93

زنجیرِ عدل کہاں ہے؟ ۔۔۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

عدل رَبِ لَم یزل کی صفات میں سے ایک ممتاز صفت ہے جو حیات اور آفرینش کے تمام مظاہر میں دکھائی دیتا ہے۔ قُرآنِ مجید میں عدل اور اُس کے مترادف اصطلاح کو 22 مرتبہ استعمال کیاگیا ہے اور اسے مسلمانوں کی صفات میں اہم مقام حاصل ہے۔ فرمانِ ربی ہے ”ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق کے مطابق انصاف کرتا ہے“ (اعراف 181)۔ اب سوال یہ ہے کہ جس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور قراردادِ مقاصد جس کے آئین کا جزوِلاینفک ہے کیا وہاں عدل کی عملداری ہے، کیا وہاں بلاامتیازِ کہ ومہ عدل کاپیمانہ ایک ہی ہے؟۔
ہم نے سُن رکھا تھا ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“ لیکن عملی طورپر اِس محاورے کی سمجھ تب آئی جب قانون کو زورآوروں کے گھر کی لونڈی دَر کی باندی پایا۔ بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ قانون کاڈنڈا صرف مجبوروں، مقہوروں پر استعمال ہوتاہے اور ہمارے عدل کا پلڑا ہمیشہ زورآوروں کی طرف جھُک جاتاہے حالانکہ امیرالمومنین حضرت عمرؓ کاقولِ فیصل ہے کہ اگرعدل کاپلڑا زورآور کی طرف جھُک جائے تو پھر اسلامی ریاست اور قیصروکسریٰ کی بادشاہت میں کیا فرق ہوا۔ ماضی قریب ہمارے سامنے کہ سانحہ 9مئی میں اُن کی بھی 51سیکنڈ میں 51 ضمانتیں ہوگئیں جو مفرور تھے۔ خدیجہ شاہ اونچے گھرانے کی فردتھیں اِس لیے اُسے ضمانت مِل گئی لیکن صنم جاوید، عالیہ حمزہ اور یاسمین راشد اب بھی جیل میں حالانکہ اِن چاروں خواتین کے جرم کی نوعیت ایک ہی۔ سانحہ 9مئی کے ایسے کئی مفرور ضمانتیں کرواکر کھُلے عام دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ کارکنوں کی غالب اکثریت جیلوں میں سَڑرہی ہے۔ کیا عدل اِسی کانام ہے؟۔ کیا دینِ مبیں کی عملداری اِسی کوکہتے ہیں؟۔ کیا رَبِ لم یزل کی نیابت کاتقاضہ یہی ہے؟۔
تحریکِ انصاف کے بانی عمران خاں کو 3مقدمات میں اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 2مقدمات میں قیدِبامشقت کی سزا ہوئی۔ ہم سُنتے رہتے تھے کہ قید میں عمران خاں پر عنایات ونوازشات کی بارش ہورہی ہے جس پرہم نے کبھی یقین نہیں کیا۔ وجہ یہ تھی کہ عمران خاں کا شدیدترین سیاسی مخالف میاں شہبازشریف اِس وقت وزیرِاعظم ہے۔ جس شخص کے خلاف عمران خاں نے فوج میں بغاوت کی کوشش کی وہ اِس وقت آرمی چیف ہے اورعمران خاں کے حکم پر جس شخص کو بے جرم وخطا اعلیٰ ترین عدالت میں گھسیٹا گیاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان کاچیف جسٹس ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیرِاعظم میاں شہبازشریف، چیف آف آرمی سٹاف سید جنرل عاصم منیر اور چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کی موجودگی میں عمران خاں پر اڈیالہ جیل میں نوازشات کی بارش ہو۔ ہمارے اندازے مگر غلط تھے اور ہمارے تجزیے بھی۔ جب لاہور ہائیکورٹ میں عمران خاں کو جیل میں دی جانے والی سہولیات کی رپورٹ سامنے آئی تو ہم ششدر رہ گئے۔
اِس رپورٹ کے مطابق عمران خاں کو 7سیلز پر مشتمل سیکیورٹی وارڈ میں رکھاگیا ہے جہاں کم ازکم 35قیدی رہ سکتے ہیں۔ اِن 7وارڈز میں سے 2 عمران خاں کے زیرِاستعمال ہیں جبکہ 5 بند رکھے گئے ہیں البتہ اِن سیلزکا صحن عمران خاں کی چہل قدمی کے لیے مختص ہے۔ عمران خاں کے وارڈ کی حفاظت کے لیے 15اہلکار تعینات ہیں جبکہ جیل مینول کے مطابق 10قیدیوں پرایک اہلکار تعینات ہوتا ہے۔ 2سکیورٹی افسران اور 3اہلکار سی سی ٹی وی کیمروں پرمامور ہیں جبکہ سی سی ٹی وی کیمروں پر 5لاکھ روپے صرف ہوئے۔ یوں عمران خاں کی سکیورٹی پر 12لاکھ روپے ماہانہ خرچ ہورہے ہیں۔
عمران خاں اب تک ہماری رگوں سے نچوڑے ہوئے لہوکی بدولت اپنے کھانے پر 32لاکھ روپے ڈکار چکا ہے۔ اُس کے کھانے کے لیے سپیشل قواعدوضوابط تشکیل دیئے گئے ہیں۔ اُن کے لیے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کی زیرِنگرانی ایک سپیشل کچن میں کھانا تیار ہوتاہے جبکہ کھانا فراہم کرنے سے پہلے میڈیکل آفیسر یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل اِس کا معائنہ کرتا ہے۔ جیل کے میڈیکل آفیسر کے علاوہ 6میڈیکل آفیسران عمران خاں کی میڈیکل ٹریٹمنٹ کے لیے تعینات ہیں جبکہ سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی ایک ٹیم جیل کا ہفتہ وار دورہ کرتی اور عمران خاں کا چیک اپ کرتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو ورزش کے لیے ایک مشین اور دیگر اشیاء فراہم کی گئی ہیں جبکہ اڈیالہ جیل کی طرف جانے والے راستوں پر پولیس، رینجرز اور الیٹ فور س کے اہلکار گشت کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی تاریخ میں ایک مجرم کو اتنی سہولیات میسر ہونے کی کوئی ایک مثال بھی موجود ہے؟۔ اُس مجرم کو کو تو بامشقت قید کی سزا سنائی گئی تھی تو کیا یہ مشقت عمران خاں سے کروائی جارہی ہے یا پوری قوم اُس ”لاڈلے“ کو بھگت رہی ہے؟۔ دوسری طرف اُس کی اہلیہ کو اُسی کے محل (بنی گالہ) میں نظربند کیا گیا ہے۔ یہ کیسی بامشقت قید ہے جس میں ایک اپنے محل میں اور دوسرا جیل میں عوام کاخون چوستا ہوا۔ اگر 9مئی کی بغاوت کا یہی عوض ہے توپھر ہرشخص کیوں نہ اپنے آپ کو ایسے سانحات کے لیے تیار کرلے جس کے بدلے میں عیش کوشی مقدر ٹھہرتی ہے۔
اگر عمران خاں 92ء کے ورلڈ کپ کاہیرو ہے توپھر دنیا میں ایسے بیشمار ہیرو بکھرے ہوئے ہیں۔ اگر اُس نے شوکت خانم کینسر ہسپتال بنایا توسوال یہ کہ اِس ہسپتال کی تعمیر میں اُس کی جیب سے کیا گیا؟۔ میاں نوازشریف نے بطور وزیرِاعلیٰ پنجاب اُسے کینسرہسپتال کے لیے زمین الاٹ کی اور میاں شریف مرحوم نے ہسپتال کے لیے50کروڑ روپے عطیہ کیے جبکہ تب ہسپتال کی تعمیر کا کُل تخمینہ 70کروڑ روپے تھا۔ باقی پیسہ اعانتوں سے اکٹھا کیاگیا اور وہ اعانتیں آج بھی وصول کی جارہی ہیں لیکن ہسپتال کے آڈٹ کی کسی کو اجازت نہیں۔ اگر عمران خاں کو یہ سہولیات بطور سابق وزیرِاعظم مل رہی ہیں تو وہ صرف ایک بار ساڑھے 3سال کے لیے وزیرِاعظم رہے اور وہ بھی جنرل قمرجاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کی مہربانیوں سے جبکہ 3بار ملک کے منتخب وزیرِاعظم میاں نوازشریف کو جیل میں نہ صرف یہ کہ ایسی کوئی سہولت میسر نہیں تھی بلکہ اُنہیں توبسترِ مرگ پرپڑی اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی خیریت معلوم کرنے کے لیے ایک کال کرنے کی بھی اجازت نہ ملی۔یہی نہیں بلکہ عمران خاں نے تو واشنگٹن ڈی سی میں تقریر کرتے ہوئے بڑی نخوت سے کہا کہ ایک قیدی کو اے سی کی سہولت کیوں، گھر کا کھانا کیوں۔ پھر کہا ”میں واپس جاکر اُس کااے سی اُترواؤں گا اور گھر کا کھانا بند کروں گا“۔ یہ وہی میاں نوازشریف ہیں جن کے سامنے ملاقات کے لیے آئی ہوئی بیٹی مریم نوازکو گرفتار کرکے اُسے پھانسی کوٹھری میں رکھا گیا۔ یہ وہی میاں نوازشریف ہیں جو دِل کے مریض اور بائی پاس کروا چکے ہیں لیکن جب جیل میں اُنہوں نے کہا کہ اُنہیں دِل میں تکلیف ہورہی ہے تو جواب آیا کہ صبح دیکھیں گے۔ اِس دَورِ عمرانیہ میں شریف فیملی اور میاں نوازشریف کے چاہنے والوں کو بے جرم وخطا جیلوں میں ڈالا گیا۔ حاکمانِ وقت سے سُلگتا ہوا سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے جوعمران خاں پر نوازشات کی بارش ہورہی ہے؟۔ کیا واقعی زورآوروں اور اعلیٰ عدلیہ کا ایک مضبوط گروپ اُس کی پُشت پر ہے؟۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں