استاد جی حضرت شیخ سلیم اللہ خان نوراللہ مرقدہ کی شخصیت پر اب تک بہت ساروں نے لکھا ہے اور مزید بھی اہل علم و فن لکھ رہے ہیں۔جی چاہتا ہے کہ استاد جی پر بہت مفصل لکھوں لیکن ایک جیسی باتیں بار بار دھرانا بھی مناسب نہیں۔ حضرت استادجیؒ کا فیض پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ فیض ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی جاری و ساری ہے۔ جامعہ فاروقیہ سے گلگت بلتستان کے سینکڑوں طالبان علوم دینیہ نے فراغت حاصل کی۔میں نے خود مسلسل سات برس جامعہ فاروقیہ میں تعلیم حاصل کی۔ حضرت استادجی سے مشکوٰۃ شریف اور بخاری شریف پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور سینکڑوں مواعظ بھی سننے کا موقع ملا۔ ایک دفعہ مشکوٰۃ شریف میں اور ایک دفعہ بخاری شریف میں حضرت استادجیؒ کے سامنے حدیث کی عبارت پڑھنے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے۔حضرت نوراللہ مرقدہ سے بیعت بھی ہوا لیکن افسوس صد افسوس کہ بیعت کے جو لوازمات تھے وہ قطعا پورے نہیں کیے۔ غالباً میرا خامسہ کا سال تھا،حضرت استاد جی نے مسجد میں کافی سارے طلبہ کو خصوصی بیعت فرمایا تھا۔ اور ان لوگوں کو مسجد سے باہرچلے جانے کا کہا جو پہلے ہی کسی شیخ سے بیعت تھے۔ یوں کافی کم تعداد میں طلبہ رہے جن کو حضرت استاد جیؒ نے بیعت کیا اور خصوصی وظائف و اعمال بتائے لیکن میری بدقسمتی دیکھیں کہ میں اس سلسلے کو اس انداز میں جاری نہ رکھ سکا جس طرح اس کے تقاضے تھے۔دو دفعہ استادجیؒ کا پاندان کلاس میں لایا، ایک دفعہ ہوائی چپل بھی پہنائے اور ایک دفعہ استادجیؒ کے ساتھ ایک مقامی ہسپتال میں تین گھنٹے بھی گزارے،وہیل چیئر پر استادجی ؒ کو مسلسل تین گھنٹے چلایا۔حضرت کو آنکھ کی تکلیف تھی تب۔ مولوی نوید انور بھی ساتھ تھے۔
2008ء میں مجھے اپنی کتاب ’’مشاہیر علمائے گلگت بلتستان‘‘ کی تکمیل وتحقیق کے لیے خپلو بلتستان جانے کا اتفاق ہوا۔ خپلو کے علاقہ براہ میں برلب روڈ ایک خوبصورت مسجد دیکھی جس کا نام ’’جامع مسجد فاروقیہ‘‘ ہے۔ میں نے خیال کیا کہ شاید جامعہ فاروقیہ کے کسی فاضل نے اس نام کے ساتھ مسجد بنوایا ہوگا۔ لیکن جب تجسس کیا تو معلوم ہوا کہ اس مسجد کا سنگ بنیاد حضرت استاد جی شیخ سلیم اللہ خان نے رکھا ہے اور اس کے لیے اپنے ذاتی مال میں سے اولین چندہ بھی دیا ہے۔اور مسجد کا نام جامع مسجد فاروقیہ رکھا گیا ہے۔بلتستان سے تعلق رکھنے والے مفتی عبداللہ مرحوم جو جامعہ فاروقیہ میں استاد و مفتی اور جامعہ فاروقیہ کے تخصص فی الفقہ کے اولین طالب علم بھی رہے تھے ،نے حضرت استادجی ؒ کو خصوصی طور پر وہاں لے گئے تھے اور ان کے ساتھ انجمن اہل سنت بلتستان کے علماء بھی تھے جن میں مولانا حق نواز، مولانا ابراہیم خلیل، مفتی سرور اور بلتستان کے نامور بزرگ شیخ سعدی مرحوم بھی خصوصی طور پر حضرت استادجی کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ بلتستان ڈویژن میں اہل تشیع کمیونٹی کی اکثریت ہے، نوربخشی بھی بڑی تعداد میں ہیں اور مال و دولت کے اعتبار سے اہل حدیث بہت ہی پاور فل ہیں۔ اہل سنت کمیونٹی بہت کم تعداد میں ہونے کے ساتھ مالی اعتبار سے بھی بہت مفلوج ہے۔ اور حضرت استادجی ؒ جیسے عظیم لوگ اپنی کمیونٹی کی فکر میں وہاں تک جاپہنچتے ہیں۔ یہ ان کی عظمت اور فضل وکمال ہی ہے۔بلتستان کے ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ حضرت استادجیؒ کا دورہ بلتستان بہت ہی کامیاب رہا تھا۔لوگ استادجیؒ کے مواعظ سے خوب مستفید ہوتے رہے۔حضرت استادجیؒ خود گلگت تشریف نہیں لاسکے مگر حضرت استادجیؒ کی ایما پر ان کے دونوں صاحبزادے ڈاکٹر عادل خان، مولانا عبیداللہ خالد، مولانا یوسف افشانی اور شہید اسلام حضرت شامزئی صاحب وغیرہ گلگت تشریف لائیں، جامعہ نصرۃ الاسلام میں قیام کیا۔ مولانا نذیراللہ خان فاضل دیوبند، قاضی نثاراحمد، مولانا عطاء اللہ شہاب، مولانا حبیب اللہ دیداریؒ اور دیگر فاضلین فاروقیہ نے ان کی خوب خاطر مدارت کی اورپورے علاقے کا سیر بھی کروایا۔ حضرات نے خصوصی دعائیں دیں، نئی جہتوں میں کام کرنے کی ترغیب دیں اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔ اور سرپرستی کی۔جب میں استادجی کی تعزیت کے لیے فاروقیہ میں ڈاکٹر عادل خان اور عبیداللہ خالدصاحب کے پاس حاضر ہوا ، تعارف کروایا تو جامعہ نصرۃ الاسلام اور دیگر علماء کے حوالے سے تفصیلات بھی دریافت کی اور مولانا نذیراللہ خان کی وفات پر افسوس بھی کیا۔اور مجھ ناچیز کو دعائیں بھی دیں۔اللہ ان کو سلامت رکھے۔
گلگت بلتستان میں ملک بھر کی جامعات و مدارس میں سے سب سے زیادہ فضلاء جامعہ فاروقیہ کے ہیں۔میری فراغت 2010ء کی ہے۔2010ء کو میں نے اخبارات کے لیے ایک نیوزرپورٹ بنائی تھی ۔اس کے لیے مجھے باقاعدہ ڈیٹا جمع کرنا پڑا تھا۔ پورے کراچی کے مدارس و جامعات سے گلگت بلتستان کے 65طلبہ نے درس نظامی کی تکمیل کی تھی ۔ ان میں 26جامعہ فاروقیہ سے تھے۔تو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ حضرت استادجی کا فیض دنیا بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی سب سے زیادہ ہے۔میری اپنی ایک سروے کے مطابق اٹھائیس ہزار مربع میل ایریا پر پھیلا گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ فضلاء جامعہ فاروقیہ کے ہیں اور باقی مدارس وجامعات کے فضلاء و علماء بھی حضرت استادجیؒ کے شاگرد ہیں، حدیث کی خصوصی سند لی ہوئی ہے۔
حضرت استادجی ؒ کی چندخصوصیات ایسی تھیں کہ جو کم از کم آج کے اس دور میں کسی میں بھی نظر نہیں آتیں۔جامعہ فاروقیہ کی پچاس سالہ زندگی میں بلارنگ و علاقہ اور زبان و مکان کے جتنے باصلاحیت لوگ حضرت استادجی ؒ نے جامعہ فاروقیہ میں جمع کیے تھے برصغیر کے مدارس کی تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔حضرت استادجی ؒ کے سامنے صرف اور صرف صلاحیت اور اخلاص کا پیمانہ ہوا کرتا تھا، وہ کسی کو زبان، علاقہ، نسل، غریب، امیر اور کسی اور خاصیت کی بنیاد پر جامعہ فاروقیہ میں بطور مدرس و محقق تقرر نہیں فرماتے۔ فاروقیہ کی تاریخ بتلاتی ہے کہ باصلاحیت فضلاء کو آگے بڑھنے میں جتنی اہمیت فاروقیہ میں دی جاتی ہے کہیں ایسا ممکن نہیں۔باصلاحیت لوگوں کو حضرت استادجیؒ نے دنیا بھر سے فاروقیہ میں لایا اور پھر ان سے کشف الباری جیسے عظیم کام میں مدد بھی لی۔یہ کبھی نہیں دیکھا کہ صاحب کا تعلق کہاں سے ہے ۔اگر فاروقیہ کے اساتذہ و محققین اور مدرسین اور خادمین کی فہرست پر ایک نظر دوڑائی جائے تو حیرت ہوگی کہ بلتستان، گلگت وچترال سے لے کر بلوچستان تک، خیبر سے لے کر کراچی تک، مصر سے لے کر افغانستان تک، انڈیا سے لے کرایران تک، بنگلہ دیش سے لے کر برما تک کے باصلاحیت اور مخلص لوگوں کو جمع کیا گیا اور ان سے خوب کام بھی لیا۔حضرت استادجیؒ کا ایک نرالا معمول یہ بھی تھا کہ اگر کسی نوجوان فاضل میں صلاحیت ہے تو فاروقیہ جیسے بڑے ادارے میں بھی دوسرے سال دورہ حدیث تک سبق دیا جاتا۔ایک اور بات کہ حضرت اپنی نگرانی میں بہت سارے فضلاء کو تبلیغ میں سال لگواتے۔ بہتوں کا خرچہ بھی خود برداشت کرتے۔ 2007ء کی سالانہ چھٹیوں میں مجھے رائے ونڈ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہا ں کی رجسٹر میں دیکھا تو جامعہ فاروقیہ کے 65فضلاء سال میں چل رہے تھے۔ بعد کے سالوں میں یہ تعداد مزیدزیادہ ہوگئی تھی۔روائے ونڈ کے حضرات نے بتایا کہ کئی سالوں سے پاکستان بھر کے مدارس میں سب سے زیادہ جامعہ فاروقیہ کے فضلاء تبلیغ میں سال لگاتے ہیں۔فضلاء سے تبلیغ میں سال لگوانے کی حضرت استادجی کی اپنی ایک خاص مہم ہوا کرتی تھی جو استاد افشانی اور استادعبیداللہ خالد چلایا کرتے تھے ہمارے دور میں۔ استادجی ؒ نے برصغیر میں سب سے زیادہ حدیث کا درس دیا۔سب سے زیادہ بخاری شریف پڑھانے کا شرف بھی حضرت استادجیؒ کو ہی حاصل رہا۔وفاق المدارس العربیہ کے سب سے کامیاب اور زیادہ عرصے والے صدر رہے۔ بروقت درست فیصلہ کرنے کی جتنی صلاحیت حضرت استادجیؒ میں دیکھی شاید دوبارہ دیکھنے کو ملے۔کشف الباری ایک ایسا عظیم تحقیقی پروجیکٹ ہے جس پر کم از کم نامور یونیورسٹیوں سے پچاس پی ایچ ڈی کی اسناد جاری کی جاسکتی ہیں پھر فتویٰ و تفسیر کے دوسرے تحقیقی پروجیکٹ اپنی جگہ۔برصغیر کی تاریخ میں دینی مدارس سے جدید سائنسٹفک بنیادوں اور کوالٹی پر مشتمل اتنی ضخیم ریسرچ ابھی تک نہیں ہوئی ہے جتنی جامعہ فاروقیہ میں کشف الباری کی شکل میں ہوئی ہے۔ ایک زمانہ معترف بھی ہے اور مستفید بھی ہورہا ہے۔ میں نے خود کئی نامی گرامی یونیورسٹیوں کے ذمہ دارمحقق پروفیسروں سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ کشف الباری کی تحقیق ومراجعت میں جدید سائنسٹفک اصولوں کا مکمل خیال رکھا گیا ہے اور بطور ریسرچ اسکالر میں خود بھی کہتا ہوں کہ یہ بے نظیر کام ہوا ہے حضرت استادجیؒ کی محنت و سرپرستی اور رہنمائی میں۔واللہ العظیم برصغیر کے اتنے نامور محدث نے بطور مہتمم جس حالت میں زندگی گزاری ہے میں خود اس کا شاہد ہوں۔ ساری عمرمدرسے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں گزاری، نہ اپنی کوئی گاڑی، نہ بنگلہ نہ ہی کوئی جائیداد، اور تو اور کوئی قیمتی جوتا بھی نہیں پہنا، گورنر یا وزیراعلیٰ یا پھر صدر اور وزیراعظم سے بھی ملاقاتیں کی تو حضرت استادجی ؒ کے پاوں میں پچاس روپے والے ہوائی چپل تھے۔کاش ملک بھر کے مہتمم حضرات، حضرت استادجیؒ نوراللہ مرقدہ کو بطور مہتمم اپنا آئیڈل بناتے ۔ان کا نام لینا آسان مگر انکے کردار کو اپنا نا بہت ہی مشکل ہے۔ میرے ان ٹوٹے پھوٹے کلمات اور بے ربط جملوں سے حضرت استادجیؒ کی شان میں قطعاً اضافہ نہیں ہورہا۔ میں حضرت استادجیؒ کے نام اور نسبت سے خود کو امر کرناچاہتا۔اپنی تحریر کو دوام بخشنا چاہتا۔اس فہرست میں شامل ہونا چاہتا جس میں مداح سلیمؒ شامل ہونگے۔میں نے خصوصیت کے ساتھ حضرت استادجیؒ کی زیارت کے لیے کراچی کا سفر شروع کیا تھا۔ میری بدقسمتی دیکھیں کہ آدھا سفر کے دوران ہی اطلا ع ملی کہ حضرت استادجی اللہ کو پیارے ہوئے ہیں ، انا للہ وانا الیہ راجعون، اور میری خوش قسمتی دیکھیں کہ دور گلگت سے اکیلا آدمی ہوں جو اتنے طویل سفر کے بعد حضرت استادجیؒ کی جنازے میں شریک ہوا۔ الحمد اللہ علی ذالک۔ آہ ! مدنیت و تھانویت کے آخری مجمع البحرین اور سب سے نامور اور بااثر چراغ بھی گُل ہوا۔حضرت استادجیؒ کی زندگی کے ہزاروں پہلو ہیں۔ ہر پرت کے بعد دوسری پرت نمایاں ہوتی ہے اور ہر پہلوو پرت کی نرالی شان ہے۔اس وقت میرے سامنے دوسرا نام نہیں ہے جس پر پاکستان بھر کے علماء، مجاہد، مبلغ ،مدارس وجامعات اور دیگر مکاتب فکر کے اہل علم و فضل اعتماد کرسکیں اور کسی ایک نقطے پر جمع ہوسکیں۔حضرت استادجیؒ کی واحد ذات تھی جس پر سب خاموشی سے لبیک کہتے اور کبھی بھی اختلاف کی جسارت نہیں کرتے۔حضرت استادجی سات نسلوں کے استاد تھے۔میرے شاگرد استادجیؒ کے شاگردوں کی اٹھویں نسل بنتی ہے۔کراچی سے رخصت ہونے سے پہلے استادابن الحسن عباسی اور دوسرے اساتذہ کی معیت میں جامعہ فاروقیہ فیز ٹو میں حضرت استادجی کی آرام گاہ پر حاضری دی، فاتحہ پڑھا، دعائیں کی اور کچھ تصاویر بھی کھنچ لیا۔عباسی صاحب نے مراقبے کے بعد ٹوکا اور فرمانے لگے کہ’’ جب آپ تصویر لے رہے تھے تو مجھے لگا کہ حضرت شیخ مجھ سے فرمارہے ہیں کہ’’ آپ اس کو ٹوکتے کیوں نہیں‘‘امیرجان!کہیں حضرت شیخ کا آپ پر جھانبڑ نہ لگ جائے‘‘۔میں نے عرض کیا :حضرت استادجی ؒ اپنے اس ناکارہ کو معاف فرمائیں گے۔ بہر صورت جامعہ فاروقیہ کے دونوں کیمپس اور لاکھوں شاگرد حضرت استادجی کا اصل سرمایہ ہیں اور کشف الباری اور دیگر تحقیقات اصل میراث۔ اللہ ہمیں اس سرمایہ اور میراث سے کماحقہ مستفید ہونے کی توفیق دے ۔میں جانتا ہوں کہ جتنی محبت والفت اور وسعت حضرت استاد جی نوراللہ مرقدہ کے لیے میرے دل و دماغ میں ہے اتنی وسعت کاغذ کے ان اوراق میں کہاں۔اللہ استادجی کو کروٹ کروٹ راحتیں دے اور ہم جیسوں کو استادجی ؒ نوراللہ مرقدہ کی طفیل سے بخش دے اور دین کا تھوڑا بہت کام کرنے کی توفیق دے۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔