دادبیداد…داخلوں کاموسم…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
داخلوں کاموسم ہرسال آتاہے اور گذرجاتا ہے،طلبہ،طالبات اور والدین کے لئے اس موسم میں کئی واہمے ہوتے ہیں بے شمار پریشانیاں ہوتی ہیں سکولوں اور کالجوں کی سطح پر طبلہ اور والدین کی مناسب رہنمائی یعنی معروف معنی میں کیرئیر کونسلنگ کا رواج اور دستور نہ ہونے کی وجہ سے مناسب جگہ پر موزوں اور مناسب مضامین کا انتخاب کرکے طالب علم کو داخل کروانا ایک مشکل مسلہ ہوتا ہے اور اس مشکل مرحلے میں غلط جگہ یا غلط مضمون کا اتنخاب آگے جاکر علمی ترقی اور کامیاب زندگی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے، اگرچہ پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں نے کیرئیر کونسلنگ کا شعبہ کھولاہواہے مگر ان کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر ہے اور یہ سہولت صر ف امیر طبقے کو حاصل ہے اس لئے ذرائع ابلاغ کی وساطت سے ما ہرین تعلیم کے ذریعے داخلوں کے موسم میں طلبہ اور والدین کی رہنمائی بہت ضروری سمجھی جاتی ہے جب تک تعلیمی اداروں میں ایسی رہنمائی کا مربوط اور منظم طریقہ کار اختیار نہیں کیا جاتا تب تک اس کمی کو ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹیلی وژن اور اخبارات کے ذریعے پوراکیا جائے گا، عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے میں داخلے کے وقت مضمون کا انتخاب والدین یا سرپرستوں کی ذمہ داری ہے حالانکہ یہ حقائق کے منافی ہے 16یا 18سال کی عمر میں امتحان پاس کرنے والا چاہے میٹرک کا طالب علم ہویا انٹرمیڈیٹ کا ہو دونوں صورتوں میں وہ اپنے لئے موزوں شعبے کا انتخاب کر سکتاہے نتیجہ وہی بہتر آئیگا جو طالب علم کا انتخاب ہوگا ماں باپ اور سرپرست اپنی مرضی اُس پر تھوپنا چاہینگے تو نتیجہ بہتر نہیں ہوگا، کیرئیر کونسلنگ کے ماہرین نے اس موضوع پرلٹریچر کابڑا ذخیرہ تخلیق کیاہے ماہرین کی نظر میں طالب علم کے ذہنی میلان اور رجحان کا پتہ پرائمیری جماعتوں میں ہی لگ جاتاہے چین اور جاپان میں پرائمیری سطح کی تعلیم ساتویں جماعت تک ہوتی ہے ساتویں جماعت کے بعد والدین اور طلبہ سکول کے اساتذہ کی رہنمائی میں طے کرتے ہیں کہ آگے کیا کرنا چاہئیے جن طلبہ کا ذہنی میلان حیوانات و نباتات کی طرف ہوتا ہے ان کو میڈیکل کا شعبہ دیا جاتا ہے جن کا رجحان چاند،تاروں اور پہاڑوں کی طرف ہوتا ہے ان کو انجینئرنگ کا شعبہ دیا جاتا ہے اس کے بعد دوسرے شعبوں کے لئے طلبہ کا انتخاب کیا جاتا ہے 80فیصد طلبہ رہ جاتے ہیں ان کے لئے کھیل، جمناسٹک، ووکیشنل ٹریننگ، فنی مہارتیں، ٹیکنکل سکلز کا انتخاب کیا جاتا ہے اس طرح طلبہ کی تین چوتھائی تعداد یعنی بھاری اکثریت پرائمیری تعلیم کے دو سال بعد کام میں لگ جاتی ہے زراعت کے جدید فارموں اور کارخانوں کا رخ کرتی ہے یا سپورٹس کلبوں میں مصروف ہوتی ہے صرف 20فیصد کو ان کی دلچسپی کے 16 یا 18سال کی اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں بھیجا جاتا ہے اس کے دو فائدے ہیں پہلا فائدہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے اعلیٰ اداروں میں طلبہ کا غیر ضروری رش اور جمگھٹا نہیں ہوتا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ افرادی قوت ضائع نہیں ہوتی، کام میں لگ جاتی ہے ہر نوجوان کمانے والا اور پیدا وار دینے والا ہوتا ہے جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار اورفی کس آمدنی میں وافر حصہ ڈالتا ہے اس کے مقابلے میں اگر ایک طالب علم کا رجحان کھیل کی طرف ہے ماں باپ اس کو اپنی تمنا اور آرزو کی تکمیل کے لئے میڈیکل یا انجینئرنگ کی طرف دھکیلتے ہیں تو نوجوان ضائع ہوتاہے یا کسی طالب علم کا رجحان فنون لطیفہ، آرٹ، موسیقی، شاعری،اداکاری وغیرہ کی طرف ہے مگر والدین اس کوISSB،سی ایس ایس اور پی ایم ایس کی طرف ہانک کر لے جاتے ہیں تو اس کا مثبت نتیجہ نہیں آتا، اسی پر دیگر شعبوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے، داخلوں کے مو سم میں سب سے مقدم طالب علم کی رائے ہے اس کی دلچسپی کس مضمون اور کس شعبے میں ہے اس کو اولیت ملنی چاہئیے اس کے بعد طالب علم کے نتیجے میں جس مضمون کے نمبر زیادہ ہونگے وہی مضمون بہتر رہے گا، تیسرے درجے میں قابل غور بات یہ ہے کہ سولہ سال کی اعلی تعلیم کے مقابلے میں دو سال یا چار سال کی فنی تعلیم، ٹیکنیکل ایجوکیشن طالب علم کے لئے بہتر ہے یہ داخلوں کا موسم ہے اس لئے طلبہ کو بھی اور والدین کو بھی درست ترجیحا ت کا تعین کرناہوگا۔