Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

داد بیداد داد بیداد۔۔آئینہ روزگار ۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ہمارے پیارے دوست اور تین زبانوں میں بیک وقت شاعری کرنے والے تخلیق کار عبد الوکیل سوز کٹھانہ کی وفات کے بعد ان کی کتاب شائع ہو گئی انہوں نے اپنے حلقہ احباب میں شامل شخصیات کے سوانحی تذکروں کے مجموعے کا نام آئینہ روزگار اپنی زندگی میں رکھا اور اشاعت کے لئے پریس کے حوالے کیاتھا کتاب منظر عام پر آنے سے پہلے مصنف نےآنکھیں موند لیں ان کاتخلص سوزتھا مگر اجل نے آگ کی جگہ پانی میں ان کو جالیاوہ جوکہتے ہیں آگ اور پا نی ایک دوسرے کی ضد ہیں یہاں پانی آگ پرغالب آگیاتو سوزکی پُرجوش جوانی پر بھی اُسے ترس نہیں آیا عبد الوکیل سوزکٹھانہ کی حادثا تی موت کاسب کو دکھ ہوا مگر ان کی کتاب نے ہمارا دکھ درد اور غم بانٹنے میں مدددی ہے ان کے معصوم بچوں کی طرح آئینہ رزگار بھی زندہ یاد گار ہے
کتاب میں 40منتخب شخصیات کے سوانحی خاکے اور تذکرے شائع ہوئے ہیں ان میں کاروباری افراد بھی ہیں، علما ء بھی ہیں سیاسی اور سماجی رہنما بھی ہیں اہل قالم اور شعراء بھی ہیں نوجوان ادیب اور شاعر خالد فراق عند لیب نے عبدالوکیل سوزکٹھانہ کا تعارفی خاکہ لکھا ہے پرو فیسر ڈاکٹر اسحاق وردگ نے مصنف کی پہلی کاوش کو ادب کاسنگ میل قرار دیتے ہوئے دلچسپ شذرہ تحریر کیا ہے اگرچہ کتاب ہلکی پھلکی تحریروں پر مشتمل ہے تاہم اس میں نوجوان مصنف کے قلم کی بے شمار خوبیاں نظر آتی ہیں سب سے اہم خوبی زبان کی سلاست اور روانی ہے اس کے ساتھ اظہار وابلاغ کو ابہام سے پاک رکھاگیا ہے عمو ماًنوجوان اہل قلم جب فصا حت کے دریا میں غوطہ لگاتے ہیں تو بلاغت کا دامن اُن کے ہا تھ سے چھوٹ جاتا ہے اور بے معنی جملوں کی دیواریں کھڑی ہوجاتی ہیں عبدالوکیل سوزاگر ابتدا میں مختصر تمہید باندھتا ہے تو اُس کو بوجھل ہونے نہیں دیتا مثلاً سیداجان کٹھانہ کا سوانحی خاکہ یوں شروع کرتا ہے ”انسان کی اصل پہچان اس کی شخصیت، کردار اور اس کے چھوڑے ہوئے نقوش سے ہو تی ہے کچھ ہستیاں اپنے اخلا ق، عزم، دیانت اور سادگی سے لوگوں کے دلوں میں ایسی جگہ بنا جاتی ہیں کہ ان کا وجود مٹی تلے سو جاتا ہے مگر ان کی یادیں نسل درنسل زندہ رہتی ہیں ان ہی روشن کر داروں میں ا یک نام سیدا جان کٹھانہ کا ہے“ بعض شخصیات کا تذکرہ کسی روا یتی تمہید کے بغیر بے تکلف اسلوب میں کرتے ہیں جیسے انہوں نے مولانا محمود الحسن کٹھانہ کا ذکر براہ راست ان کی تاریخ پیدائش اور سال سے کیاہے ”یکم جنوری 1989ء بروز جمعہ گوجر قوم کی ایک مغزز اور دینی روایت رکھنے والی شخصیت یاری ملک کے گھر بیلہ پائین شیشی کوہ چترال میں مولانا محمودالحسن کٹھا نہ نے آنکھ کھولی“ ادبی اور علمی شخصیت پر لکھتے ہوئے نفسیات، فلسفہ اور تنقیدی نظریات کی چاشنی ملاتے ہیں صفی اللہ آصفی کا تذکرہ لکھتے ہوئے ان کا سراپا یوں بیاں کرتے ہیں ”آصفی صاحب ایک ظریف طبع،خوش اخلاق، خوش گفتار،اور مجلسی شخصیت کے حامل ہیں، ان کے اندر ایک متوازن انسان، محقق، استاد اور شاعر موجود ہے ان کی نثر اور شاعری میں جہاں علمیت اور ادبیت کی آمیزش ہوتی ہے وہیں زبان کی چاشنی اور سادگی بھی جھلکتی ہے“ کسی شاعر اور ادیب کے ادب پاروں کا جائزہ لیتے ہوئے انداز بیان، اسلوب اور مخصوص طرز کا حوالہ جامع اور پر کشش الفاظ میں دیتے ہیں جیسا کہ نوجوان شاعر خالد فراق عندلیب کی سوانخ عمر ی میں لکھتے ہیں ”ان کا انداز بیاں، الفاظ کا انتخاب، تراکیب کا استعمال اور محاوروں کی برجستگی انہیں اپنے ہم عصر شعراء سے ممتاز بناتی ہے ان کی شاعری میں رومانوی اور کلاسیکی رجحانات کی جھلک دکھائی دیتی ہے جبکہ عصری شعور سماجی آگاہی اور حب الوطنی جیسے موضوعات بھی ان کی تحلیقات میں نمایاں ہیں“ مصنف جب اپنے کسی استاد کا ذکر کرتے ہیں تو قاری کو انگلی سے پکڑکر اس کی کلاس میں لے جاتے ہیں جیسے پروفیسر ضیاءالحق کی سوانح عمری میں لکھا ہے ”سر ضیا ء الحق کا انداز تدریس بے حد دلنشین،محققانہ اور مشفقانہ ہے ان کی کلاس میں شرکت کسی روحانی اور علمی محفل سے کم نہیں ہوتی ان کے لیکچرز کی کشش اتنی گہری ہوتی ہے کہ سائنسی مضامین کے طلبہ بھی اپنی کلاس چھوڑ کر ان کے لیکچرز سننے آجایا کرتے ہیں“ 142صفحات کی کتاب معیاری کاغذ پر خو بصورت جلد بندی کیساتھ ایکسپرٹ گرافکس پشاور سے چھپی ہے کتاب کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے پوری داستان چاہئیے یہاں کالم کا دامن تنگ ہوتا جارہا ہے مصنف نے جن شخصیات کا انتخاب کیاہے ان میں الحاج رضا خان، الحاج عید الحسین، ملک محمد رضا خان کٹھا نہ، حکیم خان کٹھا نہ، نا ظم شیر محمد کسانہ، الحاج انذر گل (انئحر گل) مولانا محمود الحسن، خطیب خلیق الزمان کا کا خیل، پرو فیسر ڈاکٹر اسحاق وردگ، ڈاکٹر فصیح الدین اشرف، الحا ج عمر خلیل جنگو خیل، قاری عبد الرحمن جمالی، خالد فراق عندلیب، حافظ نواز مدنی، انجینئیر ساجد، مفتی حنیف اللہ، مسرت بیگ مسرت، نوید کوہکن، شاہد الرحمن کشمیری، اکبر علی عاطف، ڈاکٹر محمد سہیل، محمد صفی اللہ آصفی، پرو فیسر محمد ضیا الحق، پرو فیسر شفیق احمد، امتیاز الدین، وسیع الدین آکاش، پرو فیسر امیر عبد اللہ وزیر، شہزادہ احتشام الملک، علی احمد خان بزمی، اکرم کٹھانہ، سیدا جان کٹھانہ، وجیہہ الدین، رحیم اللہ سا لارزی، قاری عبد الرحمن طاہری، وحید اللہ، ڈاکٹر عطا ء اللہ جان، افتخار خان ساحل، صوبیدار محمد گل، حاجی سلطان محمد اور عبد الحق شامل ہیں عبد الوکیل سوز کٹھا نہ اردو کے لیکچرر تھے 32سال کی عمر میں وفات پائی مگر مختصر زندگی کے انمٹ نقوش چھوڑ گئے آئینہ روزگار فیض کتاب نیو بازار چترال میں دستیاب ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button