داد بیداد۔۔کتاب کی طرف واپسی۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

بہت انوکھی خبر ہے بہت سارے قارئین کو یقین نہیں آئیگا کہ ایسا بھی ہوا ہوگا خبر یہ ہے کہ سویڈن (Sweden)کی حکومت نے اپنے نظام تعلیم کو کمپیوٹر کے سپرد کرکے کتابوں کو ختم کرنے کے 15سال بعد اس تجربے کو ناکام قرار دے کر اپنا نظام دوبارہ کتابوں پر منتقل کیا ہے اور نئے سال کے بجٹ میں اس منصوبے کے لئے 104میلین یورو کی خطیر رقم مختص کی ہے تجربے کی ناکامی کو دو نتائج سے ثابت کیاگیا ہے ایک نتیجہ یہ تھاکہ کتابوں کے بغیر طلبہ کاخیال اصل موضوع پرمر تکز نہیں ہوتا دوسرا نتیجہ یہ تھا کہ توجہ اور خیالات بھٹکنے سے سیکھنے کا عمل متاثر ہوا، نیز طلبہ کے اندر پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت ختم ہوئی سویڈن نے 2009ء میں اپنا نظام تعلیم کتابوں سے ہٹاکر ڈیجیٹل لرننگ یعنی تعلیم بذریعہ کمپیوٹر کی پالیسی وضع کی تھی زندہ قومیں اپنی پالیسیوں کے نتائج کا جائزہ لیتی رہتی ہیں جیسا کہ علامہ اقبال نے کہادست قضا میں صورت شمشیر ہے وہ قوم جوہر آن رکھتی ہے اپنے عمل کاحساب، سویڈن،ڈنمارک اور ناروے کا شمار یورپ کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے جن کا سماجی شعبہ امریکہ، چین اور جاپان سے زیادہ ترقی یافتہ ہے یہ تینوں ممالک سیکینڈینے ویا (Scandenavia میں واقع ہیں جو شما لی یورپ کا مشہور علاقہ ہے، 2009ء میں سوئیڈن نے بہت سے ممالک کو پیچھے چھوڑ کر اپنا تعلیمی نظام کتا بوں کی جگہ کمپیوٹر پر منتقل کر کے ڈیجٹل لرننگ (Digital Learning) کا نہایت کامیاب تجربہ شروع کیا تھا ابتدا میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کتابوں کے بغیر تعلیمی عمل کا یہ تجر بہ دوسرے ملکوں کے لئے مثال بنے گا ترقی پذیر ملکوں میں بھی ایک طبقے کا خیال تھا کہ کتابوں کو بند کرکے کمپیوٹر کے ذریعے سیکھنے اور سکھا نے کا عمل جدید دور کے تقاضوں سے نئی نسل کو ہم آہنگ کرے گا اور یہ اکیسویں صدی کی سب سے بڑی ضرورت ہے، اس کے مقابلے میں دوسرے مکتب فکر کا یہ کہنا تھا کہ کتاب کا کوئی نعم البدل نہیں کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب کی جگہ کمپیوٹر کا نظروں سے اوجھل علم نہیں لے سکیگا ان کی دلیل یہ تھی کہ نصابی تعلیم میں طلبہ کے سیکھنے کا عمل اور اس کے نتائج (SLOs) جتنے بھی ہیں کتاب سے تعلق رکھتے ہیں کتاب نہ ہو تو طالب علم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہے گا، ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا ان کا کہنا یہ تھا کہ کمپیوٹر میں بیشک مصنوعی ذہانت (AI) کی طاقت ہے، گوگل کی مہا رتیں ہیں مگر یہ مہارتیں اور طاقتیں بسا اوقات ہمارا ساتھ نہیں دیتیں مثلاً آپ کسی کے ساتھ تعزیت کااظہار کرنے کے لئے انگریزی کا جملہ ”میں چاہتا ہوں“ (I want to) سے بات شروع کرینگے تو مصنوعی ذہانت مبار ک باد کے الفاظ لائیگا کیونکہ میں چاہتا ہوں کے بعد مبارکباد بھی آسکتا ہے کئی اور الفاط بھی آسکتے ہیں یہاں مصنو عی ذہانت کو ایک طرف رکھ کر آپ خود سے اظہار تعزیت کے لئے موزوں الفاظ کا انتخاب کرینگے، ورنہ آپ کا تعزیت نامہ مذاق بن کر رہ جائیگا بالکل اسی طرح آپ نے گوگل میپ کو دیکھ کر گاڑی چلانی ہے آپ کے پاس مطوبہ مقام کا پتہ ہے جو بڑی شاہراہ کے دائیں یا سڑک کے بائیں طرف گلی سے ہو کر چند سیڑھیاں چڑھنے یااتر نے کے بعد آتا ہے، گوگل میپ آپ کو سڑک پر پہنچا کر کہے گا کہ دو منٹ پیدل چلو، اب دو منٹ پیدل چل کر آگے جانا ہے یا پیچھے؟ دائیں جانا ہے یا بائیں گوگل میپ آپ کو نہیں بتائیگا یہ بات آپ موقع پر موجود کسی زندہ انسان سے پو چھینگے تو معلوم ہو جائیگی گویا کمپیوٹر کی حدود بھی ہیں ایک حد پر جاکر وہ جواب دے دیتا ہے یہی بات 15سالوں کے تجربے کے بعد سوئیڈن کی حکومت کو معلوم ہوئی تو حکومت نے 4ارب روپے کے برابر بجٹ دے کر تعلیمی نظام کو واپس کتابوں کی طرف لا نے کا فیصلہ کیا تجر بے سے ثا بت ہوا کہ کمپیو ٹر طا لب علم کے دھیان کو منتشر کر تا ہے پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں کو متا ثر کر تا ہے پس تعلیمی نظا م کی بنیاد کتاب ہی ہے۔