افضل علی امان ۔۔۔ ایک اور عہد تاریخ ہوا/افضل علی واقع میں افضل تھا۔ تحریر: نورالھدیٰ یفتالیٰ
ریاست چھترار کے زمانے میں جب دو جوان فرنگی ڈرس اپ میں چترال میں داخل ہوئے تو ہر کوئی مہتر چترال تک یہ پیغام پہنچانے میں سرگرم رہے کہ چھترار میں فرنگی کپڑوں میں ملبوس دو جوان داخل ہوئے ہیں وہ شکل صورت سے کوئی چھتراری نہیں دیکھ رہے ہیں ،پنٹ شرٹ زیب تن کئے ہوئے ہیں مہتر چترال نے فورا اپنے کارندوں کو ان کی تعاقب میں بھیجا ، اِن جوانوں کو مہتر کے دربار میں لایا گیا، مہتر چھترا ر کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ دو خوب صورت جوان فرنگی کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور بڑے اطمینان اور تحمل کیساتھ مہتر چترال کے سوالوں کا جواب دے رہے ہیں ،ان دو جوانوں میں ایک جوان وقت ضائع کئے بغیر مہتر چترال کے سوالوں کا جواب دے رہا ہے اور دوسرا جوان تحمل کیساتھ کھٹرا یہ ساری گفتگو سن رہا ہے۔مہتر چترال نے نظر اٹھا کر اس خاموش کھڑے نوجوان کی طرف دیکھا اور بولا آپ کیوں نہیں بولتے ہیں، خاموش کیوں ہو، تو اِس کے جواب میں سامنے کھڑے خاموش جوان نے کہا، حضور آپ میرے بڑے بھائی سے مخاطب ہیں ، آپ کی گفتگو اور آپ کی نظر میرے بھائی پر ہے ،اس لئے خاموش ہو،حضور آپ ابھی مجھ سے مخاطب ہوئے ،مہتر اس جوان کی انداز گفتگو لہجے کی نرمی سے متاثر ہوئے اور کہنے لگے چترال میں بھی بہت جلد بمبئی سے اچھے درس گاہ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
حضور یہ آپ کا بڑا پن اور چترالی قوم آپ کا احسان مند رہے گا ،خاموش کھڑا جوان اٖفصل علی آمان تھا۔
آفضل علی 1934 میں آفضل امان کے گھر جنم لی،ننھیال اس کی غذر چھشی میں تھا۔1946 کے عشرے چترال میں تعلیم کی راہ میں حائل روکاوٹوں کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے متحدہ ہندوستان بمبئی چلے گئے،بمبئی سے واپسی پر جامعہ کراچی سے فارسی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی،1952 کی دہائی میں مرحوم افضل علی کی والد گرامی نے بونی میں پہلے سکول کا قیام عمل میں لایا،افضل علی اور سردار علی آمان نے تقریبا 9 سال تک اسی سکول میں اپنے علاقے کے بچوں کو پڑھاتے رہے، سکول میں خواتین کو بھی پڑھانے کا ذمہ اٹھا لیا تعلیم کے راہ خاص کر خواتین کو پڑھانے کے حوالے سے کچھ ایسے حالات بھی پیدا ہوئے مگرتاہم علم کا سفر جاری رہا۔
1961 میں افضل علی بطور سیکرٹری اسماعیلی کونسل میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے،اور 4 مرتبہ اسماعیلی ریجنل کونسل کے صدر بھی رہے،چترال میں آغا خان ڈویلپمنٹ فاونڈیشن کیساتھ ملکر فلاحی کاموں کا جال بچھایا، وہ آغا خان رورل ڈویلپمنٹ پروگرام کے بورڈ ممبر بھی رہ چکے ہیں جبکہ چترال میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے امن کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے بھی اپنی بہتریں خدمات دے چکے ہیں۔1970 میں وہ بالائی لیگ کے نام سے ایک مقامی سیاسی تحریک میں بطور سیکرٹری رہے اس تحریک میں وہ چترال کے بینادی حقوق اور مسائل کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کی،ہر پلیٹ فارم پر ہر مکتب فکر کے افراد کیساتھ ملکر مسلکی سماجی مسائل کو مثبت روئے کیساتھ اجاگر کرتے رہے وہ ایک مثبت کردار کے شخصیت تھے ، 1982 میں چترال میں بین المسالکی تنازعے کے حل میں افضل علی کا کردار بہت ہی مثبت رہا ہے۔وہ امن کا داعی تھا۔
تعلیم کے ساتھ لگاو تھا ، اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ موجود ہ وقت کی بہتریں درس پامیئر پبلک سکول بونی کا قیام مرحوم افضل علی کی کاوشوں کا ثمر ہے،اس درس گاہ کی تعمیر کے لئے مرحوم افضل علی نے اپنی ذاتی زمین بھی مختص کی، اس درس گاہ سے فارع التحصیل طلباوطلبات پاکستان کے بہتریں اور معتبر اداروں میں ملک قوم کی خدمات انجام دے ہیں۔ خواتین کی تعلیم پر بہت زور دیتے تھے،جب بھی کسی محفل میں بات کرنے کا موقع ملتا تعلیم اور علم حاصل کرنے کی درس دیتے تھے۔
چترال کی مسائل کو مزید بہتر انداز سے حل کرنے کی غرض سے وہ پاکستان مسلم لیگ کی ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے لئے قسمت ازمائی کی اور اپنے منشور کو چترالی قوم کے سامنے پیش کیا ،مگر سیاسی قسمت بہت کم لوگوں کا ساتھ دیتا ہے۔ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔اور باخبر رہتے تھے۔
زندگی کے آخری ایام میں مرحوم سے آخری ملاقات اس کے والد ہ مرحومہ کے مرقد واقع چھشی میں حاضری کے لئے جاتے وقت ہرچین میں شرف حاصل ہوا۔ خاموش ،کم گو،نرم لہجہ ،علمی سوچ، بااصول شخصیت افضل علی واقع میں افضل تھا، 90 سالہ افضل علی بھر پور شاندار زندگی گزاری۔افضل علی امان کواسماعیلی کونسل برائے پاکستان کی جانب سے ان بہترین خدمات بدلے انہیں رائے الجا کی ٹائیٹل سے بھی نوازا گیا /p>
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے