Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

داد بیداد۔۔۔سرحدی گاوں کا سکول۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

اخباری رپورٹروں کا ایک وفد پاک افغا ن سرحد پر واقع گاوں کا دورہ کر رہا ہے گاوں کے لوگ اس بات پر کافی رنجیدہ ہیں کہ حکومت نے ان کے سرکاری سکول کو کسی سیٹھ ساہو کار کے ہاتھ فروخت کرنے کی منظوری دی ہے گاوں والوں کا پہلا غم یہ ہے کہ سرحد پار دشمن کو اس سکول پر پاکستان کا قومی پر چم نظر آتا ہے تو وہ غصے سے لال پیلے ہو کر اپنے دانت چبانے لگتا ہے اس سکول کو ہم حکومت پا کستان کی نشا نی سمجھ کر اپنے ملک اور اپنی حکومت پر فخر کرتے تھے یہ بھی نہ رہا تو ہمارے پاس کیا رہ جائے گا، صحافیوں نے کہا سیٹھ ساہو کار بچوں سے بھاری فیس نہیں لے گا، بچوں اور بچیوں کی فیس والدین پر بوجھ نہیں ہوگی، بچوں اور بچیوں کو پبلک سکو لوں کی طرح معیا ری تعلیم ملے گی، تعلیم کی خاطر والدین اپنے گھر بار، گائے، بیل اور گھوڑے، گدھے بیج کر فیس برداشت کر لینگے مگر یہ بات لو گوں کی سمجھ میں نہیں آئی، جس کی سمجھ میں آگئی اُس نے پسند نہیں کیا، ایک ستم ظریف نے کہا غریبوں کے ساتھ کھلا مذاق ہے ہم نے کہا فکر کی کوئی بات نہیں بعض اوقات غلط لوگوں کے اکسانے پر حکومت غلط فیصلہ کرتی ہے اور پھر اپنا فیصلہ واپس لیتی ہے ابھی حال ہی میں حکومت نے سستے اشیائے صرف بیجنے والے یوٹیلیٹی سٹوروں کو بند کر نے کا فیصلہ کیا لیکن عوام کی طرف سے حقیقت سامنے آنے کے بعد حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا سردست ہمیں ان حلقوں کو تلاش کرنا چاہئیے جو حکومتوں کو اوٹ پٹانگ قسم کے مشورے دیتے ہیں، اور پیچھے کسی کونے کھدرے میں جا کر چھپ جاتے ہیں ایسے فیصلوں کے منفی نتائج حکومتیں اور برسر اقتدار جماعتیں بھگت لیتی ہیں یہ کسی سرحدی گاوں تک محدود بات نہیں پشاور کے مضافات میں پشتخرہ اور بڈھ بیر تک چکر لگا نے سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں پاکستان کا سبز ہلالی قومی پرچم لہراتا ہے وہ سرکاری سکول ہی ہے یہ وہ عمارت ہے جس کے دروازے سے پاکستان اور قومی پرچم سے محبت کرنے والوں کے لئے کھلے ہوئے ہیں اندرون شہر   آجائیں تو ڈھکی سے لیکر گنج تک پاکستان کا پیارا      پرچم سرکاری سکولوں پر ہی نظر آتا ہے شاید کوئی ہے جس کو یہ پرچم اور اس کا نظارہ اچھانہیں لگتا ایک ہی جست میں سرکاری سکول سیٹھ ساہو کار کے حوالے کر کے سارے ”پر چموں میں عظیم پرچم“ سے جان چھڑانا چاہتا ہے، مشورہ شاید مفت ہے اس لئے سرکار کو پسند آیا ہوگا ویسے خدا لگتی کہئیے تو سکولوں کی نجکاری ایک اچھوتی تجویز ہے اس تجویز کا کوئی سرپیر نہیں، حکومت اپنے کاروباری اداروں کی نجکاری اُس وقت     کرتی ہے جب یہ ادارے 30یا 40سالوں سے مسلسل خسارے میں جارہے متبادل پروگرام نہ ہو، سکول، ڈاک خانہ اور ہسپتال کاروباری ادارے نہیں ہیں ان کا شمار    لازمی خدمات میں ہوتاہے اپنے شہری کو شناختی کارڈ دینے کے ساتھ ہی ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ مفت تعلیم کی سہولت فراہم کرے شہری کے بچوں کو گھر کی دہلیز پر سرکاری سکول سے مفت تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوں، یہ بنیادی ضرویات میں سے ایک اہم ضرورت ہے 2024میں ترقی یافتہ دنیا کو چھوڑ کر ہمارے پڑوس میں واقع ہماری طرح پسماندہ، غریب اور ترقی پذیراقوام نے بھی شرح خواندگی میں ہم پر سبقت حاصل کی ہے یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ عوامی جمہوریہ چین میں شرح خواندگی 99فیصد، بھارت میں 77فیصد، ازبکستان میں 100فیصد ہے قابل ذکر بات یہ ہے کہ خانہ جنگی سے متاثر ملک سری لنکا میں بھی شرح خواندگی 88فیصد ہے جبکہ وطن عزیز  پاکستان میں یہ شرح بمشکل 62فیصد کی شرح تک آگئی ہے ہمارے بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے قصبوں اور دیہات کے سرکاری سکول شرح خواندگی میں بنیادی    کردار ادا کرتے ہیں یہ ہمارے سرکاری سکول ہیں جو    معاشرے کے غریب اور نادار طبقے کے بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں اگر یہ سکول کسی سیٹھ ساہو کار نے خرید لئے تو مفت تعلیم کا یہ نظام ختم ہو جائے گا، پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم صرف امیر اور دولت مند طبقہ برداشت کر سکتا ہے غریب طبقہ بر داشت نہیں کر سکتا، اقتصادی سروے اور مردم شماری کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پا کستان میں غر بت کی شرح سال بہ سال بڑھ رہی ہے 1970میں 30%آبادی    غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی 2024ء میں یہ شرح 47فیصد ہو گئی ہے وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مڈل کلاس یا درمیانہ طبقے کا سفید پوش حلقہ غربت کی لکیر کو کر اس کرتا جارہا ہے اور کسی بھی ملک کے لئے یہ مشکل صورت حال ہوتی ہے ان حالات میں اُمید ہے حکومت اپنے فیصلے پر ضرور نظر  ثانی کرے گی، کم از کم سر حدی دیہات کے عوام کو    مایوس نہیں کریگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button