Site icon Daily Chitral

’’ضرب استاد بہ ز مہر پدر‘‘۔۔۔۔محمد جاوید حیات

چاند چاند بچوں کے پھول پھول چہروں کو نکھار نکھار کر والدین ڈھیر ساری آرزوں سمیت علم کی روشنی حاصل کرنے کے لئے سکول بھیجتے ہیں ۔سکول میں استاد ان کو تعلیم و تعلم کے مراحل سے گزارتا ہے ۔یہ استاد خود محسوس کرتا ہے کہ کس طرح گزارتا ہے ۔۔تعلیم و تعلم ایک مسلسل اور ہمہ جہت عمل ہے ۔۔دنیا کے عظیم اساتذہ اور عظیم شاگردوں کی عجیب عجیب داستانیں ہیں ۔استاد ایک انسان ہے اس کا سلوک فرشتوں جیسا نہیں ہو سکتا ۔ شاگرد بھی انسان ہے ۔اس کا رویہ بھی ہر کمزوری سے پاک نہیں ہو سکتا ۔۔یہ بات تو لازم ہے کہ تربیت کے اس کھٹن مرحلے میں استاد کی طرف مار اورپیار دونوں طرح کی سرگرمیاں بعید از امکاں نہیں ۔۔استاد نہ غلطی برداشت کر سکتا ہے اور نہ مار سے پیار کرتا ہے ۔۔’’تربیت ‘‘ تعلیم سے بھی اہم چیز ہے ۔۔بچے کی فطرت میں تعمیر اور تخریب دونوں قسم کے جذبات موجود ہوتے ہیں ۔۔تخریب کے جذبے کو تعمیر میں بدلنے کے لئے بڑے مشکل مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے ۔۔استاد کے سامنے چلینجزہو تے ہیں ۔۔بچہ معاشرے کا حصہ ہے ۔ماحول کا پروردہ ہے خاندان کی تربیت یافتہ ہے ۔دوست احباب کے درمیاں اٹھتا بیٹھا ہے ۔۔خود اس کے اپنے جذبات اوراحساسات ہیں ۔اور بہت سارے مسائل ہیں ۔اس مرحلے پر استاد کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔۔چترال میں ایک استاد کے ہاتھوں بچوں کو سزا ہوئی ۔۔سزا دنیا بری بات ہے ۔۔بچوں سے پیار کرنا چاہئیے ۔۔لیکن تربیت کے مرحلے میں وہ کون مائی کا لعل ہے ۔۔جس کا بیٹا کل جاکے چور ڈاکو بن جائے ۔اور وہ اس بات سے خوش ہوجائے ۔جاہل ان پڑھ ہو جائے ۔۔والدیں خوش ہوں ۔اس مرحلے پر والدین کف افسوس ملتے ہیں اور ان کو یہ کہتے سنا گیا ہے ۔۔میرے ابو ٹیچر تھے۔۔۔ انگریزوں کے زمانے کا پڑھا ہوا عظیم ٹیچر ۔۔اور سکول میں میرے اساتذہ ۔۔۔میرے پی ای ٹی استاد کی مار کے نشان اب بھی میرے ہاتھوں پر اور جسم کے دوسرے حصوں میں موجود ہیں ۔مگر میرے استاد کو اللہ عریق رحمت کرے ۔۔کون ہے جو تعلیم و تعلم کے اس عمل میں مجھ جیسے مار نہیں کھائی ۔۔ میرے بھری کلاس میں مجھے سزا دیتے ۔۔آج سارے وہ طلباء جو زندگی کو انجائی کر رہے ہیں ۔۔وہ اس مار اور پیار سے گزر کر اس مرحلے تک پہنچے اور اس استاد کو عقیدت کے پھول پیش کر رہے ہیں ۔۔آج کل کے اس فیشن ایبل دور میں ہمیں مصنوعی پیار ،تباہ کن غفلت لاپرواہی اور بے اغتنائی کے عذاب کا سامنا ہے ۔۔نوجواں نسل بگڑ رہی ہے ۔اس کی تربیت کی پرواہ کسی کو نہیں ۔اولاد اگر اپنے والدین کا باغی بن جائے تو استاد کیا کرے ۔۔اگر تربیت میں سزا کا مرحلہ آجائے تو لازم ہے ۔فخر موجوداتﷺنے فرمایا کہ اپنے گھر میں چابک لٹکائے رکھو۔۔۔وہ مشہور واقعہ جو حضرت ابو بکر صدیقؓ کسی کوتاہی پر حضرت عائشہؓ کو مارنے پر تیار ہوئے رسول مہربانﷺنے بیچ بچاؤ کیا ۔۔بعد میں حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ میں نے کیسے تمہیں بچایا۔۔یہ جملہ پیار میں ڈوبا ہوا ہے ۔۔
سرکاری سکولوں میں چائلڈ پروٹکشن اکٹ 2010کے تحت جسمانی سزا پر پابندی ہے ۔نجی سکولوں میں کوئی پوچھتا نہیں ۔۔سزا کے غلط ہونے پر میرا کوئی کلام نہیں مگر مجھے اس بات پہ افسوس ہے کہ معصوم بچوں سے ہمدردی رکھنے والوں کواستاد کی مار کے علاوہ وہ سب کچھ کیوں نظر نہیں آتا۔جو آج کا بچہ سہ رہا ہے ۔۔وہ ننگے پیر بچے جو بغیر جوتے کے ہیں ۔۔وہ سردی میں ٹھٹھرتے بچے ،وہ معصوم اور تعلیم سے محروم بچے ،وہ بیمار بچے جن کا علاج نہیں ہوسکتا ،وہ مظلوم خواتین ،کسی انسانیت سے پیار کرنے والی تنظیم کو کیوں نظر نہیں آتے ؟۔۔کسی ادارے کو کسی احسان جتانے والی شخصیت کو ،کسی این ،جی، او کو کیوں نظر نہیں آتے۔کسی غیر سرکاری ادارے کے انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے اہلکار نے ’’ظالم ‘‘کے خلاف اپنا فرض نبھاتے ہوئے ویڈیو سوشل میڈیا میں ڈالا۔اور بڑا کارنامہ انجام دیا۔انھوں نے چترال کے استاد کو پوری دنیا میں دہشت کا نشان بنا کر کارہائے نمایاں انجام دیا۔اگر ان سزایافتہ بچوں سے اس ظالم استاد کے بارے میں پوچھا جائے ان کے والدین سے پوچھا جائے ان کی تعلیمی حالت کا جائزہ لیا جائے تو بات واضح ہو جائے گئی کہ یہ استاد واقع سفاک تھا یا ان کی تعلیم و تربیت میں ان کا بھر پور حصہ تھا ۔وہ کس نیت سے سزا دینے لگا تھا ۔۔جس انداز سے سزا دے رہا ہے یہ واقع مناسب نہیں لیکن یہ استاد کی سزا ہے دنیا جانتی ہے کہ استاد کی سزا کے پیچھے خلوص کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔استاد نے ان بچوں کو روزانہ دیر سے آنے پر سزا دی سوال ہے کہ یہ پھول جس گھر سے آرہے تھے ۔کیا ان والدیم پر کوئی زمہ داری نہیں کہ اپنے بچوں کو وقت پہ سکول بھیجیں ۔مجھے مار سے کبھی پیار نہیں ہوا اور نہ کبھی ہاتھ میں ڈنڈا لیا مگر جب لوگوں کو بہانہ ملتا ہے تو پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔عجیب بات ہے کہ اسی استاد کے سینئر شاگرد اس کو مثالی استاد کہتے ہیں۔اور جس کو حقیقت کا پتہ نہیں وہ اس کو کیا کیا ناموں سے پکارتا ہے ۔اس کی سزا دینے کا ویڈیو دیکھ کر میں نے بھی آنکھیں بند کی مجھے لگا کہ پھول مسلے جا رہے ہیں ۔مگر خلقت اس کے پیچھے پڑی تو عجیب لگا کہ اساد ہی فور پرنٹ پہ کیوں ہے ۔ استاد کے علاوہ ساری دنیا سدھر گئی ہے ۔۔۔۔حکومت کا یہ اقدام کہ بچوں کو پیا ر سے پڑھاؤ ایک مہذب ریاست کا احسن اقدام ہے ۔اس کی قدر اساتذہ کو کرنی چاہئے مگر والدین کو بھی چاہئے کہ استاد کو اڑے ہاتھوں نہ لے کیا اس معاشرے میں کوئی ایسا تعیلم یافتہ فرد ہے جس کا کوئی استاد نہیں ہے اگر ہے تو احترام کس تھیوری کا نام ہے ؟۔۔۔۔۔

Exit mobile version