسمت اور بلند اقبال نہیں ہو سکتا، اول و آخر انبیاء مرسلین اور ان کی اُمتیں جس کے فیض اور ہدایت سے فیض یاب ہیں جو آسمان نبوت و رسالت کے روشن آفتاب ہیں جس کے ظہور کے بعد ہدایت کی روشنی اتنی تیز ہو گئی کہ کائنات کے بعید اور عمیق ترین گوشے بھی چمک اُٹھے اور پھر کسی ہدایت اور روشنی کی ضرورت نہ رہی۔جس نے اپنی نگاہ کرم سے جان بلب تڑپتی انسانیت کو حیات جاوداں عطا کی، اُس عظیم مسیحا کائنات ہستی کے باپ کا نام حضرت عبداﷲؓ ہے آپ حضرت عبدالمطلب کے سب سے لاڈلے اور خوبصورت بیٹے تھے ‘آپ کے والد بزرگوار نے یہ منت مانی تھی کہ جب اُس کے دس بیٹے جوان ہوجائیں گے تو وہ اُن میں سے ایک بیٹے کو راہ خدا میں قربان کر دیں گے اور پھر جب حضرت عبداﷲؓ کی عمر تقریباً بیس سال ہو گئی تو باپ کو اپنی نذر کا خیال آیا تو باپ نے اپنے بیٹوں کو پاس بلایا اور اپنی نذر کا بتایا سب سعادت مند بیٹوں نے احترام سے اپنی گردنیں جھکا دیں اور کہا بابا جان ہم حاضر ہیں آپ جس کی نذر دینا چاہیں دیدیں، طے یہ پایا جس کے نام کی فال نکلے گی اُس کو خدا کی راہ میں قربان کیا جائے گا فال میں نام حضرت عبداﷲؓ کا نکلاجو باپ کے لاڈلے اور سب سے خوبصورت حسین و جمیل تھے لیکن معاملہ عبدالمطلب اور اُس کے خدا کا تھا ‘بوڑھے باپ نے چھری منگوائی اپنی آستینیں چڑھائی اور بیٹے کو ذبح کرنے کی تیاری کی تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے مکہ میں پھیل گئی۔اہل مکہ دوڑتے ہوئے آئے اور حضرت عبدالمطلب سے فریادیں کرنے لگے کہ چاند اور پھول جیسے چہرے کو قربان نہ کرو لیکن بوڑھا باپ اپنی نذر پوری کرنے پر تلا ہوا تھا، لیکن جب باقی بیٹوں اور اہل مکہ نے بہت زیادہ التجا ئیں کیں تو بوڑھا باپ نرم ہواآخرحضرت عبداﷲؓ اور دس اونٹوں کا قرعہ ڈالا گیا جب بھی قرعہ ڈالاجاتا نام حضرت عبداﷲؓ کاہی آتاتو دس اونٹ اور بڑھادیے جاتے یہاں تک کے اونٹ بڑھتے بڑھتے سو اونٹ تک پہنچ گئے، اب قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداﷲؓ کی بجائے سو اونٹوں کا نکلا باپ اب بھی ضد پر تھا کہا نہیں تین بار قرعہ اندازی کرو اگر تینوں بارقرعہ اونٹوں کا نکلا تو مانوں گا ورنہ نہیں۔نسل انسانی اور کائنات کی عظیم خوش قسمتی کے تینوں بار قرعہ اونٹوں کے نام نکلا تو باپ نے مانا، دعوت عام دی گئی سو اونٹ ذبح کئے گئے اور اعلان عام کر دیا گیا کہ جو کوئی جتنا چاہے گوشت اٹھالے جائے یہاں تک کہ درندوں اور پرندوں کو بھی نہیں روکا گیا، باپ سو اونٹوں کے بعد بہت خوش تھا کہ اُس کالاڈلا بیٹا بچ گیا اب سر زمین عرب کے سب سے خوبصورت نوجوان حضرت عبداﷲؓ کی شادی کا سوچنا شروع کیا ‘حضرت عبداﷲؓ نور محمدی ﷺ کی وجہ سے کمال حسن و جمال رکھتے تھے اور قصہ ذبح سے اور بھی مشہور ہو گئے تھے، قریش کی عورتیں آپ کے بے مثال حسن و جمال کی وجہ سے آپ پر قربان ہونے کو تیار رہتی تھیں۔حضرت عبداﷲؓ کی نگاہیں شرم سے ہر وقت جھکی رہتیں آپ کے رخ روشن پر شرم و حیا اور شرافت کے انوار برستے رہتے اِن کی وجہ سے آپ کے چہرہ اقدس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے، آپ کو دیکھ کر حضرت یوسف ؑ کی بے مثال خوبصورتی اور حُسن یاد آجاتا مکہ کی نوجوان دوشیزائیں جب آپ کو ایک نظر دیکھ لیتیں تو صبر کا دامن چھوڑ دیتیں جن سے صبر نہ ہوتا وہ آپ کے حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے بے بس ہو کر اپنا حسن و شباب آپ کے قدموں میں ہر وقت نچھاور کرنے کو تیار رہتیں، اپنی بے بسی کا برملا اظہار کر دیتیں مزید براں سو اونٹ کا نذرانہ پیش کرنے کی جسارت بھی کی گئی تھی تا کہ اُن سو اونٹوں کا معاوضہ ہو سکے جو اُن کی جان بچانے کے لیے قربان کیے گئے تھے، لیکن حضرت عبداﷲؓ کے ماتھے پر نور محمدی ﷺ کی خیرہ کن کرنوں کی وجہ سے آپ اُن کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھتے بلکہ ہر بار ایسی دعوت کو بے نیازی سے ٹھکرا دیتے۔آپ کے حسن کے جلوے اتنے زیادہ تھے کہ جس گلی سے بھی گزرتے سینکڑوں دل سینوں میں مچلنے لگتے غزالی آنکھیں قدموں میں بچھ جانے کے لیے بے چین ہو جاتیں عرب کی حسینائیں کھل کر اور چھپ چھپ کر آپ کا نظارہ کرتیں اور ماہی بے آب کی طرح تڑپتیں، علمائے سیرت لکھتے ہیں حضرت عبداﷲؓ کو اپنے زمانے میں عورتوں کی طرف سے مشکل اور صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑا جو حضرت یوسف ؑ کواپنے زمانہ میں عزیز مصر کی بیوی کی طرف سے پیش آئے، حضرت عبداﷲؓ قریش میں ایک تابندہ نور تھے اور سب سے زیادہ خوبصورت تھے قریش کی عورتیں ان کی محبت میں اسیر تھیں اور قریب تھا کہ وہ ان کی محبت میں ہوش و حواس کھو بیٹھتیں لیکن قربان جائیں حضرت عبداﷲؓ پر کہ آپ کی نظر ہر وقت جھکی رہتیں اور ہر بار ایسی دعوت کو ٹھکرا کر کہتے میں ایسی بات کو کیسے قبول کر سکتا ہوں جو تم چاہتی ہو۔ کریم ہمیشہ اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہے اور اپنے دین کی۔حضرت عبدالمطلب اپنے خوبرو بیٹے کے لیے ایسی نایاب عورت کی تلاش میں تھے جو شرف نسب و عفت میں ممتاز ہو پھر باپ کی نظر میں ایسی ہی ایک لڑکی آگئی، آپ بنوزہرہ کے سردار وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ کے ہاں گئے وہب کی بیٹی آمنہ زہرہ قریشی نسب و شرف اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھیں قریش کی تمام عورتوں میں کوئی بھی آپ جیسی حسین و جمیل نہ تھی، حضرت عبدالمطلب نے وہب کو حضرت عبداﷲؓ کی شادی کا پیغام دیا وہب نے حضرت آمنہؓ کارشتہ حضرت عبداﷲؓ کو دینا قبول کیا اور پھر جلد ہی شادی کی شاندار تقریب منعقد ہو گئی اور حضرت آمنہؓ اپنے عظیم سسر اور بے مثال شوہر نامدار کے ساتھ شاندار ازدواجی زندگی بسر کرنے لگیں۔حضرت عبد المطلب کا پیشہ تجارت تھا شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبداﷲؓ کو تجارت کے سلسلے میں ملک شام جانا پڑا تجارتی امور نپٹانے کے بعد آپ مکہ واپسی کے لیے سفر پر روانہ ہوئے راستے میں ہی بیمار ہو گئے قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اِس لیے آپ مدینہ میں ہی اپنے ننہال ٹھہر گئے لیکن بیماری میں آفاقہ نہ ہوا ایک ماہ بیمار رہنے کے بعد آپ واصل حق ہو گئے، آپ کی اچانک وفات سے باپ، بھائیوں اور اہل مکہ کو بہت صدمہ ہوا لیکن حضرت آمنہؓ پر جو قیامت ٹوٹی اُس کا اندازہ لگانا مشکل تھا آپ نے اپنے خاوند کے انتقال پر قصیدہ کہا جس کا ایک شعر یہ بھی تھا، تر جمہ: اگرچہ موت اور اسکی مشکلات نے اس کو جھپٹ لیاہے لیکن وہ در حقیقت بہت سخی اور بہت رحم والا تھا۔ مسیحائے دو عالم سردار الانبیا ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔علامہ احمد بن ذینی اپنی کتاب اسیرۃ النبویہ میں لکھتے ہیں، حضر ت ابن عباسؓ سے مروی ہے جب حضرت عبداﷲؓ نے وفات پائی تو فرشتوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی اے ہمارے خدا اور ہمارے سردار تیرا نبی یتیم ہو گیا اِس کا باپ نہ رہا اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اِس کے حافظ اور مددگار ہیں ، دوسری روایت میں ہے اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا میں ہی اِس کا دوست ہوں ‘نگہباں ہوں ‘مدد گار ہوں ‘پروردگار ہوں ‘اِس کی مددکرنے والا ہوں ‘اِس کو رزق دینے والا ہوں اور ہر بات میں اِس کے لیے کافی ہوں پس تم اِس پر درود پڑھا کرو اور اِس کے نام سے برکت حاصل کرو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں