داد بیداد ۔۔۔۔۔ نقصان کس کا ہے ؟ ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ
گذشتہ دو دونوں سے اخبارات میں پرائیویٹ سکولوں کے خلاف بیان بازی اور تجز یہ نگاری ہو رہی ہے تاثر ایسا مل رہا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے ریگو لیٹری اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرتے حکومت کی رِٹ کو نہیں مانتے دوسری طرف نجی تعلیمی اداروں کی طرف ہڑتال اور ریلیوں کے ذریعے جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنا سرمایہ تعلیم پر لگا نے کے بجائے کسی اور کام پر لگائینگے خیبر پختونخوا کی غیر یقینی صورت حال میں دیو اروں سے اپنا سر ٹکرانے کی جگہ صوبے سے باہر جاکر کاروبار کرینگے نجی شعبہ حکومت کا شراکت دار اور ساتھی ہے حکومت ہر شعبے میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ماضی کی حکومتوں نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں نجی شعبے کو مراعات دیکر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنا یا تھا غیر جانبدار مبصر ین کی رائے یہ ہے کہ الیکشن سر پر آنے کی وجہ سے بعض لوگ جان بوجھ کر پرویز خٹک اور ان کی پارٹی کے خلاف نئے نئے محاذ کھلوار ہے ہیں پی ٹی آئی کا دشمن باہرسے نہیں آئے گا بلکہ دشمن اندر بیٹھا ہوا ہے یادش بخیر ! 2007 ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ جنرل مشرف کا جھگڑا ہوا وکلا ء سڑکوں پر آگئے تو مشرف کا بینہ کے ایک وزیر شیخ رشید سے صحافیوں نے سوال کیا شیخ صاحب ! آپ کی حکومت کے خلاف کون وکلا ء کو سڑکوں پر لا رہا ہے ؟ شیخ رشید نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا ہمیں دشمن کی ضرورت نہیں اپنے آپکو تباہ کر نے کے لئے ہم خود کافی ہیں یہ بات آج خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت پر بھی صادق آتی ہے حکومت کے لوگ خود اپنے لئے مخالفین تلاش کرتے ہیں اور مشکلات پیدا کرتے ہیں جہاں تک نجی تعلیمی اداروں کے خلاف یک طرفہ پروپیگینڈے کا تعلق ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ ریگو لیٹر ی اتھارٹی کی مخالفت کوئی نہیں کرتا قوانین کی پابند ی سے انکار کسی نے نہیں کیا چھٹیوں کے دوران ٹرانسپورٹ فیس لینے کی کوئی مثال نہیں ہے ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا چھٹیوں کے دوران اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرنا اوراس کے لئے فیس لینا تعلیمی اداروں کا مسلمہ اصول ہے اور یہ استاذ کا حق بھی ہے ریگولیٹری اتھارٹی میں بورڈ حکام اور ڈسٹرکٹ ایجو کیشن افیسر کا کردار مسلمہ حقیقت ہے اس سے کسی کو انکار نہیں انڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ کا کردار بھتہ خوری اور بلیک میلنگ کے زمرے میں آتا ہے اور یہ حکو مت کا کام یا منصب نہیں ہے مہذب معاشرے میں اس طرح کے ہتھکنڈوں کو مہذب لوگ کہیں بھی تسلیم نہیں کرتے شیخ رشید کی بات یہاں غلط نہیں دہر ائی گئی حکومت کے اندر کوئی ہے جو حکومت کے لئے نِت نئے مسائل پیدا کر رہا ہے نِت نئے معاملات کو سامنے لا کر نئے نئے مخالفین پیدا کئے جا رہے ہیں یہ جو ڑنے کا وقت ہے تو ڑنے کا وقت نہیں ہے خبریںیہ بھی آرہی ہیں کہ کابینہ کے اندر ایک گروہ پیدا ہو ا ہے جو وزیر اعلیٰ کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے سینیٹ الیکشن کا پھڈا بھی اس گروہ کا بنا یا ہوا شو شہ ہے 20 ایم پی ایز کو بد ظن کر کے نکالنے کا ا قدام بھی اس گروہ کی کارستانی ہے اس ماہ کے شروع میں خیبر پختونخوا ہ کے 8 امتحانی بورڈوں کے خلاف پھڈا ڈال دیا گیا 20 اپر یل کو ہونے والے امتحانات ملتو ی ہوئے میٹرک کے پر چوں کی چیکنگ کا عمل متاثر ہوا یہ بلا وجہ پھڈا تھا حکومت خود مختار بورڈوں کو ایلیمنٹری ایجو کیشن کی ماتحتی میں دیکر ان کا بیڑہ غرق کرنا چاہتی تھی 7 دنوں کی تالہ بندی کے بعد عارضی طور مسئلے کو حل کیا گیا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے اس طرح نجی شعبے میں سرمایہ کاری کر کے تعلیمی ادارے کھولنے والوں کو ہر اسان کر نے اور سیکشن افیسر کی ماتحتی میں دے کر بھتہ خواری کا نیا طریقہ متعارف کر انے کے خلاف آواز اُٹھا نے والے پی ٹی آئی کے مخالف نہیں پی ٹی آئی کے ہمدرد ہیں مگر حکومت نے سرمایہ لگانے والوں سے بات کرنے کے بجائے بچوں کی تنظیم اور والدین کی تنظیموں کے نئے عہد یدارسامنے لاکر شاگرد کو استاد کے مقابلے میں لاکھڑا کیا ہے اب استاد کے ساتھ اس کا شاگرد لڑے گا شاگرد کے والدین لڑ ینگے حکومت کو مزا آئے گا لطف آئے گا مگر یہ مزے اور لطف کی بات نہیں حکومت کا یہ منصب نہیں کہ وہ لوگوں کو لڑائے ، حکومت کا منصب یہ ہے کہ وہ لوگوں میں صلح کر ائے صوبے کے اندر تعلیمی انقلاب لانے میں 45 فیصد حصہ نجی شعبے کا ہے اور نجی شعبے میں سر مایہ کاری سے تعلیمی سہو لیات میں اضافہ ہو گیا ہے والدین نے فیسوں کے ذریعے اور طلبہ و طا لبات نے اپنی محنت کے ذریعے اس میں حصہ ڈال دیا ہے یہ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اپنی پارٹی کو اگر الیکشن جتوانا چاہتے ہیں تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ نجی شعبے کے تعلیمی اداروں کو اعتماد میں لیکر آگے بڑھیں اس نازک موقع پر نیا پھڈا تلاش کر نے والوں سے ہو شیار رہیں سپیکر اسد قیصر نے ماضی میں ایسے کئی مسائل حل کر نے میں مد د دی ہے اس مسئلے کو حل کر نے میں سپیکر کا کردار اہمیت کا حامل ہوگا