360

چترال میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی کا عمل نہایت سست روی کا شکار ؛عوامی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے

چترال(خصوصی رپورٹ)گذشتہ سال ضلع چترال تاریخ کے بدترین سیلاب کا شکار رہا جسکی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے، ضلع بھرمیں انفرا سٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں ہونیوالے نقصانات کا اندازہ اربوں روپے لگایا گیا ۔ سیلا ب کے بعد وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف، وزیر اعلیٰ پرویز خٹک، پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے علاوہ پی ٹی آئی سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور پیپلز پارٹی کے راہنما خورشید شاہ نے بھی چترال کادورہ کئے۔ عوامی سطح پر ان دوروں کو دیکھتے ہوئے چترال کے عوام کو امید ہو چلی تھی کہ اس پسماندہ اور قدرتی آفت سے بری طرح متاثرہ ضلع کی دوبارہ آباد کاری کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائینگے مگربد قسمتی سے لوگوں کے امیدوں پر پانی پھیر گیا اور سیلاب سے متا ثرہ انفراسٹرکچر کی بحالی میں دس فیصد بھی کامیابی نہیں ہوئی اور حالات پہلے سے زیادہ بد تر ہوئے جسکی وجہ سے عوام کے مشکلات میں دو سو گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ سڑکوں، پلوں،آبپاشی، آنبوشی کے اسکیمیں اسی طرح تباہ حال ہیں جبکہ حال ہی میں موسمی تبدیلی کی وجہ سے دریاؤں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح بلند ہونے پر لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اربوں روپے کے نقصانات کی بحالی کے لئے حکومت کی طرف سے صرف چند کروڑ روپے جاری کرنا چترال کے غریب اور آفت زدہ عوام کے ساتھ سنگین مزاق ہے ۔ قدرتی آفات کے مواقع پر اکثر دیکھا گیا ہے ہے کہ حکومتی اداروں کیساتھ ساتھ غیر سرکاری ادارے بھی متحرک ہوتے ہیں بلکہ غیر سرکاری ادارے سرعت کے ساتھ بحالی کے کاموں میں سرگرم ہو جاتے ہیں مگر چترال کی صورتحال میں غیر سرکاری اداروں کا کردار بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ غیر سرکاری اداروں کے حوالے سے ایک مسئلہ این او سی کا بھی درپیش رہا جسکی وجہ سے کئی ایک ادارے باوجود چترال میں کام کرنے تیاری کے یہاں پر کام کرنے نہیں آسکے جبکہ پہلے سے یہاں پر موجود غیر سرکاری ادارے بھی خاطر خواہ فنڈنگ لانے میں ناکام رہے۔ضلع چترال کے تین اہم شاہراہوںیعنی چترال بونی روڈ بمقام کوراغ، چترال گرم چشمہ روڈ اور چترال بمبوریت روڈ کی تعمیر اور مرمت کے حوالے سے غفلت اور بعد ازاں کھینچاتانی کی کیفیت نے عملاً ان تین راستوں کی بحالی کو بری طرح متاثر کردیا اور اسوقت گرم چشمہ روڈ شدید خطرے سے دوچار ہے، بمبوریت روڈ کی خستہ حالی بھی سب کے سامنے ہے۔ایک سال گزرنے کے باوجود اپر چترال کو تاریکی سے نکالنے کے لئے کوئی ٹھوس بندوبست نہیں کیا گیا اور ریشن پاور ہاؤس اسی طرح کھنڈر بنا ہوا حکومتی بے حسی پر نوحہ کناں ہے۔ ان حالات میں اگر مون سون سیزن شروع ہوا تو یہاں کے غریب اور آفت زدہ لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔سیلاب کے بعد بحالی کے صورتحال اور عوامی مشکلات کو دیکھتے ہوئے گڈ گورننس اور بیڈ گورننس کے حوالے مزید کوئی مقالہ جات اور حوالہ جات ملاحظہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ چترال کے ہر گاؤں میں بیڈ گورننس کی مثالیں موجود ہیں جوکہ اوروں کو دعوت نظارہ دے رہی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں