نواز مدنی …ایک تاریخ ساز ہمہ جہت شخصیت ۔۔۔۔۔ارسطو کا قول ہے کہ
میں نے دنیا کے عظیم لوگوں کو غریب کی جھونپڑیوں سے نکلتے دیکھا
دنیا کے عظیم انسان مشکلات و مصائب کو جھیل کر شہرت و عظمت کی بلندیوں تک پہنچے اور پھر تاریخ میں امر ہو گئے ،
یہ الله تعالیٰ کی دیں ہے کہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے نہ دے ۔
آج میں قارئین کرام کو ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت سے متعارف کرانے جا رہا ہوں جنکی زندگی ایسے ہی نشیب و فراز سے گزر کر ایسے مقام تک پہنچی ہے کہ جسے ہم یقین محکم اور عمل پہیم کا عملی نمونہ کہیں تو مبالغہ نہ ہوگا ۔
حافظ محمد نواز مدنی صاحب چترال کی ایک معروف دینی و سماجی اور علمی شخصیت ہیں ،آپکا تعلق اپر چترال کے ایک پسماندہ علاقہ گازیں یارخون سے ہے ۔آپ نے گازیں گاؤں کے خیبرے قبیلے میں غواث خان کے ہاں سن 1981 میں آنکھ کھولی،ان کے والد کا شمار اپنے علاقے کے معززین میں ہوتا تھا اور والد پیشے کے لحاظ سے زمیندار تھے ۔
مدنی صاحب دس سال کے تھے کہ انکے والد محترم ایک حادثے میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے اور یہاں سے مدنی صاحب کی زندگی میں نہ ختم ہونے والی مشکلات و مصائب کا سلسلہ شروع ہوا ۔والد کی وفات کے بعد مدنی صاحب روشنی کی تلاش میں ایک طویل سفر پہ نکلے اور سب سے پہلے آپ نے لوئر چترال کے معروف دینی درسگاہ تعلیم القرآن تبلیغی مرکز پولو گراؤنڈ میں 14 اگست 1997 میں داخلہ لیا اور لگ بھگ سال تک یہاں بنیادی دینی تعلیم کی حاصل کی ،اس ادارے میں جن صاحباں علم و عرفان نے آپکی ذہنی آبیاری کی ان میں مولانا محمد اشرف صاحب مرحوم
قاضی نثار احمد صاحب مرحوم
مولانا مبارک شاہ مرحوم شامل ہیں ،اس کے علاؤہ قاری شمش الدین صاحب اور عزیز الرحمن صاحب نے دینی علوم کے حصول میں آپکی معاونت کی ۔
یہاں سے قاری صاحب سن 1998 میں کراچی کوچ کرگئے وہاں جانے کے بعد آپ نے دینی مدرسہ دارلعلوم فاروق اعظم جو کہ معروف دینی درسگاہ سائیڈ بنوریہ کی شاخ تھی میں داخلہ لیا جہاں سے قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کی ،اس ادارے میں شیخ الحدیث مفتی عبد الحمید تونسوی صاحب اور مفتی فلک شیر صاحب، آپکے اساتذہ کرام میں شامل تھے ۔مدنی صاحب واپس چترال آئے کچھ عرصہ دار العلوم رحمانیہ جغور میں دینی علم کی تکمیل کی اور یہاں مدنی صاحب کی عملی و پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ہوا ۔سب سے پہلے مدنی صاحب نے مشہور گاؤں بکامک ڈوم شعور میں واقع دینی مدرسے میں معلم اور امام مسجد کی حیثیت آئے اور آپ اسی مسجد سے متصل مدرسے میں مقامی بچوں کو کئی سال تک قرآن وحدیث کی تعلیم دیتے رہے ، یہ مسجد و مدرسہ ہمارے گاؤں کے معروف بزرگ شخصیت عبد القیوم بیگ صاحب نے افغان مہاجرین کے لیے بنوایا تھا بعد ازاں آپ گاؤں بکامک بیابان کی مسجد میں منتقل ہوئے اور اس مسجد کی تعمیر وترقی و آبادی کاری میں مدنی صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا اور یہاں بھی کئی سال تک قرآن وحدیث کی روشنی پھیلاتے رہے ۔ سات سال تک قرآن وحدیث کی روشنی پھیلانے کے بعد موصوف کاری میں واقع اپنے گھر منتقل ہو گئے اور ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ میں بھی اس زمانے میں قاری صاحب کے شاگردوں میں شامل تھا ۔
جہاں تک میں قاری صاحب کو جانتا ہوں وہ ایک منکسر المزاج اور پرجوش طبیعت کے مالک ہیں ،انکی طبیعت میں شوخی و ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور ہر خاص و عام سے آپکا رویہ نہایت مشفقانہ اور ہمدردانہ ہوا کرتا ہے۔لیکن مدنی صاحب کی ایک کمزوری جو انکی شخصیت کا نمایاں وصف بھی ہے وہ انکا جذباتی پن ہے لیکن یہ جذبات زیادہ دیر پا نہیں ہوتے جو لوگ دل کے صاف ہوتے ہیں انکا جذباتی ہونا فطری معاملہ ہے ۔
مدنی صاحب شعلہ بیان مقرر اور بے بدل خطیب ہے اور خطابت میں بلا کی تاثیر اور روانی ہے ۔ان کی شخصیت کی خوبی یا خامی جو بھی کہ لے موصوف حد درجہ عجلت پسند ہے اور یہ عجلت پسندی انکی شخصیت کا ایک نمایاں عنصر بن گیا ہے ،،،جس کام بھی ارادہ یا اعلان کر لیا اس کے بعد قاری صاحب اس کام کی جلدی تکمیل تک چین سے بیٹھنے والے نہیں یہی وجہ کہ آپ نے بہت کم وقت میں کچھ ایسے دینی و علمی خدمات سر انجام دیے جنکی تکمیل میں لاکھوں روپے اور عشرے لگ سکتے ہیں ۔
موصوف ایک دینی شخصیت ہیں لیکن وہ زاہد خشک نہیں ،دوست احباب کی محفل میں آپ چٹکلے بازی میں بازی لے جاتے ہیں اور جس سے محفلوں کی بوریت دور ہو جاتی ہے ۔آپ صاف دل ہنس مکھ اور بے لوث شخصیت کے مالک ہیں ۔
ضلعی سیرت کونسل کا قیام اور خدمات
ہر مسلمان الله ،رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے عقیدت و محبت رکھتا ہے اور یہ فعل یقیناً ہم سب کے ایمان کا حصہ ہے لیکن یہاں چترال کے علماء و مشائخ کی دینی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
مدنی صاحب چترال میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں چترال کی سطح پہ باقاعدہ 2007 میں ضلعی سیرت کونسل کی بنیاد رکھی اور اب تک اس کونسل کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں پروگرامات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ،خلفائے راشدین کی سیرت و کردار اور امہات المومنین کی سیرت پر (مساجد ،سکولوں،چوکوں چوراہوں ،اور یونیورسٹیوں) میں منعقد ہو چکے ہیں اور ان پروگراموں میں ہر طبقہ فکر کے حضرات نے شرکت کی ہے جو کہ چترال کی سطح پہ اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے جس کے روح رواں قاری صاحب کی ہمہ جہت شخصیت ہے جنہوں نے اس عظیم مقصد کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے ،،اس سلسلے میں سب عظیم الشان پروگرام شاہی مسجد سے متصل پریڈ گراؤنڈ میں منعقد ہوا جس میں ہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی اور چترال سے لیکر صوبے بھر سے جید علماء ،سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی اور یہ کانفرنس اور اس کی کامیابی پر مدنی صاحب داد کے مستحق ہیں ۔آپ دوران طالب علمی میں اسلامک اسٹوڈنٹس موومنٹ سے وابستہ رہے اور یہاں چترال آنے کے بعد تنظیم اہل سنت والجماعت کے سیکرٹری اطلاعات اور پھر ضلعی جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے ۔
آپ کا ایک عظیم کارنامہ ضلعی سیرت کونسل کے علاؤہ اپنے آبائی علاقے جو کہ انتہائی دور افتادہ اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں واقع ہے وہاں ایک عظیم الشان جامع مسجد کی تعمیر ہے جنکی بروقت تکمیل میں یقیناً مدنی صاحب کی عجلت پسندی کام آئی اور اس کی تعمیر پہ لگ بھگ اسی لاکھ روپے خرچ ہوئے جسے ایک سال کے قلیل عرصے میں مکمل کروایا اور یہ ثابت کیا کہ جس انسان کی نیت رضائے الٰہی کا حصول ہو انکے رستے میں پہاڑ جیسے مسائل بھی رائی کا دانہ بن جاتے ہیں ،مدنی صاحب نے اس مسجد کی تعمیر کے لیے ایک سال تک اپنی تمام تر توانائیاں صرف کی تب کہیں جا کر ان دور افتادہ پہاڑوں میں اپنی نوعیت کی ایک خوبصورت اور دلکش جامع مسجد کی تعمیر ممکن ہوئی ،یہی نہیں اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر چترال بھر سے جید علماء کرام کا ایک قافلہ مدنی صاحب کی قیادت میں یارخون ویلی پہنچے جن میں سابق ایم پی اے مولانا عبد الرحمن صاحب ،خطیب شاہی مسجد مولانا خلیق الزماں صاحب معروف روحانی شخصیت مولانا امیر نواز صاحب ،مولانا فدا احمد صاحب اور شیخ صلاح الدین صاحب اس قافلے میں شامل تھے ۔
مدنی صاحب عجلت پسند ہیں اور چین سے بیٹھنے والے نہیں آپکا تعلق چونکہ اپر چترال کے مشہور خیبرے قبیلے سے ہے اور یہ قبیلہ اپر چترال کے مختلف علاقوں کے علاؤہ گلگت بلتستان ،واخان ،ترکستان اور افغانستان میں آباد ہے اور کھوار کے مشہور و معروف شاعر گل اعظم خان کا تعلق بھی اسی قبیلے سے تھا۔اس قبیلے کے حوالے سے چترال کے مشہور محقق پروفیسر ڈاکٹر عنایت الله فیضی صاحب ایک مستند کالم لکھ چکے ہیں ،،بدقسمتی سے اپر چترال میں قومی عصبیت پائی جاتی ہے اور اسی قومی عصبیت کی وجہ سے اپر چترال کے کچھ علاقوں میں دوسرے قبیلے اس قبیلے کو اپنی قومیت میں شامل کرنے پہ تلے ہوئے تھے تو اس نازک صورتحال سے نمٹنے کے لیے مدنی صاحب نے اس قبیلے کو یکجا کیا اور انہیں ایک پلیٹ فارم مہیا کر کے انکی شناخت کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا بہت سے حضرات جنکا تعلق اس قبیلے سے تھا احساس کمتری کے سبب خود کو دوسرے قبیلوں میں شمار کرتے تھے تو مدنی صاحب اٹھے آگے بڑھے قبیلے کے مشیران کو جمع کیا ،منظم کیا اور اپر چترال سے لیکر گلگت یاسین تک جہاں بھی اس خاندان کے افراد رہتے تھے سب کو منظم اور متحد کرنے کے لیے آپ نے اس قبیلے کی ایک رجسٹرڈ تنظیم بنا ڈالی اور اپنی انتظامی اور قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ایک سال کے اندر نہ صرف گلگت بلکہ اسلام آباد میں اس تنظیم کا ایک یادگار اور شاندار پروگرام کا انعقاد کرایا اور یوں یہ گمنام قبیلہ اور اسکے افراد مدنی صاحب کی متحرک شخصیت کے بل بوتے پر ایک دوسرے سے متعارف ہوئے ،