Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

داد بیداد۔۔بڑے امتحان کے نتائج۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ملک کے تعلیمی حلقوں میں سنٹرل سپرئیر سروس (CSS) کو بڑاامتحان کہا جاتاہے ہر پاکستانی گریجویٹ اس میں بیٹھنا چاہتا ہے اس لئے اس کا نتیجہ آنے کے بعد ملک کے تعلیمی نظام پر ایک نئی بحث شروع ہوتی ہے اس بحث میں تعلیمی نظام کی خرابیاں بیان کی جاتی ہیں اساتذہ کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں سی ایس ایس کے امتحان 2024ء کانتیجہ ابھی آیا ہے فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے جونتائج جاری کئے ان کے مطابق امتحان دینے والوں کی کل تعداد کاصرف ڈھائی فیصد پاس ہوا،ستم ظریفی یہ ہے کہ پاس ہونے کایہ تنا سب شریعت میں زکوۃ کی شرح کے برابر ہے بڑے امتحان میں پاس ہونے والوں کو معاشرے کا مکھن (Cream of the society) کا نام دیا جاتا ہے زکوۃ کی شرح کو دولت کا میل (dirt) کہا جاتا ہے، معاشرے کے مکھن نے دولت کے میل کا جا مہ کیسے پہن لیا اس پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے جو نتیجہ آیا اس کے اعداد و شمار بہت حوصلہ شکن پیغام دیتے ہیں مثلاً اشتہار آنے کے بعد 23100امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائیں سکریننگ ٹیسٹ میں 6500فیل ہو گئے، پھر تحریری امتحا ن ہوا تحریری امتحا ن میں 14207اُمیدوار فیل ہوئے صر ف395کو انٹرویو کے لئے بلایا جائیگا یعنی 23ہزار میں سے 395زبا نی امتحان میں بیٹھینگے اور ان میں سے ڈھائی فیصد پاس ہونگے آسامیوں کی تعداد کے لحاظ سے کتنی تعداد پاس ہوگی اس کا اندازہ لگانا زیا دہ مشکل نہیں، مقدار اور معیارکی بحث میں سرکھپانے والے ماہرین سکولوں اور یونیورسٹیوں کے نظام میں کیڑے نکالتے ہیں یہ بات درست ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد یونیورسٹیوں کانظام تباہ ہوچکا ہے،سمسٹر سسٹم کی افسوسناک ناکامی نے تعلیمی معیار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے مگر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سسٹم کو جو دیمک لگی ہے وہ بہت کم لوگوں کو نظر آتا ہے دنیانے اکیسویں صدی کے 25ویں سال میں قدم رکھا مذکورہ کمیشن اب تک بیسویں صدی میں ہے اشتہار جا ری کرنے اور درخواستیں وصول کرنے کا وہی دقیانوسی طریقہ چل رہا ہے اگر کمیشن اپنے مراکز امتحانات کو درخواستیں وصول کرنے سے پہلے فعال کرکے متوقع امیدواروں کے لئے ہر مرکز میں کونسلنگ کا انتظام کرتا تو درخواست دینے والوں کی تعداد میں 50فیصد کمی ہوتی کمیشن کے لئے وقت اور دیگر وسائل کی خاطر خواہ بچت ہوتی یہی طریقہ یونیورسٹیوں کی سطح پر کیرئیر کونسلنگ کے نام پر ہونا چاہئیے تھااور بڑے امتحا ن کے متوقع امیدواروں کو بتانا چاہئے تھا کہ پیشوں کے انتخاب میں سول بیورو کریسی اکیسویں صدی میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر نہیں رہی اس کی بے شمار وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ یہ ہے یہ سروس اپنے عروج کو دیکھ چکی اب اس کے زوال کے دن آگئے ہیں 1950اور 1960والے عشروں کا دور اب نہیں رہا صو بوں نے پی ایم ایس کا کیڈر متعارف کرایا جس میں تر بیت اور مہا رتوں کا معیا رقدرے بہتر ہے نجی شعبے میں نظم و نسق کے لئے نوجوا نوں کو سرکاری افیسروں کے مقابلے میں کئی گنا بہتر مواقع آگئے ہیں،علم میں اضافہ سیکھنے کا عمل اور عوامی رابطہ کا ری کا تجربہ نجی شعبے میں سب سے زیادہ ہوتا ہے سرکاری دفتر میں ذہین، محنتی اور قابل نو جوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے جو لوگ یونیورسٹی سے فارغ ہوکر کچھ بننا چاہتے ہیں اور کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کو سرکاری ملازمت کی جگہ پرائیویٹ سیکٹر میں جانا چاہئیے، ڈاکٹر انجینئر، ایم اے انگلش اور ایم اے پو لٹیکل سائنس وغیرہ کی جگہ ایم بی اے (ایگزیکٹیو)، ایم بے اے (فنا نس)، ایم بی اے (ہیو من ریسورس)، چارٹرڈ اکا ونٹنٹ وغیرہ کو سنٹرل سپریئر سروس کا امتحان دینا چاہئیے، اس قسم کے غیر روایتی تصورات پر مبنی کیرئیر کونسلنگ ہو جائے، یہ کام فیڈرل پبلک سروس کمیشن بھی کرے اور ملک کی جامعات میں بھی اس کا باقاعدہ اہتمام ہو تو 280آسامیوں کے لئے 23ہزار درخواستیں جمع نہیں ہونگی بڑے امتحان کا نتیجہ ڈھا ئی فیصد نہیں آئیگا، یہ مکھی پر مکھی مارنے کا نتیجہ ہے سنگاپور میں لی کوان یو سکول آف پبلک پالیسی اور قطر کی شیخ حماد بن خلیفہ یو نیور سٹی میں ایک با قاعدہ پبلک پا لیسی انسٹیوٹ اس پر کام کر رہا ہے سٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے اس پر کتاب بھی شائع کی ہے انہوں نے ملک کی بیورو کریسی کو پیشہ ور لو گوں کے ہا تھوں میں دینے کے لئے حکومت کو ایک منصوبہ بھی پیش کیا ہے دنیا کے ساتھ چلنا وقت کی ضرورت ہے سی ایس ایس کو بھی وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہئیے ”یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل اگر کوئی دفتر میں ہے“۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button