492

ہندوستان کو سبق سکھانے کیلئے چترال کے حوالے کیا جائے ۔۔۔عنایت اللہ اسیر پروگرام کوارڈینٹرRABT مانسہرہ

چترال اب بھی نہ پاٹا ہے نہ فاٹا ہے اور مکمل طور پر ضلع کی حیثیت میں ہے ۔چترال کی بارڈر فورس نے کمانڈر انچیف شہزادہ برھان الدین کی قیادت میں اور چترال اسکاؤٹس کے شیر دل سپاہیوں نے میجر شہزادہ مطاع الملک فاتح اسکردو کی قیادت میں 1948 ؁ء میں کشمیر کے محاذ پر ہندوستان کی جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کو مقبوضہ کشمیر کے ہر محاذ پر ناک میں دم کر کے کشمیر سے چلے جانے پر مجبور کیا تھااور اگر خان لیاقت علی خان کشمیر میں یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان نہ کرتے تو آج مقبوضہ کشمیر نام کا کوئی علاقہ ہندوستان میں نہ ہوتا۔
ہندوستان سے کشمیر کو جانے والے تمام راستے کاٹ کر صرف ایک راستہ باقی رہ گیا تھا جس کو منقطع کرنے کی تیاری میں مصروف چترال بارڈر فورس اور چترال اسکاؤٹس کے جنگ جُو سپاہی اپنے کمانڈروں کی سرپرستی میں آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک جنگ بندی کا اعلان رانا لیاقت علی خان کی سفارش پر کیا گیا۔
چترال کے ان بہادر مجاہدین کی اولاد آج بھی ہندوؤں کو سبق سکھانے کے لئے بے تاب ہیں اور ہر چترالی باشندہ کشمیر کے متعلق پوچھ رہا ہے کہ ہمیں کب اجازت ملے گی تاکہ ہم اپنے مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھائی بہنوں ، معصوموں اور سفید ریش افراد کی مدد کو پہنچ سکیں اور اپنا بچا کھچا کام مکمل کر کے جنت نظیر وادی کشمیر کو ہندوؤں کے غاصبانہ ،ظالمانہ اور غیر منصفانہ تسلط سے مکمل آزاد کروا سکیں گے۔
فاتح اسکردو میجر شہزادہ مطاع الملک کے فرزندان اور کمانڈر انچیف شہزادہ برھان الدین کی آل اولاد اپنے آ باء و اجداد کی نامکمل فتح کو مکمل فتح میں تبدیل کرنے کے لئے بے تاب ہیں ۔ اور دنیا کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ چترال کے باشندے فری اسٹائل پولو جنگی جنون سے کھیلتے ہیں ۔اور شکار کرنا ، کُشتی کرنا ، پہاڑی دوڑ ، بغیر لائف جیکٹ کے دریا پار کرنا اور تمام جنگی صلاحیتوں سے مستقل آراستہ رہتے ہیں اور چترال کے باشندوں کو کسی جنگی مشق کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
عام طور پر نرم مزاج ، نرم خو ، نرم گو چترالی خفتہ آتش فشاں کی طرح جب پھٹ پڑتے ہیں تو پھر اپنی موت اور دوسروں کی موت کا ان کو کوئی خیال نہیں رہتا ۔ دراز ، کارگل اور سیاچین کے محاذ پر اور قبائیلی علاقوں باجوڑ ، مہمند ایجنسی ، درہ آدم خیل اور باڑہ کے محاذ پر ہمارے جوانوں کی بہادری کے نشان موجود ہیں۔ہمارے علاقے اوژور کے ایک حوالدار کا جسد خاکی (Dead Body ) ہندوستان کے اندر تقریبا سترہ 17 کلو میٹر گھس کر اٹھایا گیا تھا جس نے اگلے مورچوں میں جا کر دشمن کے سپاہیوں کا مقابلہ کیا تھا۔ مگر صد افسوس کہ ہمارے چترال ملیشیاء کے جوانوں کو ان کی بہادری کے مطابق اعزازات سے نہیں نوزا گیا اور ہم اعزازات ، انعامات ، تمغوں ، کسی لالچ اور غرض سے بالاتر ہو کر ارض پاک کے لئے جان دینے اور جان لینے کو اپنا اعزاز اور تمغہ سمجھتے ہوئے پیارے ملک کے دفاع میں ہر محاذ پر لڑتے رہیں گے۔
چترال کی ہر بستی میں جہاد کشمیر کے لئے نوجوانوں کی ٹولیاں گفتگو کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کمانڈنٹ کا بیٹا کمانڈنٹ ، میجر کا بیٹا میجر ، صوبیدار میجر کا بیٹا صوبیدار میجر ، لیفٹیننٹ و کیپٹن کے بیٹے ان عیدوں پر سپاہی کا بیٹا سپاہی بن کر صرف حکومت پاکستان کی اجازت کے منتظر ہیں ہم ایک ہفتہ کے اندر ہزاروں کی تعداد میں منظم ہو کر کشمیریوں پر مظالم کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے کمر بستہ ہیں۔ ہندوستان ہوش کے ناخن لے کر اپنے حکمرانوں کو گیدڑ بھبکیوں سے باز آجائیں مضبوط پاکستان ہی مضبوط ہندوستان کا ضامن ہے۔
ورنہ منگول ، چیچنیا ، تاجکستان ، افغانستان اور ایران کے تمام مسلمان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کو پہنچ جائیں گے اور ہم ان کا راستہ نہیں روک سکیں گے ۔ پھر افغانستان میں جو حشر کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں روس کا ہوا تھا وہی انجام ایٹمی طاقت ہندوستان کا منتظر ہو گا ۔ اور کشمیریوں پر مظالم کہیں ہندوستان کو بھاری نہ پڑ جائیں اور ہندوستان خود دس(10) ٹکڑوں میں نہ تقسیم ہو جائے۔
لہٰذا تاریخ سے سبق لیکر اپنے باشندوں کے لئے تعلیم ، صحت ، رہائش اور صرف کھانے کا بندوبست کر نے کے بجائے بزور شمشیر کشمیریوں کو غلام رکھنے کا انجام خود ہندوستان کی تباہی کا سبب نہ بن جائے۔یقیناًہندوستان میں بسنے والے تیس کروڑ (30,00,00,000 ) سے بھی زیادہ مسلمان بھی اپنے مظلوم کشمیری مسلمان بھائیوں پر مظالم کو خاموش تماشائی بن کر لمبی مدت تک نہیں دیکھ سکیں گے۔
کروڑوں کی آبادی میں سے اگر ایک لاکھ ہندوستانی مسلمان بھی جاگ اٹھے اور اپنی مذہبی ذمہ داری اور اسلامی فریضہ کو نبھانے پر اتر آئے تو مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج اپنے ہی شہریوں کو کب تک قتل کرتا رہے گا۔
اور کہیں ایسا نہ ہو کہ انڈین آرمی کے مظالم کے اثرات پورے عالم اسلام میں جہاد کے جذبے سے سرشار نوجوانوں کو جگائے اور روس کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں لڑنے کے لئے آنے والے مجاہدین کا رخ ہندوستان کی طرف اگر مڑ گیا تو پھر بنگال تک ان کی رسائی کو ہزاروں کلومیٹر خشکی اور سمندری راستوں کو کنٹرول کرنا مودی سرکار کے بس کی بات نہ ہو گی اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے نشے میں کہیں ہندوستان خود ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جائے۔
ہندوستان کا یہ دعویٰ کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان دراندازی کر رہا ہے مضحکہ خیز ہے کیونکہ 1947 ؁ء سے لیکر آج تک مقبوضہ کشمیر میں 70 سال تک کے ایک پاکستانی کا جنازہ یا زندہ ہندوستان دنیا کو نہ دکھا سکا۔ مقبوضہ کشمیر کے اپنے باشندے ہی ہندوستان کے خلاف جہاد کو سعادت سمجھ کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اگر ہندوستان کے مسلمان اور پاکستان کی مسلمان آبادی جو کل ملا کر پچاس کروڑ کے لگ بھگ ہوگی اگر اس پچاس کروڑ کی آبادی میں سے پانچ لاکھ جوان بھی جذبہ جہاد سے سرشار ہوئے تو دو ہزار پانچ سو 2500 کلومیٹر لمبی باؤنڈری لائن اور ہزاروں میل لمبی سمندری حدود کو کنٹرول کرنا دونوں ملکوں کے بس کی بات نہ ہو گی۔
یاد رہے کہ ہندوستان اس زعم میں دھوکہ نہ کھا جائے کہ امریکہ نواز افغان حکومت سے اس کی پکی دوستی ہے حقیقت میں کوئی ایک بھی غیرتی افغان مسلمان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف جنگ میں ہندوؤں کا ساتھ نہیں دے گا۔اور اپنے مسلمان کشمیری بھائیوں کی ہندوؤں کی غلامی سے آزادی کے لئے اپنے مسلمان مظلوم کشمیری بھائیوں کی مدد کو اپنا اسلامی ، دینی ، اخلاقی فریضہ سمجھیں گے ۔ مسلمان اور افغان ہو کر ہندوؤں کا ساتھ دینا سمجھ سے بالاتر اور اسلامی غیرت کے منافی ہوگا۔
لہٰذا پاکستان سے دوستی ہی میں ہندوستان کی بقاء اور سلامتی کا راز چھپا ہے ۔ہندوستان پاکستان سے دوستی کر کے ہی دہلی ، لاہور ، افغانستان ، ایران ، تاجکستان اور چین تک مختصر ترین زمینی راستہ سے گیس اور بجلی کی لائینیں اپنے وسیع ملک میں پہنچا سکتا ہے اور پورے یورپ ، ایشیاء اور وسط ایشیاء کے تمام ممالک تک زمینی راستے کی سہولت حاصل کر سکتا ہے ۔ پاکستان کو ہندوستان کے خلاف ایٹم بم استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی صرف ہندوستان کے تیس کروڑ مسلمان باشندے اور دنیا کی عظیم بہادر سکھ برادری جو ہندوؤں کی عصبیت سے تنگ آ چکے ہیں اگر کھڑے ہو گئے تو تاج برطانیہ کو شکست دینے والی قوم کے لئے ہندوؤں کو دوبارہ غلام بنانا کوئی مشکل نہ ہو گا۔اور پھر اچھوت اور شودر کو ہندو عصبیت کے نیچے زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے ۔درختوں کے پتے پر ان کے جوانوں کو بیدردی سے قتل کیا جاتا ہے بہت ممکن ہے کہ اچھوت اور شودر ایک ساتھ کلمہ ء حق پڑھ کر باعزت اسلامی اور انسانی تہذیب میں شامل ہو کر روئے زمین پر اللہ تعالٰی کا خلیفہ ہو کر باعزت زندگی مسلمانوں کے ساتھ گذارنے کا فیصلہ کر لیں اور تاریخ 70 برس بعد دوبارہ برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کی سپر پاور حکمرانی کا خواب دہرائے گی۔
اور برصغیر کے تمام مسالک ، مذاہب ، علاقے اور ہر رنگ و نسل کے باشندے مختلف زبانیں بولتے ہوئے بھی آپس میں شیر وشکر ہو کر امن و آشتی ، عزت و تکریم ، رواداری ، برداشت اور ہندوؤں کے جنگی جنون سے نکل کر اطمینان اور سکون کی زندگی گذاریں گے۔
تاریخی حقائق سے چشم پوشی مودی سرکار کو دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑے گی۔ اس لئے ہندوستان کے تمام مذاہب کے قائدین اور سیاسی بصارت و بصیرت رکھنے والوں کو اگر ہندوستان عزیز ہے تو ہندوستان سے نسلی تعصب ، رنگ و نسل کے فرسودہ منافرتین کو چھوڑ کر ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی بھائی بھائی مودی چلے جاؤ کا نعرہ لگانا ہو گا۔
اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیکر ان کے اکثر یتی فیصلے کو پاکستان اور ہندوستان دونوں کو ٹھنڈے دل سے قبول کرنا ہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہوگا ۔ میاں نواز شریف کا پتلا جلانے کے بجائے گفت و شنید کی میز بچھانے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں