560

ڈھاکہ کا مقتل۔۔۔۔تحریر: مقصود الرحمان

logo
پروفیسر غلام اعظم ، علی احسن مجاہد، ملاعبدالقادر اور اب مطیع الرحمان نظامی۔ ایک داستانِ غم ہے، افسانہ خونچکاں ہے، بربریت کا طوفاں اور انتقام کی آگ ہے۔ مگرہم ہیں کہ کبیدہ خاطر ہورہے ہیں نہ رنجور ، حرفِ مذمت زبان سے نکالتے ہیں نہ بے وفائی سے شرماتے ہیں، جنھوں نے ہمارے لیے ، ہاں ہمارے لیے قربانیاں دیں، گردنیں کٹوائیں، اپنوں سے بغاوت کی، وہ آج ایک ایک کرکے ہمارے سامنے سولی چڑھائے جارہے ہیں، مگر ہم ’ مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے‘ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ وہ لہو جو ہماری محبت میں ٹپکا تھا، وہ سینہ جو ہماری خاطر چھلنی ہو ا تھا اور وہ گردنیں جو آج کاٹے جارہے ہیں، ہمیں یہ تک سوچنے کی فرصت نہیں ، کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ ان کا گناہ کیا تھا؟ وہ کس لیے قتل کیے جارہے ہیں؟ اور کس جرم کی انھیں سزا دی جارہی ہے؟
حادثہ کے ذمہ دار البدر کے جوان تو نہیں، فوجی حکمران اور ہوس اقتدار کے مارے بھٹوتھے،جس نے ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی، اُدھر تم اِدھر ہم کا نعریہ انفصال بلند کیا، اسے ہم نے فخر ایشیا بنادیا اور جس نے ایوان صدر کو شراب و کباب سے بھر دیا اورصبح و شام حسیناؤں کی زلفوں سے کھیلنے کو شغل بنائے رکھااسے تو ہم نے قومی پرچم میں لپیٹ کر توپوں کی سلامی کے ساتھ دفنا دیا۔ اور جن لوگوں نے اپنی جوانی اور زندگی ہمارے لیے قربان کی، انھیں دل ہی سے نہیں، خیال سے بھی نکال دیا۔ ہتھیار پھینکتے وقت بھی بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، کہ ہم سے تو حمیت کی ردا اتری جارہی ہے، تم بھی اپنا بندوبست کرلو۔ہم نے انھیں مکتی باہنی کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلتے بنے، اور وہ تادیر ظلم کی چکی پستے رہے، یوں ہمارے فرار اور القائے ہتھیار کے بعد پاکستان کی محبت میں لڑنے والے دس ہزار جوانوں کی گردنیں کاٹی گئیں۔اور ڈھاکہ میںآج وہ تاریخ پھر سے دہرائی جارہی ہے، اور اس وقت بچنے والوں کے لاشے پھانسے گھاٹ میں جھول رہے ہیں، مگر ہمارے پاس انھیں دینے کے لیے لفظوں کا کفن بھی نہیں ہے۔ حکمران اور ان کے کاسہ لیس سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستان کیا کرسکتا ہے۔ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔حالآنکہ علیحدگی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیاں جنگی جرائم کے بہانے انتقامی کارروائی سے باز رہنے کا معاہدہ طے پایا ہے۔مگر آج بنگال کی حسینہ اس معاہدے کی یکطرفہ خلاف ورزی کرکے انتقام لے رہی ہے،جس کا کوئی جواز نہیں۔ اگر یہ سزائیں بنگلہ دیش سے غداری کی وجہ سے سنائی جارہی ہیں تو سراسر غیر قانونی ہیں، کیونکہ اس وقت یہ لوگ پاکستان کے شہری تھے اور بنگالہ دیش کا کہیں کوئی وجود نہیں تھا۔اور اپنے ملک کے دفاع میں لڑنا آخر کس قانون اور انصاف کے مطابق بغاوت قرار دیا جاسکتا ہے؟ اور اگر یہ ڈراما انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کی بنیاد پر دی جارہی ہیں، تو اس ہدف صرف ’’البدر ‘‘ کیوں ہے؟ مکتی باہنی کے جرائم اور انسانیت سوز کارنامے کیوں بھلائے جارہے ہیں؟
ہم میں سے بہت کم لوگ ’’البدر‘‘ اس کے کردار سے متعلق جانتے ہیں،پاکستان کو بچانے کی خاطر ان کی قربانیاں اور ڈنڈوں کے ذریعے مکتی باہنی کے دھشت گردوں سے ان کے مقابلے کی کہانیاں قرون اولیٰ کے مجاہدین کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ مگر ہمارے صحافی برادری کسی کی بے جا مدح اور کچھ کی بے سبب قدح سے دال روٹی کی کمائی میں مصروف ہے، جوانوں کو کون بتائے گا کہ وہ آج بنگال میں جن کے سروں سے قتل گاہیں سجائی جارہی ہیں، ان کے جرم پاکستان سے محبت ہے۔ جس وقت ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور زیادتیوں کی وجہ سے پورا بنگال شیخ مجیب کی سربراہی اور انڈیا کی سرپرستی میں پاکستان کا باغی بنا تھا ، اس وقت یہ لوگ وطن عزیز کو بچانے اور پنجابی ، سندھی، بلوچی ، پشتو بولنے والوں کو اپنی زبان بنگالی بولنے والوں پر ترجیح دیکر میدان میں اترنے اور سر کٹوانے والے لوگوں کے باقیات ہیں۔ اور اسی جرم میں آج وقفے وقفے سے تختہ دار کی زینت بنائے جارہے ہیں۔
مزید کہانی میں آصف محمود صاحب کی زبانی آپ کو سناتا ہوں، لکھتے ہیں:
’’بنگلہ دین نے مطیع الرحمان کو سزائے موت دیدی۔ 72 سالہ مطیع الرحمان اُس وقت کے البدر کے کمانڈر( اور اب جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر تھے) آج ہم میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ البدر کیا تھی؟ یہ تنظیم (بنگال میں انڈین فوج سے نبرد آزما) میجر ریاض حسین ملک نے بنائی تھی۔اور میجر سے میرا تعلق دو عشروں پر محیط ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ راجشاہی میں فوج کی نفری کم تھی اور ہمارے لیے ممکن نہیں تھا کہ ہم پلوں اور راستوں کی نگرانی کرسکیں۔ ایک روز کچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ ہم دفاع وطن میں آپ کے ساتھ دینے کے لیے حاضر ہیں۔ان جوانوں کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔میجر ریاض نے انھیں کہا کہ ٹھیک ہے آپ فلاں فلاں پلوں پر پہرہ دیجیے۔ایک نوجوان نے کہا کہ میجر صاحب، ’’ہمیں اپنی حفاظت اور دشمن کے مقابلہ کے لیے کچھ ہتھیار دیں‘‘ یہ وہ دن تھے جب ہائی کمان کی طرف سے حکم آیا تھا کہ تمام بنگالیوں کو غیر مسلح کردو۔میجر ریاض کی آج بھی آہیں نکلتی ہیں جب وہ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ اندر گئے اور سورۃ یٰسین کا ایک نسخہ اس نوجوان کو پکڑا دیا کہ اپنی حفاظت کے لیے میں اس کے سوا کچھ نہیں دے سکتا ۔وہ نوجوان چلے گئے گھر نہیں ، بلکہ مشن پر۔بانس کے ڈندے انھوں نے بنالیے اور ندی نالوں اور پلوں پر جہاں سے مکتی باہنی اسلحہ لاتی تھی، پہرے شروع کردیے۔میجر ریاض بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے اسلحہ نہیں مانگا۔لیکن میجر کے من کی دنیا اجڑ چکی تھی۔فوجی ضابطے انھیں عذاب لگ رہے تھے۔ایک روز تیس نوجوان ان کے پاس آئے کہ انھیں بھی اس رضا کار دستے میں شامل کرلیں۔ ان میں ایک بچہ بھی تھا۔ میجر نے کہا کہ بیٹا تم چھوٹے ہو، واپس چلے جاؤ۔وہ بچہ اپنی ایڑیوں پر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا : ’’میجر صاحب اب تو بڑا ہوگیا ہوں‘‘ میجر تڑپ اٹھے ، انھیں معاذ اور معوذ یاد آگئے۔جن میں ایک نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اسی طرح ایڑیاں اٹھاکر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اتنا چھوٹا نہیں ہے کہ جہاد میں حصہ نہ لے سکیں۔میجر نے اس بچے کو سینے سے لگایا اور ہائی کمان کا حکم پامال کرکے ان نوجوانوں کو مسلح کردیااور جنگ بدر کی نسبت سے اس دستے کا نام ’’البدر ‘‘ رکھ دیا۔کئی ہفتے بعد ہائی کمان نے ان سے پوچھا کہ آپ کے علاقے میں اتنا امن کیسے ممکن ہوسکا۔تو میجر نے یہ راز فاش کیا کہ میں نے آپ کی حکم عدولی کی اور تمام بنگالیوں پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا، بلکہ کچھ بنگالی نوجوانوں کو مسلح کرکے مکتی باہنی اور بھارت کے مقابلے میں کھڑا کردیا ہے۔ تب یہ تنظیم پورے بنگال میں قائم کردی گئی۔
ایک روز میں نے میجر ریاض سے پوچھا کہ البدروالوں نے اپنے مخالفین پر بہت ظلم کیے ہوں گے؟ یہ سوال پوچھتے ہوئے میرے ذہن میں موجودہ اسلامی جمعیت طلبہ کا کردار تھا، جو اختلاف رائے برداشت نہیں کرسکتی اور گاہے تشدد پر مائل ہوجاتی ہے۔یہ سوال سن کر میجر کو ایک چپ سی لگ گئی۔کہنے لگے: میں اپنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے البدر کے لوگوں سے زیادہ قیمتی اور نیک لڑکے نہیں دیکھے، یہ لڑکے اللہ کا معجزہ تھے،میرے علم میں کوئی ایک واقعہ بھی نہیں کہ انھوں نے کسی سے ذاتی انتقام لیا ہو۔مجھے تو جب پتا چلا کہ ان کی فکر ی تربیت مودودی نام کے ایک آدمی نے کی ہے، تو اشتیاق پید ا ہوا کہ دیکھوں یہ مودودی کون ہے۔ برسوں بعد جب میں بھارتی قید سے رہا ہوا ، تو میں اپنے گھر نہیں گیا، میں سیدھا اچھرہ گیا، مولانا مودودی کے گھر اورمیں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ شخص کیسا ہے، جس نے ایسے باکردار اور عظیم نوجوان تیار کیے۔‘‘
آج یہی البدر پھانسی گھاٹ پر لٹک رہی ہے اور ہم ایک لفظ مذمت بھی ادا نہیں کرسکتے۔ہم سا بھی کوئی بے حس ہوگا۔کیا یہ بھی نامناسب ہوتا کہ آج پارلیمان کے لان میں پاکستان پر قربان ہونے والے مطیع الرحمان نظامی کی جنازہ ہی پڑھ لی جاتی۔ سماج کدھر ہے؟ آزاد میڈیا کو کیا ہوا؟حقوق انسانی تخلص کرنے والی سول سوسائٹی کہاں کھو گئی؟سکوت مرگ کیوں ہے؟ کیا سب مرگئے؟
جماعت اسلامی نے بھی کیا قسمت پائی ہے، پاک فوج شہداء کے بعد اس ملک پر قربان ہونے والوں میں یہ سب سے آگے ہے لیکن اُدھر بھی یہ غدار اور اِدھر بھی یہ غدار۔اس ملک کو نوچنے والے گدھ یہاں معتبر ٹھہرے لیکن وطن عزیز سے محبت یہاں جرم ہوا۔ یہاں نہ سوئس بینکوں میں لوٹ کا مال رکھنا جرم ہے نہ پانامہ لیکس میں بے نقاب ہونے والے کرتوت۔بس صرف پاکستان سے محبت ہی جرم ہے۔
اس جرم میں مقتل آباد کرنے والوں پر نہ کوئی پرسہ نہ کوئی آنسو۔ ’’ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں