پروین۔…. تحریر:تقدیرہ خان

ہم جلسہ گاہ کی طرف جارہے تھے۔ سٹرکیں سنسان تھیں اور کبھی کبھی کوئی پولیس کی گاڑی یا ایمبولینس قریب سے گزرتی یا پھر موٹر سائیکل سوار پارٹی کے جھنڈے اُٹھائے نعرے لگاتے جلسہ گاہ کی طرف جا رہے تھے۔ فاصلہ زیادہ نہ تھا اس لیے ہم آہستہ آہستہ گپ شپ میں مصروف چل رہے تھے۔ میرے ساتھ سارا خان، پروین، مہرین خٹک اور رعنا گل تھیں۔ سارا خان، مہرین اور گل یونیورسٹی گریجوایٹ ہیں اور تینوں نے سیاسیاست میں ماسٹر ڈگریاں حاصل کر رکھیں ہیں۔ اُن کی سیاسی سوچ تقریباً میکاولین ہے اور لائف سٹائل بھی جدید ہے۔ برعکس ان کے پروین آسودہ حال گھرانے سے تعلق رکھتی ہے جسے اپرمڈل کلاس کہہ سکتے ہیں۔ تعلق اپر چترال سے ہے اور اس کاگاؤں چترال اورگلگت کی سرحد پر واقع ہے۔ باتیں فلسفیانہ کرتی ہے اور کسی کی سنتی نہیں۔ انتہائی رومانٹگ اور اکثر وجدانی کیفیت میں رہتی ہے۔زیر بیان سیاسی واک کے دوران پتہ چلا کہ وہ میٹرک پاس ہے۔ جس پر مہرین، گل اور سارا نے حیرت سے ایک دوسری کی طرف دیکھا۔
سیاسی اورمذہبی جلسوں کے اخراجات کی بات ہو رہی تھی کہ آخر اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے جو ان جلسوں اور جلسوسوں پر خرچ ہوتا ہے ۔ تمہار ی بات تو درست ہے ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ پارٹی کارکن تو اتنا چندہ نہیں دے سکتے چونکہ وہ عام لوگ ہوتے ہیں ۔ غریب مسکین اپنی دھاڑی اور مزدوری چھوڑ کر آتے ہیں۔ مقامی لیڈر اور اسبملیوں کے اُمیدوار انہیں ٹرانسپورٹ تو مہیا کر دیتے ہیں مگر کھانے کا کم ہی بندوبست ہوتا ہے۔ عمران خان کے طویل دھرنے کا الگ معاملہ تھا۔ خوانچہ فروشوں نے اس دھرنے کے دوران خوب کمایا۔ پارٹی کے مخیر ممبران بھی کھانے کا بندوبست کرتے تھے مگر زیادہ تر لوگ گھروں سے کھانا کھا کر آتے اور رات بھر دھرنے کے مزلے لیتے۔یہ دھرناایک سیاسی میلہ تھا۔ وہ جو دور سے آئے تھے لوگ اُن کے لیے بھی کھانا لے آتے تھے۔
طاہر القادری صاحب کا لنگر ساتھ تھا۔ منہاج میں آسودہ حال لوگوں کی بڑی تعداد ہے۔ اُن کا اعتکاف کیمپ دھرنے سے بڑا ہوتا تھا۔ اسی طرح جماعت اسلامی بھی ایک منظم جماعت ہے۔ تحریک منہاج، جماعت اسلامی اور جمعیت میں ان کے رجسٹرڈ کارکن ہوتے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں عام لوگ ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف اس لحاظ سے منظم جماعت نہیں۔ لوگ اپنے ہی اخراجات پر آتے ہیں چونکہ اس جماعت میں سیاست کم اور جنونیت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت میں پختہ روائتی اور چکمہ باز قیادت جڑیں نہیں پکڑ رہی۔ لیڈروں کی اکثریت موقع پر ست بلکہ مفاد پرست لوگوں کی ہے جو دوسری سیاسی جماعتوں سے آئے اور پھر چلے گئے اورجو رہ گئے ہیں وہ بھی جانے کی تیاری میں ہیں۔تو پیچھے کیا رہ جائے گا؟ سارا خان نے پوچھا۔ خالی میدان، خان اور جذباتی عوام۔ پروین کی اس بات پر ہم سب ہنس پڑے مگر اُس نے اپنی بات جاری رکھی۔ زندگی کا اصول ہے کہ میدان، دریااور جنگل کبھی خالی نہیں رہتے۔ میدانوں میں پڑاؤ ڈالنے والے آجاتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ خانہ بدوش ہوتے ہیں۔ مگر ان کی بھی ایک تنظیم ہوتی ہے۔ ہر چھوٹے گروپ کا ایک گرو اور سارے قافلے کا سردار ہوتا ہے۔ انسان جدید تہذیب سے آراستہ ہو یا خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتا ہو، تنظیم سے منسلک رہنا اُس کی مجبوری ہے۔ ایسا نہ ہو تو وہ اپنی زندگی قائم نہیں رکھ سکتا۔ چوروں، ڈاکوؤں، لیٹروں کی بھی ایک تنظیم ہوتی ہے۔ ہرگینگ کا ایک گینگ لیڈر ہوتا ہے جس کا حکم اٹل اور آخری ہوتا ہے۔ لیڈر کی حکم عدولی موت کا پیغام لیکر آتی ہے۔ یہی حال مافیا کا ہے۔ مافیا کیا ہے؟ گل نے پوچھا۔ مافیا کی تاریخ پرانی ہے۔ کہتے ہیں کہ جرائم پیشہ لوگوں نے ایک تنظیم بنائی جس میں معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کے علاوہ کچھ بیروزگار اور سست الووجود لوگ شامل ہوئے۔ ان لوگوں نے عام لوگوں کو لوٹنا شروع کیا اور پھر منظم ہوکر بڑے بڑے ڈاکے ڈالنے لگے۔ ان کا اثر ورسوخ بڑھتا گیا اور لوگ ان کے مطیع و فرمانبردار ہوۓتو یہ لوگ خان اور سلطان کہلانے لگے۔ جو طاقتور تھے انہوں نے اپنی ایک خفیہ تنطیم بنا لی جو ساری ریاست میں پھیل گئی۔ جو شخص اُن کے مقابلے پرآتا اسے قتل کر دیا جاتا۔ اسی طرح کئی ملکوں میں خفیہ ایجنسیاں قائم ہوئیں مگر اُن کا مقصد ملک کی حفاطت اور اندرونی اور بیرونی دشمنوں پر نظر رکھنا تھا۔ ان سرکاری ایجنسیوں میں بھی ایسے گروپ قائم ہو گئے جو مخالفین کو خفیہ طریقے سے راستے سے ہٹا دیتے تھے۔ کچھ ممالک میں اب بھی یہ کام ہوتا ہے مگر عالمی سطح پر اسے ناپسندیدہ اور مجرمانہ فعل قرا ردیا جاچکا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اگر چہ انتہائی کمزور اور جانبدار ہیں مگر پھر بھی کچھ لوگ انسانیت کے ناطے اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ اب تو انسان بھی انسانیت نہیں بلکہ رنگ و نسل،علاقہ و خطہ، مذہب و ملت اور فرقہ و فکر کے میعار پر پرکھے جاتے ہیں۔ جدید دور کا انسان قدیم دود سے کئی درجے بدتر زندگی گزار رہا ہے۔ اس دور میں مافیا کی کئی شکلیں ہیں۔ عالمی، علاقائی، ریاستی اورمعاشرتی سطح پر مافیا کی حکمرانی ہے۔
لغت کے مطابق مافیا جرائم پیشہ عناصر کی ایک خفیہ تنظیم کا نام ہے جس کی ابدا سسلی سے ہوئی اور پھر اسکا اثر و رسوخ اٹلی اور امریکہ تک پہنچ کیا۔ جو چیز امریکہ پہنچ گئی سمجھ لو وہ دنیا کے کونے کونے تک سراعت کر جاتی ہے۔ مشہور فلم گارڈ فادر اسی موزوں پر بنی تھی اور گاڈ فادر ناول دنیا بھر میں مشہور ہوا کہ مافیا کس طرح ملکی نظام میں مداخلت کرتا ہے۔ عدلیہ اور انتظامیہ کو خرید لیتا ہے اور اپنی پسند کے فیصلے کرواتا ہے۔ دیکھا دیکھی مافیائی سیاست بھی منظر عام پر آگئی اور پارلیمنٹ میں مافیا ممبران کی اکثریت نے ملکی قوانین ہی بدل ڈالے۔ سیاسی جماعتوں کے مافیا ونگ بن گئے جو پولیس اور انتظامیہ کی مدد سے مخالف سیاسی جماعتوں کی سرکوبی کرنے لگے۔ مخالف اُمیدوار مروا دیے جاتے یا پھر اغواء کر لیے جاتے۔ بھارت سمیت ساری دنیا میں اس موضوع پر فلمیں بنیں مگر ملکی اداروں اور مافیائی سوچ پر کچھ اثر نہ ہوا۔ وجہ کیا ہوئی؟ سارا خان نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔اس سے پہلے کہ پروین کچھ کہتی جلسہ گاہ کی طرف سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں اور پھر دھویں کے بادل اُٹھ کر چاروں طرف پھیلنے لگے۔ سارا نے کہا پولیس ایکشن ہو گیا ہے۔ مگر کیوں؟ ابھی تک تو سب کچھ نارمل تھا۔ لوگ جلسہ گاہ کی طرف جارہے تھے اورجلسہ گاہ سے ترانوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ قائدین کے جلسہ گاہ آنے میں بڑا وقت ہے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ۔ مس خٹک نے کہا۔ مگر لیڈر کبھی وقت پر نہیں آنے میں نے کہا صرف قائدعظم ؒ ہی ابن الوقت تھے۔ کراچی میں منعقد ایک تقریب میں گورنر جنرل وقت پر پہنچ گئے مگر وزیر اعظم لیاقت علی خان نہ آسکے۔ قائداعظم ؒ کے پہنچتے ہی تقریبا کاآغاز ہو گیا۔ آپ نے خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ کس لیے ہے۔ بتایا گیا کہ وزیراعظم کی کرسی ہے۔ آپ نے فرمایا سٹیج سے ہٹا دو۔ یوں وزیر اعظم دیر سے آکر عام لوگوں میں بیٹھ گئے۔ تقریب ختم ہوئی تو قائداعظم وزیر اعظم سے ہاتھ ملائے بغیر ہی چلے گئے۔ وجہ کیاتھی؟ گل نے پوچھا۔ قائداعظم ؒ عام لوگوں کے نمائندہ تھے اور وزیراعظم کا تعلق اعلیٰ اشرافیہ سے تھا۔ قائداعظم ؒ، قانون دان، سیاستدان اور بااصول شخص تھے اُن کی چوتھی خوبی اخلاقیات پرمبنی کردار تھا۔ یہی وہ چار ہتھیار تھے جن کی قوت سے قائداعظم نے حکومت برطانیہ، وائسرائے ہند، کانگرس اور کانگرس کی ہمنوا مسلمان مذہبی جماعتوں کا مقابلہ کیا اور پاکستان کا مقدمہ جیت لیا۔
پروین کی بات جاری تھی کہ ہوا کا رخ تبدیل ہو گیا۔ آنسوں گیس کی گھٹن سے سانس لینا دشوار ہوگیا۔ گل نے اپنی بوتل سے ہمیں دوپٹے بھگو کر دیے توہم نے اپنے منہ ڈھانپ لیے۔
اب ویران سٹرکوں کا منظر بدل چکا تھا۔ موٹر سائیکل سوار زخمیوں کو لیکر واپس بھاگ رہے تھے۔ یہی حال پیدل چلنے والوں کا تھا۔ عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے شہر کی گلوں اور سٹرکوں پر انجانی منزل کی طرف بھاگ رہے تھے۔ جو تھک گئے تھے وہ درختوں کے نیچے نڈھال بیٹھے اور کچھ لیٹے ہوئے تھے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ آخر ہوا کیا ہے۔ افراتفری کے اس ماحول میں ہم نے بھی واپسی کی راہ لی۔
کچھ دیر بعد پولیس کی گاڑیاں آئیں اور سٹرکوں کے کنارے بیٹھے اور لپٹے ہوئے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر گاڑیوں میں ڈالنے لگے۔ لوگ کوئی مذاہمت نہ کر رہے تھے۔ کچھ عورتوں نے شور کیا تو زنانہ پولیس نے اُن پر تشددکیا اور دھکے دے کر گاڑیوں میں دھکیل دیا۔یہ منظر ہم ایک گلی میں چلتے دیکھ رہے تھے۔ تیز ہوا کے بعد آنسوں گیس کی شدت کم ہوئی تو گھروں کے مکین بھی باہر نکل آئے اور لوگوں کو پانی پلانے لگے۔ کچھ نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں نے زخمیوں کوفسٹ ایڈ دی، پانی پلایا اور کچھ دیر رکنے کا بھی کہا۔
جو لوگ دوسرے شہروں اور قصبوں سے آئے تھے وہ بسوں کے اڈوں اور جی ٹی روڈ کا پوچھنے لگے۔ لوگوں کی حالت دیکھ کر ہم سب رنجید ہ ہوئے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ پروین کہنے لگی یہ کوئی پہلا واقعہ تو نہیں۔ سارا نے کہا کہ یہ سب انتظامیہ کی بے حسی کا نتیجہ ہے ۔ کون سی انتظامیہ؟پروین نے پوچھا شہر کی انتطامیہ،ضلع کی انتظامیہ، ریاست کی انتظامیہ اورکونسی انتظامیہ سارا نے جواب دیا۔ شاہد تمہارے دماغ میں کنفیوشس کی انتظامیہ کا تصور گھوم رہا ہے۔ ہمارے ہاں انتظامیہ کامطلب جبر، تشدد اور بے رحمی ہے جس کا تصور مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سات سمندر پار سے آئے انگریز تاجروں نے دیا۔ موجودہ انتظامیہ انگریزوں کی پروردہ ہے اور کمپنی بہادر کے بنائے ہوئے قوانین کی پیروکار ہے۔ ان قوانین کی بدترین مثال صوبیدار سیتارام کی سرگزشت ہے جب باپ اپنے اکلوتے جوان سال بیٹے کے سینے پرگولی مارنے کا حکم دیتا ہے۔ جلیانوالہ باغ میں بھی تو جلسہ ہو رہا تھا۔ جنرل ڈائر کی فوج میں سارے انگریز تو نہیں تھے۔ نوے فیصد فوج دیسی سپاہیوں پر مشتمل تھی۔
قصہ خوانی کا قتل عام بھی تو ہے۔سکندر مرزا نے خود لکھا ہے کہ خدائی خدمتگار سیاسی احتجاج کر رہے تھے۔ وہ مسلم ہائی سکول نمبر2میں بیٹھے ہوئے تھے اور شہر میں جلوس نکالتے تھے کہ اُن پر اسسٹنٹ کمشنر اسکندر مرزا کی قیادت میں اُس کی اپنی ہی رجمنٹ پروبن ہارس نے حملہ کیا اور درجنوں لوگ مارے گئے۔ اس رجمنٹ کے زیادہ تر سپاہی مسلمان اور پٹھان تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی یہ رجمنٹ کمانڈ کی ہے۔ خیر رجمنٹ تو نام ہے۔ ہماری بہت سے رجمٹیں قابل فخر ہیں۔ اصل دماغ تو اسکندر مرزا کا تھا جس نے کمشنر کی خوشنودی حاصل کرنا تھی۔ جلسے اُلٹنا اور مار دھاڑ کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ احتجاج کو حکومت کی اتھارٹی چیلنج کرنے کا نام دیکر سب کچھ جائز قر ار دیا جاتا ہے۔ انگریز ہمیں بہت سے ہھتکنڈے ورثے میں دے گیا ہے جس میں جاگیردرانہ سیاسی نظام، سرمایہ دارانہ معاشی نظام، ظالمانہ، انتظامی نظام اور اہل مغرب اور امریکہ کی مرضی سے مسلط کردہ حکومتی نظام شامل ہیں۔ عدالتی نظام حکومت ہی تشکیل دیتی ہے چونکہ ججوں کی تعیناتی حکومت وقت کرتی ہے۔ ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت عدالتی نظام بہر حال چلتا ہی رہتا ہے چونکہ کسی بھی حکومت کو عدالتی اور انتظامی نظام میں بہتری لانے کی خواہش نہیں ہوتی۔ہمارا واپسی کا سفر تومختصر تھا مگر پکڑ دھکڑ اور پھر آنسوگیس کے اثرات کی وجہ سے طویل ہو گیا۔ گلی میں ایک ناکے پر پولیس نے ہمیں روک لیا مگر کوئی پوچھ کچھ نہ کی۔ ہم فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے مگر پروین خاموش نہ ہوئی۔ سارا سے پوچھنے لگی کیا تم نے سابق آئی جی پولیس حافظ ایس ڈی جامی کی کتاب پولیس، کرائم اینڈ پالیٹکس پڑھی ہے؟ نہیں پڑھی سارا نے جواب دیا۔ آج جو کچھ پولیس کر رہی ہے یہ سیاسی جرم ہے جس کی ایک تاریخ ہے اور یہ تاریخ ایک پولیس آفسر نے ہی لکھی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جاگیردارانہ اور نودولیتے مجرمانہ ذہنیت کے حامل سیاستدانوں نے پولیس کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔مجرمانہ سیاسی کھیل میں مافیا کی اجارہ داری قائم ہوئی تو پولیس بھی شریک جرم ہوگئی۔
تمہارے پاس یہ کتاب ہے؟ نہیں میری دوست رخسانہ سیٹھی کے پاس ہے۔اس کے پاس کتابوں کا انبار ہے۔کبھی پشاور جاؤں تو اُسے ضرور ملتی ہوں۔ کیا وہ بھی میٹرک پاس ہے۔ مہرین خٹک نے طنز کیا۔ ہاں وہ بھی میری ہی طرح میٹرک پاس ہے مگر تمہارا ایم فل ہمارے میٹرک کے مقابلے میں مڈل ہے۔ وہ کیسے؟ گل نے پوچھا۔ میں اور رخسانہ حبیب پبلک سلوک کراچی سے میٹرک پاس ہیں۔ حبیب پبلک سکول کراچی کے بہترین سکولوں میں شمار ہوتا ہے۔ کانونٹ سینٹ میری اور آجکل کے بیکن ہاؤس اور سیٹی سکول اس کے مقابلے میں زیرو ہیں۔
پروین اونچی آوز میں بولتی ہے۔ حبیب پبلک سکول کا نام سن کر ایک پولیس آفسر جو سول کپڑوں میں ملبوس تھا، ہمارے قریب آگیا۔کہنے لگا آپ بڑی اچھی گفتگو کرتی ہیں۔ میں نے بھی جامی صاحب کی کتاب پڑھی ہے۔ میڈیم کاتجزیہ درست ہے۔ حبیب پبلک سکول بھی بہترین ادارہ تھا۔ اب کا پتہ نہیں کیاحال ہے۔ سمجھ لو کراچی کا بہترین سکول تھا۔ آپ تھوڑا انتظار کریں۔ آگئے پولیس کی گاری پر پتھراؤ ہو رہا ہے۔ جو نہی راستہ صاف ہوتا ہے آپ چلی جائیں۔ سارا نے کہا کہ ہم سامنے والی گلی سے بھی جاسکتی ہیں۔ ہمارے گھر قریب ہی ہیں۔ پولیس افسر نے کہا ٹھیک ہے۔ اگر راستہ محفوظ ہے تو آپ جاسکتی ہیں۔ پولیس والے نے پروین کی طرف مسکرا کر دیکھا تو پروین نے ہاتھ آگے کر دیا اور گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ آپ نالج ایبل ہیں۔ پولیس والے نے پروین کا شکریہ ادا کیا اور ہم ایک اچھے پولیس والے کے اخلاق سے متاثر ہو کر واپس آگئے۔
گھر آکر پروین نے کہا ابھی توجلسے کا وقت ہی نہیں ہوا ایک گھنٹہ باقی ہے۔کونسا جلسہ؟گل نے پوچھا۔ وہی جہاں تم ٹہلتی ہوئی جارہی تھی اورپھر بھاگتی ہوئی واپس آئی ہو۔ جب جلسہ ہی اُلٹ دیا گیاہے تو پھر وقت کی کیا بات ہوئی۔ سارا نے دونوں کے تکرار میں مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ویسے تمہیں پتہ ہے کہ جلسے اُلٹنے کارواج کب سے ہوا ہے۔ میں نے تینوں سے سوال کیا۔ گل، سارا اور مہرین نے پروین کی طرف دیکھا۔ پروین نے آنکھیں بند کر لیں تو مہرین نے کہا شاہد رخسانہ سیٹھی سے روحانی رابطہ قائم کر رہی ہے۔ ہاں ایسا ہی ہے۔ لگتا ہے پولیس والاہینڈ سم اور پری چہرہ رخسانہ تمہارے دل میں بس گئے ہیں۔رخسانہ کا تو پتہ نہیں البتہ پولیس والا واقعی ہینڈ سم تھا۔ میرے خیال میں پولیس والا نہیں تھا۔ تو پھر کون تھا؟ تہذیب یافتہ، سلجھا ہوا اوراہل زبان تھا۔ کتنی صاف اور نستعلیق اردو بولتا تھا۔ لہجہ نرم اور زبان شستہ تھی۔ سارا نے بڑے رُومانٹگ لہجے میں افسر کی تعریف کی۔ میرے خیال میں فوجی افسر یا پھر کوئی انتظامیہ کا افسرتھا۔ ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا۔ مہرین نے سرد لہجے میں کہا کہ پروین کو ہر معاملے میں جلدی ہوتی ہے۔ گل اور سارا خان کے بعد ہاتھ ملانے کا حق میرا بھی تھا۔ پروین تو اب مقابلے سے ہی باہر ہے۔ چار بچے اور پھر اوپر سے خان صاحب رفعت اللہ خان بہادر،ریٹائرڈ بینکار، پروین نے ہنس کر کہا۔ شکر ہے بیکار نہیں کہہ دیا ورنہ میرا دل ہی ٹوٹ جاتا۔ جو ہمارے دل ٹوٹے ہیں اُس کا کیا ہوگا۔ صبر کرواوراگلے ۔ جلسے کی تیاری کرو۔ آنسو گیس اور لاٹھی چارج تو ہونا ہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ ھیرو کسی نالے پر تمارا منتظر ہو۔
پروین نے کہا کہ جلسے الٹنے اور جلسوں پر تشدد کی تاریخ پرانی ہے۔ فسطائیت کے ہر دور میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت کے ستاۓ عوام جب بھی بادشاہوں اور ظالم حکمرانوں کے محلوں کا رخ کرتے تو سیاہ انہیں تہہ تیغ کر دیتی مگر احتجاج پھر بھی نہ رکتے۔ لوگ مرتے رہتے اورسپاہ انہیں مارتی رہتی اور پھر کسی انقلاب یا پڑوسی ریاست کی مداخلت سے منظر بدل جاتا۔ نئے حکمران نئے قوانین نئے ہتھکنڈے اور شکنجے، پرانی سیاہ اور پرانے عوام اور پھر وقفے کے بعد پرانا کھیل یہ کہانی تب سے چلی آرہی ہے جب سے ریاست کا وجود قائم ہوا ہے۔
البتہ عادل حکمرانوں کے ادوار ہمیشہ ہی پر امن، خوشحال اور باوقار رہے ہیں۔ سپاہ عوام کی محافظ اور ریاست کی نگہبان رہی اور عدالتیں اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلے کرتی رہیں۔ ریاست کی عمارت عدل پر استوار ہوتی ہے۔ جب عدلیہ حکمرانوں کے اشاروں پر چلے تو ریاست کا نظام از خود فرسودہ اور بیکار ہو جاتا ہے۔ تم ٹھیک کہہ رہی تھی۔ رخسانہ کا ظاہری اور علمی حسن بے مثال ہے۔ ایسے لوگ ہر جگہ اور ہر ماحول میں ہوتے ہیں جن سے ملکر خوشی ہوتی ہے۔ میرے علاوہ کچھ اورلوگ رخسانہ کے گھر موجود تھے کہ اسی موضوع پر بات شروع ہو گئی۔ رخسانہ نے کہا پاکستان بننے کے بعد قادنیوں کے مسلے پر پاکستان میں تحریک عمل نے احتجاج شروع کیا تو حکومت نے قادیانیوں کے حق میں مذاکرات شروع کیے۔ حکومت کا خیال تھا کہ قادیانی اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز ہیں اگر اُن کی حمایت نہ کی گی تو عالمی سطح پر ہمارا اخلاقی، سفارتی اور انسانی حقوق کے معاملے میں اچھا تاثر قائم نہ ہو گا۔ سر ظفر اللہ خان قادیانی تھے اور وہ مشرقی وسطی کے علاوہ مغربی اور امریکی حکومتوں سے رابطے میں تھے۔ حکومت سرظفر اللہ کو عقل کل تسلیم کر چکی تھی اور اُن کی ناراضگی مول لینا خطرے کی علامت سمجھتی تھی۔ یہ میرا نہیں بلکہ تب کے ڈیفنس سیکرٹری اور ہر سطح پر پردھیان مانے جانیوالے اسکندر مرزا کا بیان ہے جوانہوں نے اپنی ڈائری میں نقل کیا ہے۔
یہ وہی اسکندر مرزا اسسٹنٹ کمشنر پشاور تھا جس نے مشہور وقصہ خوانی بازار میں قتل عام کی قیادت کی تھی۔ اس واقعہ کا ذکر عبداللہ حسین نے اپنے مشہور ناول “اداس نسلیں “اور مستنصر حسین تارڑ نے دلیپ کمار کے حوالے سے اپنی تصنیف ” پشاور آوارگی میں” کیا ہے۔ وہ دلیپ کمار (یوسف خان) کے بچپن کا دور تھا اور نوعمر یوسف خان نے بربریت کا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ رخسانہ نے کہا کہ میں تارڑ کی اس تحریر سے متفق نہیں ہوں۔
میرے خیال میں اس کتاب کا نام پشاور آورگی نہیں بلکہ پشاور دیوانگی ہوتا تو اچھا ہوتا۔ کبھی یہ پھولوں، باغوں اور خوشبوؤں کا شہر تھا پشاور دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ پشاور، دمشق، بابل، ہڑپہ اور منجوڈاروں کا ہم عصر اور قدیم تہذبیوں کا مسکن رہا ہے۔ دینا کے عظیم فاتح اس شہر سے یا اس کے مضافات سے ہو کر گزارے ہیں۔ مچنی پوسٹ پر تعینات میجر نے کوئی غلط بات نہیں کہی تھی۔ سکندر اعظم کی فوج لاکھوں پر مشتمل تھی۔ جنگی دستوں کی تقسیم تدبیراتی لحاظ سے کی جاتی ہے اور انہیں مختلف سمتوں سے اور کئی میلوں پر پھیلا کر چلایا جاتا ہے۔ راجہ پورس اور سکندر کی اصل جنگ تو دریائے جہلم کے کنارے ہوئی مگر سکندر کی فوج منگلا کے شمالی علاقوں سے لیکر کوہستان نمک تک پھیلی ہوئی تھی۔ جنگ کے دوران اُسکا پھیلاؤ موجودہ نہر اپرجہلم کے شمال سے لیکر منڈی بہاؤ الدین سے میلوں نیچے تک تھا۔ سکندر کی فوج مزار شریف سے نیچے اُتری تو اُسکے دستے چترال سے میلوں دور شمال میں گلگت تک پھیلے ہوتے تھے۔ اسی طرح جنوب میں اُن کا پھیلاؤ وادی تیرہ سے کوہ سوالک کے ساتھ ہوتا ہواسالٹ رینج اور آگے دریائے جہلم تک تھا۔ تارڑ صاحب عظیم داستان گو، ناول نگار اور سفرنامہ نگار ہیں۔ قلعہ جنگی کی کہانی اپنی جگہ درست ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ جنگی تاریخ کے بھی ماہر ہوں۔