تیرے بیٹے، تیرے جانباز ۔۔۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر
عسکری اعتبار سے 6ستمبر 1965ء تاریخِ عالم میں اِس لحاظ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گاکہ اُس دن بھارت نے اپنے سے کہیں چھوٹے پڑوسی ملک پاکستان پرحملہ کرنے کی جسارت کی لیکن مُنہ کی کھائی۔ بھارتی جرنیلوں کا دعویٰ تویہ تھاکہ وہ 6ستمبر کی صبح لاہور کے جِمخانہ کلب میں شراب کے جام لنڈھائیں گے لیکن شاید ہندو بنیا یہ نہیں جانتا تھاکہ جس قوم کا مطلوب ومقصود ہی ایسی موت ہوجس کا حکم رَبِ لم یزل نے فرقانِ حمیدمیں یوں فرمایا ”جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں اُن کومردہ خیال نہ کرو بلکہ وہ اپنے رَب کے پاس زندہ ہیں اور اُنہیں خوراک مِل رہی ہے“ (سورۃ آلعمران آیت 169۔ اِسی طرح سورۃ بقرہ آیت 154میں یوں ارشاد ہوا ”اور مت کہو اُنہیں مُردہ جواللہ کی راہ میں مارے جائیں، بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں شعور نہیں“۔ اُن کے اِس جذبے کو بھلاکون شکست دے سکتا ہے۔ جوقوم اتنی نڈر ہوکہ فضاؤں میں پاکستان اور بھارت کے طیاروں کوباہم برسرِپیکار دیکھ کر ”بوکاٹا“ کے نعرے لگائیں اور لاٹھیاں لے کربھارتی ٹینکوں اور توپوں کامقابلہ کرنے سرحدوں پرپہنچ جائیں اُن کی جرأت کوبھلا ہندو لالہ کیسے ہزیمت سے دوچار کرسکتا ہے۔ یہ پاک دھرتی اُن شہیدوں کے لہوسے معطرہے جن کے عظم وہمت کی لازوال داستانوں سے تاریخِ پاکستان میں رقم
لگانے آگ جوآئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہوسے بجھا دیئے ہم نے
فیلڈمارشل ایوب خاں کا اُس موقعے پرقوم سے خطاب آج بھی لہو گرماتا ہے۔ اُنہوں نے فرمایا ”10کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کاوقت آن پہنچا۔ آج صبح سویرے ہندوستانی فوج نے پاکستان کے علاقے پرلاہور کی جانب سے حملہ کیااور بھارتی ہوائی بیڑے نے وزیرآباد سٹیشن پرکھڑی ایک مسافر گاڑی کو اپنے بزدلانہ حملے کا نشانہ بنایا۔ پاکستان کے عوام جن کے دل کی ہردھڑکن میں ”لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ“ کی صدا گونج رہی ہے اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہوجائیں۔ وہ ابھی نہیں جانتے کہ اُنہوں نے کس قوم کی غیرت کوللکارا ہے۔ ہمارے دلوں میں ایمان اور یقینِ محکم ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہم سچائی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ جنگ شروع ہوچکی ہے۔ دشمن کوفنا کرنے کے لیے آگے بڑھو اور دشمن کامقابلہ کرو۔ خُدا تمہارا حامی وناصر ہو“۔ حکومت کی درخواست پرمولانا مودودی اور دیگر علماءؒنے اعلان کیاکہ یہ جہاد ہے جوہر مسلمان پرفرض۔ یہی وہ جذبہ تھاجس نے اِس 17روزہ جنگ میں اپنے سے کئی گُنابڑے بھارت کوناکوں چنے چبوائے۔ بھارت کے پاس 8لاکھ 67ہزار پیادہ فوج تھی جبکہ پاکستان کے پاس 2لاکھ سے بھی کم پیادہ فوج۔ بھارت کی ایئرفورس 775 جدید لڑاکا طیاروں پرمشتمل تھی جبکہ پاکستان کے پاس صرف 145جنگی جہاز۔ دفاعی ہتھیاروں میں بھی پاکستان اور بھارت کی نسبت ایک اور پانچ کی تھی، یہاں مگرحکمت کی عظیم الشان کتاب میں رَب کایہ وعدہ سچ ثابت ہوا ”اے نبی مومنوں کوجنگ پر اُبھارواگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تووہ دوسو پرغالب آئیں گے اوراگر سوآدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پربھاری رہیں گے“ (سورۃ الانفال آیت 65)۔
جب بھارت نے بین الاقوامی سرحد عبور کرکے لاہورکے قریب پاکستانی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی تواُس وقت سرحدپر پاک آرمی کے محض 150فوجی جوان موجودتھے جبکہ بھارتی فوج 1500 فوجیوں پر مشتمل تھی پھربھی پاک فوج کے جوانوں نے زبردست مزاحمت کی اور بھارتی فوج کواُس وقت تک روکے رکھاجب تک پاک فوج کے دستے سرحدوں تک پہنچ نہیں گئے۔ بھارتی فوج جمخانہ کلب لاہورتو دُورکی بات بیدیاں اور واہگہ سے ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔ اُدھر پاکستانی افواج نے کھیم کرن میں بھی بھارتی افواج کوبنہ صرف سرحدپار دھکیل دیابلکہ بُری ہزیمت سے بھی دوچار کیا۔ یہ بھارتی سورما کھیم کرن سیکٹرمیں بھی اپنا اسلحہ اور لاشیں چھوڑکر بھاگ گئے۔
بھارت کااصل محاذ سیالکوٹ کا چونڈہ تھا۔ یہاں دوسری جنگِ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی۔ اِس محاذپر بھارت ایک لاکھ 50ہزار فوجیوں اور 600 ٹینکوں کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ عددی تناسب کے لحاظ سے پاکستان کایہاں بھی ایک اور پانچ کامقابلہ تھا۔ پاکستان کی فوج 30ہزار کے لگ بھگ تھی۔ جذبہئ شوقِ شہادت سے لبریزیہ جوان بھارتی فوج سے یوں ٹکرائے کہ تاریخ رقم ہوگئی۔ 45بھارتی ٹینک تباہ ہوئے، 600 بھارتی فوجی واصلِ جہنم ہوئے۔ حواس باختہ بھارتی فوجی بہت سااسلحہ اور ٹینک چھوڑکر فرار ہوئے۔ 21ستمبر کوجب جنگ بندی کا اعلان ہواتو پاکستان نے غیرملکی نامہ نگاروں کوچونڈہ محاذ کادورہ کروایا تاکہ بھارتی دعووں کی قلعی کھُل سکے۔ 24ستمبر کوڈیلی ایکسپریس لندن کے نامہ نگار ڈونالڈسی مین نے لکھا ”جنگ بندی لائن پرجو میں نے دیکھا کبھی بھُلانہ پاؤں گا۔ ہم ایک گھنٹہ میں صرف چونڈہ کے آس پاس کا 3کلومیٹر کامحاذ دیکھ پائے۔ وہاں میں 25کے قریب بھارتی فوج کے جلے ہوئے شرمن اور سینچورین ٹینک گِن پایااور بہت سے بھارتی فوجیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں“۔
فضائی محاذپر بھی پاک فضائیہ نے کم وسائل کے باوجود نہ صرف بری اوربحری افواج کی مددکی بلکہ اپنی بہترین حکمتِ عملی کے بَل پر جنگ کاپانسہ پلٹ کے رکھ دیا۔ اِس جنگ میں پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل نورخاں نے خودبھی حصہ لیا۔ یہی وہ جنگ ہے جس میں ایئرکموڈور ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں 5بھارتی طیارے گراکر ایسا عالمی ریکارڈ قائم کیاجو آج تک ناقابلِ شکست ہے۔ اِسی جنگ میں بھارتی فضائیہ اتنی حواس باختہ ہوئی کہ اُس کے 12جنگی طیاروں نے اپنی ہی بری افواج پر بمباری کردی۔ پاک بحریہ نے نہ صرف بھارت کی کراچی بندرگاہ کی طرف پیش قدمی روکی بلکہ دوارکا میں بھارتی طیاروں اور ریڈارسسٹم کوتباہ کرکے عالمی سطح پراپنی بہادری اور مہارت کالوہا منوایا۔
عالمی سطح پر انڈانیشیا نے کھُل کر پاکستان کاساتھ دیا۔ اُس وقت کے صدر سوئیکارنو نے نہ صرف اندمان اور نکوبار کے جزائرکا محاصرہ کیابلکہ فوری طورپر 2آبدوزیں اور 2میزائل بردار کشتیاں بھی روانہ کیں۔ ایران نے پاکستان کونہ صرف مفت تیل فراہم کیابلکہ زخمی فوجیوں کے لیے ادویات اور پاکستان کودینے کے لیے 90طیارے بھی خریدے۔ اِسی طرح ترکی نے بھی پاکستانی زخمی فوجیوں کی مددکے لیے نرسوں کے گروپ بھیجے۔ چین نے کھل کرکہا کہ وہ پاکستان کی ہرممکن مدد کرے گا۔ اِس 17روزہ جنگ کاخاتمہ 21ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی ثالثی پرروبہ عمل ہوا۔ روس کے شہر تاشقند میں فیلڈمارشل ایوب خاں اور بھارتی وزیرِاعظم لال بہادرشاستری نے ایک معاہدے پردستخط کیے جسے ”معاہدہ تاشقند“ کہاجاتا ہے۔ اِس معاہدے کونہ صرف پاکستانی قوم نے مسترد کردیا بلکہ یہی معاہدہ ایوب خاں کے زوال کاسبب بھی بنا۔
سوال یہ کہ جب ستمبر 65ء کی جنگ میں پاک فوج کے جری جوانوں نے دادِ شجاعت دیتے ہوئے اپنے سے 5گُنا بڑی طاقت کوگھُٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا توپھر صرف 6سال بعد 71ء کی جنگ میں ایسا کیاہوا کہ ہمارا ایک بازو الگ ہوگیا۔ اِسے فوجی شکست توہرگز نہیں کہاجا سکتا البتہ سیاسی محاذپر پاکستان شکست کھاگیا۔