Mr. Jackson
@mrjackson
مضامینمنتخب کالم

وادی کریم آبادکے عوام بنیادی انسانی سہولیات سے یکسر محروم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں واقع جنت نظیر وادی کریم آباد ضلع لوئرچترال کاایک یونین کونسل ہے ۔ جس کی آبادی 16000ہے،سطح سمندر سے 9500 فٹ بلندی پر ہونے کی وجہ سے پانچ مہینے انتہائی سخت سرد اور برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ سردیوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے 15 ڈگری گرتاہے اور گرمیوں میں ذیادہ سے ذیادہ درجہ حرارت 25 ڈگری تک چلا جاتاہے ۔جوچترال شہرسے 48کلومیٹر کے فاصلے پرہے۔وادی کے چاروں اطراف کوہ ہندو کش کے اونچے اونچے پہاڑ سر اٹھائے کھڑے ہیں، پہاڑوں سے گرنے والی ابشاریں، صاف شفاف پانی کی ندیاں اور وادی کی ہریالی گرمیوں کے موسم میں ایک دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں جو کہ ٹو ریزم کے لیے انتہائی پر کشش ہیں۔

گذشتہ روزچترال کے تین بزرگ اہم شخصیات سابق جی ایم آغاخان ایجوکیشن سروس چترال لیاقت علی خان،سابق آرپی ایم آغاخان ایجنسی فارہیبٹاٹ چترال شاہ کریز ،سماجی کارکن عنایت اللہ اسیراوردوسروں کے ہمراہ وادی کریم آباد جانے کاموقع ملا ۔انتہائی دشوارگزاراورتنگ راستوں سے ہوتے ہوئے سوسوم پہنچ کریہاں کے باسیوں کی پسماندگی اورحکومت کی عدم دلچسپی لوگوں کی زبانی سن کربہت دکھ ہوااوران کے مسائل قلمبندکرنے کی کوشش کررہاہوں ۔ وادی کریم آبادکے عوام اکیسویں صدی میں بھی بنیادی انسانی سہولیات سے یکسر محروم ہے ۔ حکومت کی طرف سے اس وادی کو مسلسل نظر انداز کرنے پر یہاں کے مکین انتہائی افسوس کااظہارکرتے ہیں۔

وادی کریم آباد کے لوگ خطرناک ،تنگ اور کچی پہاڑی راستوں پر جان ہتھیلی پر رکھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں ، جس کی وجہ سے کئی قیمتی انسانی جانیں اب تک حادثات میں ضائع ہو چکی ہیں ، صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے خصوصا خواتین کی بچوں کی پیدائش کے دوران طبی امداد نہ ملنے اور دشوار گزار راستوں سے چترال کے ہسپتالوں تک پہنچانے سے پہلے ہی سے دم توڑتے ہیں ۔ 1983 میں یہ سڑکیں یہاں کے مکینوں نے اپنی مددآپ کے تحت بنائے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق 1983سے اب تک وادی کریم آباد کے دشوارگزارسڑکیں ہیں جوکہ سال کے چار مہینے بند رہتے ہیں اور اب تک182 افرا د یہاں آتے جاتے ہوئے ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن گئےہیں۔وادی کے دونوں اطراف سڑکوں میں کچھ موڑ ، اترائی یا چڑھائی ایسی ہیں جو ہمیشہ سے جان لیوا ہیں۔

پاکستان کو بنے 75سال گزر گئے مگر وادی کریم آباد اور سو سوم کی سڑکیں اوردوسرے بنیادی سہولیات نہ ہونے برابرہے ۔وادی کریم آباد کے روڈایک طرف سنگلاخ پہاڑ تو دوسری جانب ہزاروں فٹ گہری کھائی اور دریا بہتا ہے، اگر گاڑی خداناخستہ بریک فیل یاڈرائیورسے بے قابوہو جائے تو وہ ہزاروں فٹ نیچے جا گر نے کاخطرہ ہے ۔اس ورڈ پرچلنے والے ڈرائیوروں کاکہناہے کہ ہم نہایت خطرے کی حالت میں ڈرائیونگ کرتے ہیں اور راستے میں خد خدا کر کے چترال پہنچتے ہیں، اس سڑک پر جتنی بھی گاڑیاں گزرتی ہیں ان سب کے ڈرائیوروں کے پاس بیلچہ کدال ضرور ہوتے ہیں ۔ جہاں کھڈا نظر آئے یاپتھرگرے توگاڑی سے اُترکرمٹی ڈالتے ہیں اور پتھر ہٹا کر گاڑی آگے لے جاتے ہیں۔

وادی کریم آباد کے لوگ انتہائی محنتی ، مخلص اور محب وطن ہیں یہاں کے لوگوں کا پیشہ ذیادہ تر زرا عت سے وابسطہ ہے وادی میں الو، مٹر، ٹماٹر، گندم ، جو ، مکئی کے علاوہ میوہ دار درختین جن میں سیب ، خوبانی ،اخروٹ ، چیری دوسرے پھلداردرخت موجودہیں ۔سیزن میں وادی کریم آباد کے باسی کروڑوں روپے کے مٹراورٹماٹرمارکیٹ پہنچاتے ہیں مگرروڈ نہ ہونے کی وجہ سے جس میں خطیرخواہ فائدہ نہیں ہوتاہے کیونکہ بڑے گاڑی وہاں نہیں پہنچ سکتی، چھوٹی گاڑیوں میں چترال شہرپہنچاکروہاں سے پنڈی اورلاہورلے جانے میں خراچہ زیادہ ہوتاہے ۔ملک کے دوسرے حصووں میں مٹرکاسیزن ختم ہوتی ہے ۔وادی کریم آباد چترال کے کاشتکار ملک کے بیشترعلاقوں کومٹرسپلائی کرتے ہیں۔

پورے یونین کونسل میں پرائیوٹ، کمیونٹی اور لڑکیوں کے لئے سکولز اور کالجز ہیں جو علاقے کی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اور AKESکے تعاوں سے تعمیر کر چکے ہیں اس کے علاوہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک ہائی سکول اور مختلف دیہات میں چند پرائمری سکولوں کے علاوہ کوئی خطر خواہ تعلیمی سہولیات موجود نہیں ہیں۔صحت کے حوالے یہاں پر ایکBHUتک موجود نہیں اس لیے ناگہانی بیماری کی صورت میں لوگ 50کلومیٹر کا انتہائی خطر ناک سفر طے کرکے چترال ٹاوں تک آنے پر مجبور ہوتے ہیں۔بعض اوقات لوگ ہسپتال پہنچتے پہنچتے اپنی جانیں بھی گنوا دیتے ہیں۔

گذشتہ کئی سالوں سے قدرتی آفات بارشوں اور سیلاب کا سلسلہ بھی وادی کریم آباد کواپنے لپیٹ میں لےرکھاہے جس سے علاقے کے تما م رابطہ پل اور سڑکیں سیلاب میں بہہ چکے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو مسائل کا سامنا ہے۔ ، سیلاب سے نہ صرف پل اور سڑکیں خراب ہو چکے ہیں بلکہ آبپاشی کے نہریں، پن بجلی کی نہریں، میوہ جات، کھیتوں میں کھڑی فصلیں تباہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی مشیعت بھی متاثرہوچکے ہیں۔ مقامی باشندوں کاکہناہے کہ اس تمام پسماندگی کی بنیادی وجہ خستہ حال اور پُر خطر سڑکیں ہیں ۔ جنہیں بار بار مطالبات کے باوجود بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی ۔ تینوں وادیوں کے سنگم میں واقع شوغور پل سمیت کئی پلز گذشتہ پانچ /چھ سالوں سےزیرتعمیرہیں ابھی تک تیارہونے کانام نہیں ۔یہاں کے مکین حکومت وقت سے پرزوراپیل کرتے ہیں کہ ان کی بنیادی سہولیات فراہم کیاجائے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button