186

چترال میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر میں اضافہ، مستقل خطرہ بن گئے، بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی

چترال/چترال کے مختلف علاقوں بالخصوص شہری علاقوں میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ زور پکڑ لیا ہے اور جا بجا کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق چترال لوئر کے شہری علاقوں چترال ٹاؤن اور دروش ٹاؤن میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کا عمل تیز ہو چکا ہے اور اس عمل میں بلڈنگ کوڈز اور ایس او پیز کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور اس عمل نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ان کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کے حوالے سے متعلقہ حکام اور ضلعی انتظامیہ چپ سادھ لی ہوئی ہے۔ چترال زلزلے کے حوالے سے خطرناک زون میں موجود ہے، ماہرین کے مطابق چترال میں بلند بالا عمارتوں کی تعمیر سے نہ صرف ان عمارتوں کے انہدام کا خطرہ بڑھ جاتا ہے بلکہ ایسی عمارتیں آس پاس کے مکینوں کیلئے بھی مستقل خطرناک ہیں۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ زلزلوں کی صورتحال کے پیش نظر چترال میں زیادہ سے زیادہ چار منزل تک عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے اس سے زیادہ تعمیر خطرے کو دعوت دینا ہے۔ تعمیراتی شعبے سے طویل عرصے تک منحصر رہنے والے ایک ماہر انجینئر نے چترال پوسٹ کو بتایا کہ اگر زمینی حقائق اور چترال کے فالٹ لائن زون کو دیکھا جائے تو یہاں پر دو منزلوں سے زیادہ عمارتیں تعمیر نہیں ہونی چاہیے۔ خدانخواستہ کسی ہنگامی صورتحال میں ایسی عمارتیں بہت بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔ کمرشل عمارتوں کی تعمیر کے حوالے سے ایس او پیز کی خلاف ورزی ہورہی ہے، اکثر عمارتوں میں پارکنگ ایریا اور واش روم وغیرہ کی سہولیات کے حوالے سے بھی ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے۔
جیالوجی کے شعبے سے منسلک ایک ماہر کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2005کے تباہ کن زلزلے اور اکتوبر 2015کے زلزے نے ہمیں خبردار کیا ہے اور اس خطے میں بڑی شدت کے زلزلے آنے کے قوی امکانات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اکثر زلزلے ہندوکش کے رینج میں آتے ہیں، دس سال کے وقفے میں آنے والے دونوں بڑے زلزلوں کے مراکز ہندوکش میں تھے، اسکے علاوہ بھی اس خطے میں مختلف اوقات میں زلزلے آتے رہتے ہیں جنکی شدت 3سے 5تک ہوتی ہے تاہم گہرائی نسبتاً زیادہ ہونے کی وجہ سے نقصانات کم ہوئے ہیں،2015کے زلزلے میں چترال کے اندر املاک کو کافی نقصان پہنچا، کئی عمارتیں مکمل منہدم ہوئیں اور سینکڑوں کو جزوی نقصان پہنچا، اسکے ساتھ ساتھ کنکریٹ کی عمارتوں میں بھی دراڑیں پڑ گئیں جو کہ خطرے کو بھی مزید واضح کرنے کا اشارہ ہیں۔
تعمیراتی شعبے میں کام کرنیوالے ماہر انجینئر کا کہنا ہے کہ چترال میں کسی بھی قسم کے تعمیراتی کام کے لئے زمینی ساخت کے مختلف قسم کے ٹیسٹ کرانا ازحد ضروری ہے، اور انہی ٹیسٹ کے نتائج کو دیکھتے ہوئے عمارتوں کی ڈیزائننگ کی جانی چاہے اور اسی حساب سے کوالٹی کے مطابق میٹریل استعمال کرنا ضروری ہے، بصورت دیگر ایسی عمارتیں لٹکتی تلوار کی مانند ہیں۔ عوامی حلقوں نے متعلقہ اداروں بالخصوص ڈپٹی کمشنر چترال سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر چترال اور دروش و دیگر علاقوں میں زیر تعمیر ان عمارتوں کو بند کیا جائے اور اس امر کی انکوائری کی جائے کہ کن افراد یا اداروں کی غفلت کی وجہ سے ایسے کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں۔ عوامی حلقوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ چترال کے مخصوص حالات کے مطابق بلڈنگ تعمیر کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں نیز بلند بالا عمارتیں تعمیر کرنے والے افراد کو ذمہ دار بنایا جائے کہ کسی بھی قسم کی کوتاہی کی صورت میں انہیں اس کا ازالہ کرنا پڑیگا اور مقدمات کا بھی سامنا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں