114

داد بیداد…انقلاب کی دستک…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

اندازہ ایسا ہے کہ انقلاب کا جو نعرہ سالہا سال سے نا کا م چلا آرہا تھا بجلی کے بل نے اس نعرے میں نئی جا ن ڈالی ہے جن انقلا بیوں کو شی گویرا کی یاد ستا رہی تھی خمینی کا ما ڈل یا د آرہا تھا ان کو اب نظر آنے لگا ہے کہ پا کستان میں واپڈا کے سوا کوئی انقلا ب نہیں لا سکتا، یہ کام صرف واپڈا کر سکتا ہے شہروں سے لیکر دیہات تک انقلا ب کی لہر اُٹھی ہے لو گ واپڈا کے بل جلا رہے ہیں اور حکام نے پا ک فوج سے سیکیورٹی کا مطا لبہ کیا ہے فلک کر تا ہے پرورش برسوں حا دثہ اک دم نہیں ہوتا دو باتیں کھلم کھلا ہر جگہ ہو رہی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ واپڈا کے اہلکار اور حکام ہر ما ہ 220ارب روپے کی بجلی مفت استعمال کر تے ہیں، سیا ستدانوں، ججوں اور سرکاری افسروں کو مفت بجلی دی جا تی ہے یہ سلسلہ بند ہونا چا ہئیے ان کے علا وہ تین باتیں اور بھی ہیں جن کا ذکر پس پر دہ ہو رہا ہے ان میں پہلی بات یہ ہے کہ واپڈا کے چیئر مین کو ذاتی جہا ز دیدیا گیا ہے یہ شخص ملک اور قوم کی کون سی خد مت کر رہا ہے جس کے لئے اس شخص کو ذاتی جہا ز سرکاری خزا نے سے دیا گیا ہے جس کا سالانہ خر چہ دو ارب روپے سے زیا دہ ہے دوسری بات یہ ہے جس کا بر سرعام ذکر نہیں ہو تا واپڈا کی تقسیم کار کمپنیوں کے اعلیٰ حکا م جا گیر داروں اور کار خا نہ داروں سے بھتہ لیکر ہر مہینے کے 20دن ان کے میٹر بند کر تے ہیں اور 10دنوں کا بل بھیجدیتے ہیں اور خسارے کو لا ئن لا سز کا نا م دیتے ہیں تیسری اہم بات یہ ہے کہ واپڈا کے ساتھ ساتھ تقسیم کا ر کمپنیوں میں بھی سیا ست دانوں نے اپنے کا رکنوں کو لا کھوں کی تعداد بھر تی کرایا ہے جن کی تنخوا ہیں اور مراعات ما لی خسا رے کا سبب بنتی ہیں، واپڈا کی نجکار ی میں بھی سیا ست دانوں کے یہی ٹاوٹ رکا وٹ ہیں بجلی کے بلوں میں نا جا ئز اور نا روا اضافے کا جواز پیش کر نے کے لئے دو باتیں دہرائی جا تی ہیں، پہلی بات یہ ہے کہ انٹر نیشنل ما نیٹری فنڈ (IMF)کی شرط پوری کرنے کے لئے اضا فہ نا گزیر تھا دوسری بات یہ ہے کہ انڈی پنڈنٹ پاور پرو ڈیو سرز (IPP) کے ساتھ مہنگی بجلی کا معا ہدہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بلوں میں اضا فہ لا زم ٹھہرا، دونوں باتوں میں صداقت نہیں آئی ایم ایف کی شرط یہ ہے کہ انتظا می اخرا جا ت میں کمی کرو، قومی محا صل میں اضا فہ کرو، اخراجات میں کمی کے لئے 8وزیروں کی کا بینہ رکھنی ہو گی وزیروں کو سیکیورٹی اور پرو ٹو کول دینے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا وفا قی دار الحکومت میں 90ہزار سرکاری گاڑیاں کیوں رکھی گئی ہیں وزیر اعظم اور وزرا کو پرو ٹو کول کیوں دیا جا رہا ہے کا بینہ کا حجم ہر ہفتے کیوں بڑھا یا جا رہا ہے ان چیزوں پر 600ارب روپیہ فضول خر چ ہورہا ہے اس طرح صو بوں میں بھی اعلیٰ حکام اور سیا ستدانوں پر قومی خزانہ بے دریغ لٹا یا جا رہا ہے آئی ایم ایف کے حکام مطا لبہ کر تے ہیں کہ تمہارے وزرا، گورنر اور حکام اگر جرائم پیشہ نہیں ہیں مختلف وار داتوں میں ملوث ہو کر پو لیس کو مطلوب نہیں ہیں تو کینڈا، سویڈن، سنگا پور، ناروے اور افغا نستان کے وزراء، ججوں اور اعلیٰ حکام کی طرح سیکیورٹی اور پرو ٹو کول کے بغیر گھومنے پھر نے سے کیوں ڈر تے ہیں؟ اپنے ملک کے عوام سے کس لئے خو ف زدہ ہیں؟ ایسے لو گوں کو ان عہدوں پر لے آؤ جن کا ما ضی بے داغ ہو جن کے جرائم پیشہ ہونے کا کوئی ریکارڈ نہ ہو محا صل بڑھا نے کے لئے آئی ایم ایف نے جا گیرداروں پر ٹیکس لگا نے کی شرط رکھی ہے اگر 8ہزار جا گیر داروں پر ٹیکس لگا یا گیا تو قومی خزا نے کو 500ارب روپے کے اضا فی محا صل ہر سال آجا ئینگے ناروا بلوں کے جواز میں دوسری دلیل یہ دی جا تی ہے کہ آئی پی پیز کی بجلی مہنگی ہے اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ آئی پی پیز کے مقا بلے میں پن بجلی گھروں اور ایٹمی ری ایکٹروں سے ڈھا ئی روپے یونٹ کے حساب سے دو تہا ئی بجلی سسٹم میں آرہی ہے اور یہ بجلی سستی ہے اس کے سستی ہونے کا فائدہ سسٹم کو ہورہا ہے واپڈا کو ہو رہا ہے صارفین کو نہیں ہو رہا ایک بڑی بات چترال سے آئی ہے جہا ں پیسکو (PESCO) کے صارفین کی تعداد 28ہزار ہے میٹر ریڈر صرف دو ہیں چنا نچہ میٹر کو چیک کئے بغیر اندھا دھند بل بھیجے جا تے ہیں بلوں کی درستگی کا کوئی طریقہ نہیں نا جائز بلوں کو میٹر کے ساتھ چیک کرکے سلیپ دینے کا کوئی سسٹم نہیں یہ تما م نقائص واپڈا کی انتظا میہ میں مو جود ہے اس لئے بجلی کے مو جودہ بلوں کی وجہ سے انقلاب بر پا ہو تا ہوا نظر آرہا ہے جو کام بڑے بڑے لیڈ ر نہ کر سکے وہ کام واپڈا نے کر دکھا یا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں