* آیین کی دستک *……تحریر۔۔۔۔ مبشرالملک

بہت دیر کی مہربان آتے آتے ۔۔۔۔ ہمیں بہت خوشی ہے کہ دھاءیوں کے بعد ۔۔۔۔ سپریم کورٹ ۔۔۔ گیٹ کے باہہر کمزور لاغر سڑ کر دوہاءی دینے والی ۔۔۔ آءین ۔۔۔ کا خیال ہمارے چیف قاضی ۔۔۔ کو آہی گیا جو مبارک باد کے قابل ہیں ۔۔۔۔ اگر ۔۔۔۔ پاءوں ۔۔۔ کندھوں ۔۔۔ سے اوپر اٹھا کر زمین پر مارنے کا عوام کو حق ہوتا ۔۔۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ کے نعرہ مستانہ پر ۔۔۔۔ عوام ۔۔۔ کے۔۔۔ اشتراک ۔۔۔ پر ۔۔۔ بھی بروقت ۔۔۔ نوٹس ۔۔۔ لیا جاتا ۔۔۔ تو آج ہم ۔۔۔۔ فقیرو حقیر۔۔۔ بھی ۔۔۔ چیف جسٹس۔۔۔۔ صاحب کی ۔۔۔ سلامی ۔۔۔ میں ۔۔۔۔ ایکیس۔۔ نہ صہیع ۔۔۔ اننیس۔۔۔ گیارہ ۔۔۔۔ نو ۔۔۔ سات ۔۔۔ پانچ۔۔۔ اگر مہنگاءی کٶ مدنظر رکھیں تو کم از کم ۔۔۔ تین۔۔۔۔ توپوں ۔۔۔ کی سلامی ضرور دیتے ۔
پچتر سالوں بعد کوءی ۔۔۔۔ دل گردے ۔۔۔ والا جسٹس ملا ہے جو ۔۔۔ سمندر میں رہ کر ۔۔۔۔ اگر مگر مچوں۔۔۔۔ سے بغیر ۔۔۔ دانت ۔۔ ۔ پھنگے ۔۔۔ لے رہا ہے۔ حالانکہ یہ آیینی دستک تو پاکستان بنتے ہی بجتا آیا ہے۔
پاکستان کے وجود میں آتے وقت ۔۔۔ حضرت قاید اعظم ۔۔۔ نے ۔۔۔ ضم ہونے والی ریاستوں کے ساتھ جو معاہدے اور وعدے کیے تھے وہ شروع ہی میں ۔۔۔۔ بے آءیینی۔۔۔ دور کے نظر ہوکے۔۔۔ بلیک ہول۔۔۔ میں گم ہوگءے ۔اور آیین کا دروازہ کوءی نہ کھٹکا سکا ۔۔ بلوچستان۔۔۔ ریکٹر اسکیل پر یہ ۔۔۔بے قرار کے جھٹکے ۔۔۔اب بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ اس کے ۔۔۔ آفٹر شاک ۔۔۔۔ قابیلی علاقوں ۔۔۔ بھی آتے رہتے ہیں۔۔۔۔ مزے کی بعد یہ ہے ۔قلات ۔سوات ۔دیر اور چترال جیسے ۔۔۔ پر امن۔۔۔ اضلاع میں بھی ۔مدنی ۔جنگلاتی ۔ارضیاتی وسایل جن میں پہلے سے ہی بہت کمی ہے ۔کو ۔۔۔ پٹواری اپرشین۔۔۔ کے تحت مسقبل کے لیے ۔۔۔۔ لاوا۔۔۔ بنایا جارہا ہے۔ اور جسٹیس صاحبان ۔۔۔ عوامی شور ۔خطٶط کی بھرمار مہم۔ کی۔۔۔ دستک نہیں سن رہے۔
پاکستان بننے کے نو سال بعد
23مارچ 1956ء کو صدر سکندر میرزا کی صدارت میں پہلا ۔۔۔ صدارتی آیین ۔۔۔ بنا مگر ڈھاءی سال بعد ۔۔۔۔ ایوبی مارشل لا کی نظر ہوگیا۔ اور سپریم کورٹ کو ۔۔۔۔ آیین کی دھاءی سناءی نہ دی۔
یکم مارچ 1962ء کو فٶجی آمر ایوب خان نے دوسرا فوجی آذیین دیا ۔اور سپریم کورٹ نے آنکھیں ہی نہیں کان بھی بند کیے رکھے۔ پھر یہی آمر۔۔۔۔ فلیڈ مرشل بننے اور 1969ء اس حقیر کی یدایش تک سیاہ سفید کے مالک رہے ۔ پاکستان کا دور زرین شروع ہوا۔مگر آءے تھے غیر آیینی طریقے سے ۔سپریم کورٹ کو ۔۔۔ دستک سناءی نہ دی ۔۔جنگ 65ء کے پس پردہ کمی کوتاہوں پر پردہ پڑا رہا مگر۔۔۔ سپریم کورٹ۔۔۔ نے زحمت محسوس نہ کی نوٹس لے۔۔۔۔۔ عوام نے اس ہیرو کو۔۔۔ زیرو بنا دیا اور۔۔۔۔ مادر ملت ۔۔۔ بلکہ حضرت قاید کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا ۔۔۔ اس وقت اگر۔۔۔ آیین کی دستک محسوس کی جاتی ۔۔۔ تو ۔۔۔۔ بھٹو یحی خانی ۔۔۔ کراامات ۔۔۔ ظاہر نہ ہوتے ۔۔۔ اگر ۔۔۔ سپریم کورٹ۔۔۔ نوٹس لیتا تو اکثیریاتی پارٹی مسلم لیک کے۔۔۔ شیخ مجیب۔۔۔ وزیر اعظم بنتے۔اور پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔
اگر سپریم کورٹ زندہ ہوتا ۔۔۔ تو ذلفیقار علی بٹھو ۔۔۔ سول مارشل لا ایڈمنیسٹیٹر نہ بننتے۔ اگر بروقت نوٹس اور سو مٶٹو لی جاتی تو حمودالرحمان کمیشن کی ریپورٹ انڈیا میں لیک نہ ہوتے۔ اگر سپریم کورٹ حاگ رہی ہوتی تو۔۔۔ سقوط مشرقی پاکستان ۔۔۔ کے کرداروں کو عبرت ناک سزاءیں ملتیں۔
عیار اور زیرک ۔۔۔۔ ذولفقار علی بٹھو نے دس اپریل 1973ء کو ایک جامع اور متفقہ آءین باہمی مشاورت سے دیا۔ جو ایک کارنامہ ہے۔ اس آءین میں ۔۔۔ آستحصالی نظام اور باہمی رواداری کا یقین دلایا گیا۔۔۔ مگر سپریم کورٹ سوتا رہا۔بلوجستان میں بکتی ۔مری ۔مینگل ہزراہ قبایل کے ساتھ جو کچھ ہوا اور اسمبلی میں اپوزیشن کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ ایک۔۔۔ درد ناک ۔۔ المیہ ہے۔
اسلامی نظام ۔۔۔ کے نفاذ کوآءین میں مقدم رکھا گیا مگر ۔۔۔ وہ ۔۔۔ ناساء کی دور بین۔۔۔ میں بھی اس ملک میں ۔۔۔ نافذ۔۔۔ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ سود کے خاتمے کا یقین دلایا گیا۔۔۔ خدا سے جنگ میں ہماری حکومتیں اور ادارے تو نمبر ون ہی ہیں کم ازکم ملکی معشیت اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے تو ختم کرادیتے۔
اسلامی اقدار۔ فحاشی وعریانی۔ طبقاتی نظام ۔ظلم و زیادتی ۔جاییداد کی تحفظ۔ روزگار ۔اسلامی ممالک سے تعلقات۔اقلیتوں کے حقوق۔ خواتین کے لیے برابری کے مواقع۔رشوت حرام خوری ۔میرٹ۔ صالع لوگوں کا کسی بھی شعبے میں شمولیت آیین کے تقاضے ہیں اور مدتوں سے ۔۔۔ سپریم کے باہر ۔۔۔ آءین فریاد کنان ہے مگر ۔۔۔ کسی بھی جسٹیس کو توفیق نہ ملا کہ آیین کے آنسو پونچنے کی جستجو کرتے۔ اداروں کو نکیل ڈھلنا بھی آیین کا فرمان تھا اور اب تک یہ نکیل پکڑنے کا جرت کوءی نہ کرسکا۔ورنہ یہ اڈیو وڈیو سازی کے لیباٹرز بند ہوجاتے۔ ساینس و ٹیکنالوجی اور جدید دور کے تقاضے بھی آءین کے مقدس حصے ہیں مگر ہمارے ہاں کسی بھی شعبہ ہاے زندگی کے بہتریں ۔۔۔دماغ۔۔۔ ملک سے لاکھوں کی تعداد میں باہر کے ممالک جاپہنچے جو توڑے بہت ملکی اور اسلامی جذبے سے سر شار خدمات کے لیے تشریف لایے تو نشان عبرت بنا کر نکال دیے گءے اور ملک کو افغان کھلدار سے بھی نیچے پہنچا دیا گیا ۔۔ آج بنگالی ٹکہ اور اور افغانی ہمارے بے وقت ڈار ذدہ روپیہ قہقہہ لگا تے نہیں تھکتے اور روپیہ آءین کی طرح دوھاءی دے رہا اور ۔۔۔ سو موٹو ۔۔۔ والے بال سلیم اللہ کے پاس اور کلیم اللہ کے پاس والا کھیل جاری رکھے ہوے ہیں۔ پی آءی اے اور ریلوے خلیجی ممالک کے لیے مثال ہوا کرتے تھے ہمارے ہی انجینرز ۔گلف ایر ۔خلیج ایر۔سعودیہ ایر ۔قطر ایر کے کھڑے کرنے والوں میں شامل تھے مگر ہماری پالیسیوں کی بدولت پی آی اے اور ریلوے دم توڑ چکی ہے۔بقول تہ لال۔
علمو سمندرا پورپ غوطہ زن
اوہ جہلو دشتہ تیموم دومان۔
اگر ۔۔۔ ہمارے چیف جسٹیس کیطرح بروقت ۔۔۔ آہین کی دستک ۔۔۔ کسی اور جسٹس کو سناءی دیتی۔تو سیاسی بازی گر۔۔۔۔ تحصل اور ضلع کے اندر ہی صادق وامین کے شکنجے میں مارے جاتے۔یا کم ازکم اچھے کرادر کے حامل لوگ ۔۔۔ اسمبلیوں میں ۔۔۔ جلوہ افروز ۔۔۔ ہوتے اور میرٹ پر افراد کو اداروں میں بھرتی کراوتے۔ دوست ۔رشتہ داروں وفاداروں ۔پارٹی کارکناں ۔لفافیوں کو جج۔ وزیر ۔کرکٹ چیف۔ چیرمیں اور دیگر اعلی عہدوں پر نہ بیٹھاتے۔
آہین کی حکومرانی ہوتی تو کوءی تیس چالیس سال کا تجربہ کار سفارت کار۔۔۔ وزیر خارجہ ۔۔۔ بنتا نہ ۔۔۔۔ مزاروں کا فریادی ۔۔۔ بلاول۔۔۔۔۔ کوءی تیس سال کا ماہر انجینر ماہر تعمییرات ۔۔۔ وزیر مواصلات ہوتا نہ کہ اسد محمود۔۔۔۔ سیاست کا کوءی تابندہ نام یا بہتریں ایڈمنسٹر گورنر کے پی ہوتا کہ غلام علی۔۔۔۔ اداروں اور فوج کو گالیاں دینے والا وزیر دفاع ہوتا یا تجربہ کار ریٹایرڈ جرنیل۔ سیاست اور رسوخ والا نیک نام وزیراعلیپنجاب ہوتا کہ نہ بزدار۔ نہ مریم نہ عمران نہ نواز شہباز۔
مختصر یہ کہ میرے محترم چیف جسٹس صاحب یہ آہین کی مسلسل کی دوہاءی ایک دستان خو چکان ہے ۔۔۔ اچھا کیا آپ نے ۔۔۔کہ اس بے قرار فریادی کی فریاد سن لی ۔مگر یقین نہءں ارہا کہ اس کی اشک پونچنے کی طاقت بھی سرپریم کورٹ کے پاس رہنے دیا ہے ان ظالموں نے کہ نہیں۔ ۔ بس نیک تمنآٶں اور دعاوں کے ساتھ
بس انتظار میرے چار سو ابھی تک ہے
آپکا مخلص حقیرو فقیر